کیا بنے گا ہمارے قومی اداروں کا
ملک میں سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے
ملک میں سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے، ہر سیاسی جماعت سمیت مرکزی حکومت اور سندھ کی صوبائی حکومت جلسے جلوس، ریلیاں اور دھرنوں سمیت لانگ مارچ بھی اسلام آباد تک لے جانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، بیماری ہے اور کورونا کی نئی صورت حال بھی۔ سردیوں کا موسم گزر رہا ہے بعض بالائی اور پہاڑی علاقوں میں شدید بارشیں اور برف باری بھی جاری ہے اور ملک میں تبدیلی کے نعرے بھی لگ رہے ہیں مگر تبدیلی نہیں آئی۔
نچلی سطح پر اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے بھی بات جاری ہے۔ محنت کشوں کے مسائل پر بہت کم باتیں ہو رہی ہیں۔ دواؤں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ پنجاب، کے پی میں صحت کارڈ بھی دیے جا رہے ہیں، بلوچستان اور سندھ میں ابھی تک یہ انتظامات نہیں ہوئے۔
اسپتالوں میں مریضوں کا بے پناہ رش بھی ملک بھر میں خودکشیاں اور قتل وغارت بھی ڈکیتیاں عام ہو رہی ہیں اور ملک کے غریب اور متوسط عوام شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے توقع کر رہے ہیں کہ ہمارے لیے بھی اقدامات کیے جائیں مگر ایسا نہیں لگ رہا کہ کچھ ہوگا۔ ہم بات کر رہے ہیں کہ ملک کے قومی اور اہم ادارے نجکاری کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں آج ہی اسٹیل ملزکے ساتھی ریحان نے کہا ہے کہ اسٹیل ملزکا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔
ساڑھے چھ ہزار ملازمین کو نکال دیا گیا ہے واجبات ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ اسٹیل مل کی ہیوی مشینری چوری ہونے کے امکان کی باتیں ہو رہی ہیں یونین کا ریفرنڈم بھی نہیں ہو رہا ہیصعنتکار کمیونٹی کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے نجکاری بہت ضروری ہے۔ اس کمیونٹی نے پہلے بھی کہا تھا کہ پاکستان ریلوے، پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز، ہائی ویز اور ایئرپورٹس کو نجکاروں کے حوالے کردیا جائے۔
ملکی معیشت بہتر ہو جائے گی اور ملک ترقی کرنے لگے گا۔خیر یہ باتیں تو 1991 سے چل رہی ہیں اور کئی ادارے جن میں گھی کی انڈسٹری، سیمنٹ کے کارخانوں سمیت گیس، بینکوں سمیت کئی ادارے فروخت کردیے گئے ۔ ان اداروں سے آنیوالی اربوں روپے کی آمدنی کہاں گئی کوئی حساب کتاب کیا گیا؟ کیا نیب نے کبھی ان لوگوں کے بارے میں مقدمہ بنایا اور اب جو قومی ادارے بیچے جا رہے ہیں ان کا کیا بنے گا؟ اسٹیل ملز کا معاملہ رکا ہوا ہے۔
کے ای ایس سی اور ٹیلی کام کا کیا بنا، پی آئی اے کا معاملہ بھی رکا ہوا ہے۔ پاکستان ریلوے کی 66 ٹرینوں کی کمرشل نج کاری کردی گئی صرف ٹکٹ بیچنے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ ریلوے کی قیمتی اراضی اور زمین فروخت کی جا رہی ہے کئی ایک ریلوے اسٹیشن بھی فروخت کردیے گئے، ریلوے ملازمین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے کم ہو کر 64 ہزار رہ گئی۔ افسران کی تعداد میں بے پناہ اضافہ کردیا گیا ہے۔
ریلوے منسٹری الگ، ریلوے بورڈ الگ، ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور الگ، ریلوے کے 8 ڈویژن الگ ہیں افسران کی فوج ظفر موج الگ ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایک پروجیکٹ بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی ریلوے خسارہ میں جا رہی ہے اس طرح پی آئی اے، اسٹیل ملز، سوئی سدرن گیس، کھاد کی فیکٹریاں، گنے اور شوگر ملز کے مالکان، بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کے مالکان، زرعی زمینوں کے جاگیردار، بڑی بڑی بلڈرز مافیا کے کرتا دھرتا، انکم ٹیکس کے اہلکاروں، ایف بی آر کے پاس ٹیکس نہیں جمع کرا رہے ہیں صرف تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔
وفاقی کابینہ وزیروں، مشیروں کی فوج ظفر موج، سینیٹ کے ارکان، صوبائی حکومتی وزرا، مشیران سمیت ارکان اسمبلی بھی لوٹ مار میں ملوث ہیں۔ ایک خبر کے مطابق وفاقی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کو ٹول ٹیکس سے نجات دلانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
عوام پریشان ہیں کہ وہ کہاں جائیں۔ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے۔ اسپتالوں اور دواؤں کا مسئلہ ہے، بھوک، غربت، بیماری، خودکشی سمیت بڑھتی ہوئی بے لگام مہنگائی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ملک سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کردیا جائے، بے زمین ہاریوں، کسانوں میں چھوٹی چھوٹی سرکاری زمین انھیں دے دی جائے تاکہ دیہات کے غریب عوام کچھ بہتر زندگی گزار سکیں۔
بڑے بڑے شہروں، کراچی، حیدرآباد، سکھر، ملتان، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور سمیت کوئٹہ بلوچستان میں بڑے بڑے مالز بڑے بڑے ہوٹلز، بڑے بڑے کلب اور سڑکوں پر دوڑتی ہوئی بڑی بڑی گاڑیوں سمیت کاریں ہی کاریں نظر آتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہاں غربت ہے ہی نہیں۔
بڑے بڑے دسترخوان موجود، بڑے رہائشی گھر موجود ہیں۔ نوکر چاکر اور گارڈ موجود ہیں، دوسری جانب کچی آبادیاں، ٹوٹی پھوٹی بسیں، ویگن، رکشہ اور چنگ چی رکشے، اور موٹر سائیکلیں ہیں۔ غریب عوام دیکھ کر پریشان ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ چھوٹے ہوٹلز میں ایک دال، سبزی، گوشت کی ایک پلیٹ میں تین افراد کھانا کھا رہے ہیں، شریف اور لوئر مڈل کلاس سمیت اب مڈل کلاس کے دوست بھی اپنے گھر پر ہی کھانا کھاتے ہیں۔
دستر خوان پر کبھی نہیں جاتے بس، ویگن، رکشہ میں سفر کرتے ہیں، حادثات کا شکار بھی ہو جاتے ہیں، شہروں میں ڈکیتی کرنا عام سی بات ہے۔ خیر میں کس طرف چلا گیا اصل موضوع تھا کہ کیا قومی اداروں کو بیچ دیا جائے گا؟ پھر کیا ہوگا حکومت کے پاس۔ نہ ریل ہوگی، نہ جہاز ہوں گے نہ اسٹیل مل ہوگی نہ گھی اور شوگر ملیں، نہ ہی سیمنٹ کی فیکٹری اور نہ ہی ایئرپورٹ، نہ ہی ہائی ویز اور نہ ہی سوئی گیس۔ پٹرولیم کی صنعت تو پہلے ہی پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہے اب باقی تمام قومی اداروں کو بھی فروخت کردیا گیا تو پھر کس پر حکومت کریں گے۔
اس لیے حکمرانوں سے کہنا پڑے گا کہ خدا کے واسطے اپنا ملک بچا لو، اپنے قومی اثاثوں کو فروخت ہونے سے روک لو۔ ان کی دیکھ بھال کرو۔ ان کو ٹھیک کرو، ان کے محنت کشوں کو اعتماد میں لے کر ٹھیک کیا جاسکتا ہے اور ملک بہتری کی طرف جا سکتا ہے ورنہ عوام کا سیلاب آئے گا، بڑا خون خرابہ ہوگا۔ نہ جاگیریں بچیں گی، نہ محلات محفوظ ہوں گے اس لیے بہتر ہے کہ کوئی ایسی تبدیلی آئے کہ ہر انسان کو زندہ رہنے کا حق مل سکے۔
انسانی حقوق بحال ہوسکیں۔ ہر ایک کو رہائش دو، علاج کرو، روزگار دو، صحت اور تعلیم دو، غریب عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرو، انھیں ہنرمند بناؤ، سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم کہاں جا رہے ہیں۔ کچھ خدا کا خوف کریں انصاف دیں۔ صحافت کو آزاد کریں، تمام پابندیاں ہٹائیں جینے کا حق دیں مرنے سے بچائیں۔ خودکشیوں سے بچائیں، چوری اور ڈاکہ زنی سے بچائیں، عدالتوں میں انصاف کا نظام قائم کریں، غریب قیدیوں کو رہائی دیں۔اب آخر میں آنے اور جانے والے حکمرانوں سے مطالبہ کریں گے کہ اگر آپ نے قومی اداروں کو بیچ دیا تو کیا ہمارا ملک ترقی کر جائے گا۔
کیا ہم ترقی پذیر ملکوں میں شامل ہو جائیں گے۔ کیا نج کاری سے بھوک، غربت، بیماری، جہالت اور بے روزگاری ختم ہو جائے گی، اگر ایسا ہو جائے تو پھر ملک کو داؤ پر لگا دو۔ تمام ادارے فروخت کردو، انسانوں کو تو فروخت نہ کرو۔ ملک کی حالت بہتر کردو۔ تبدیلی لے کر آؤ۔ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار دو، کرپشن کرپشن کی باتیں خوب ہو گئیں۔ ڈیڑھ سال باقی ہے۔ ایک لاکھ ہی ملازمتیں دے دو، ایک کروڑ کو چھوڑ بھی دو۔ 50 لاکھ گھر نہ دو صرف 5 لاکھ ہی گھر بنا کر دے دو، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے رہو، پچھلے بھی لیتے رہے آپ بھی لیتے رہو۔
تمام وعدے پورے نہ کرو، صرف چند وعدے ہی پورے کردو۔ لوگوں کو بینک کے قرضے پر نہ ڈالو۔خدا تمہارا بھلا کرے گا۔ عوام آپ کی طرف پھر آجائیں گے کچھ اچھے کام ہی کر جاؤ تاکہ آیندہ انتخاب میں پھر عوام آپ کے مخالف امیدواروں کو ووٹ نہ دے دیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ ایک پچ پر کھیل کھیلتے رہیں اور '' اسٹیٹس کو'' کو توڑ ڈالیں۔ امید ہے کچھ بہتری آئے لیکن خدارا قومی ادارے نہ فروخت کرو۔ ملک کو بچا لو، اداروں کو بچا لو، ورنہ پھر شاید موقعہ نہ ملے ہی وقت ہے۔ سچ بولو، سچ بولو!
خالد علیگ یاد آگئے:
تم کچھ بھی کہو میں بخدا کچھ نہیں کہتا
سچ کہتا ہوں اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہتا
مجھ سے تو وہ کہتا ہے کہ وہ کہہ کہ جو سچ ہے
تم بھی توکہو تم سے خدا کچھ نہیں کہتا