بل گیٹس

ویسے تو بل گیٹس کی ایک بڑی سافٹ ویئرکی کمپنی ہے


Shehla Aijaz February 11, 2022
فوٹوفائل

کراچی: ویسے تو بل گیٹس کی ایک بڑی سافٹ ویئرکی کمپنی ہے، چھیاسٹھ سالہ گیٹس کمپیوٹر کی انڈسٹری میں گھس کر اس قدر امیر ہوگئے کہ انھیں دولت کی کھپت کہاں کریں اور کہاں نہ کریں کی سوجھ بوجھ بھی نہیں رہی، ہاورڈ یونیورسٹی سے نکلے تو نجانے کیا کچھ سوچا ہوگا ، پر محسوس یہ ہو رہا ہے کہ اب وہ پیر سائیں بننے کی کوشش بھی کر رہے ہیں مثلاً کچھ عرصہ پہلے ان کی ایک پیش گوئی سامنے آئی تھی کہ کورونا کی چوتھی لہر میں پہلی لہرکی طرح شدت نہ ہوگی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کورونا کی ساری لہروں سے بل گیٹس کی آخر کیسی آشنائی ہے کہ انھوں نے کھل کر یہ کہہ ڈالا؟

''جا بچہ! اب کے آنے والی لہر میں طاقت نہ ہوگی۔''

ساری دنیا کو گھروں میں ان کی اپنی مرضی اور مجبوری سے بند کروا کر شاید اب وہ بور ہو چکے ہیں تو سوچا کہ چلوکچھ اور شغل کر لیا جائے۔ بل گیٹس کی اسی طرح کی حرکتوں کے باعث ان کے اپنے مذہبی پیشوا ان سے نالاں ہیں ۔

بل گیٹس کی حرکتوں کے باعث پاکستان میں مہنگائی کا گراف جس تیزی سے اوپر گیا ہے محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب عوام کو تمام ضروریات زندگی کا بائیکاٹ کرنا ہی پڑے گا یا تیزی سے گزرتے وقت کے دھارے کو پیچھے لے جانا پڑے گا جب سڑکوں پر خال خال ٹریفک چلتا تھا اور گھوڑا گاڑیاں ٹک ٹک کرتی گزرا کرتی تھیں ، لوگ سائیکلوں پر بڑے مزے سے آفس جایا کرتے تھے۔ ویسے بھی آج کل الیکٹرک کاروں کے بارے میں بڑی خبریں سرگرم ہیں اور ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بل گیٹس کوئی نیا بزنس سامنے آئے تو ہاتھ نہ رکھیں۔

جی جناب! ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری مجیب اعجاز نے اس میدان میں ایک ایسا ہی کارنامہ انجام دیا ہے کہ جس سے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن ہو گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھ گئے ہیں لیکن یہ روشنی فی الحال اس کالم کی حد تک ہی ہے۔ الیکٹرک کار کو ماحول دوست بھی کہہ سکتے ہیں اس کی بیٹری کو چارج کرکے چلایا جاتا ہے جس سے فیول کا جھنجھٹ ختم۔2020 کے اختتام تک دس ملین الیکٹرک کاریں سڑکوں پر رواں دواں تھیں۔

عوام میں اس طرح کی گاڑیوں کو بہت سراہا گیا، ماحول میں بڑھتی آلودگی اور بیماریوں کی روک تھام کے لیے یہ ایک بہترین ذریعہ ثابت ہو رہی ہیں، لیکن ان گاڑیوں کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ یہ زیادہ لمبے سفر کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ ان کے مقابلے میں گیس سے چلنے والی گاڑیاں زیادہ لمبے روٹ پر بہتر نتائج دیتی ہیں۔ اس کے باوجود بھی ان گاڑیوں کی فروخت خوب جاری ہے۔

بات ہو رہی تھی پاکستانی مجیب اعجاز کی کہ جنھوں نے الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ایسی بیٹری ایجاد کر ڈالی جو زیادہ لمبے سفر پر بھی چل سکتی ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں میں ٹیسلا خاصی مقبول ہے لیکن اس میں تین چار سو میل سے زیادہ چلنے کی طاقت نہیںرہتی اور یہی وجہ تھی کہ جس نے الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان کو پریشان کر رکھا تھا، لیکن مجیب اعجاز نے اس پریشانی کا حل نکال لیا۔ ان کی ایجاد کردہ بیٹری ایک چارج میں ایک ہزار میل سے زیادہ سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ٹیسلا الیکٹرک کار بنانے والی بڑی کمپنی نے اس بیٹری کو اپنی گاڑیوں کے لیے منتخب کرلیا۔ یہ ایک بڑا پروجیکٹ تھا اور مجیب اعجاز تن تنہا اس بڑے پروجیکٹ کو مکمل نہیں کرسکتے تھے لہٰذا اس موقع پر کود پڑے بل گیٹس اور انھوں نے یہاں بھی پچیس ملین سے زیادہ کا سرمایہ مہیا کیا اور اس طرح مجیب اعجاز کی کمپنی ''ون نیکسٹ انرجی'' بل گیٹس کے ساتھ مل کر اس بھرپور طاقت والی بیٹری کو بنا رہی ہے ۔

مجیب اعجاز اس سے پہلے بھی ایپل آئی فون بنانے والی کمپنی میں ایک بڑے عہدے پر کام کر چکے ہیں۔ ہائبرڈ بیٹری یقینا آنے والے وقتوں میں بہت اہم پیش رفت ثابت ہوگی اور تب شاید پٹرول اورگیس سے چلنے والی بڑی عالی شان پاکستان میں چنگ چی رکشے کی مانند چلیں۔ بہرحال یہ تو خواب ہے ایک دیوانے کا لیکن ترقی کی راہوں پر گامزن اس دنیا میں انسان کیا کھو رہا اور کیا پا رہا ہے آنے والا وقت اس کا بھی تعین کرے گا، بہت سے ڈگری یافتہ شاید بے کار ہو جائیں۔

پاکستان کے حوالے سے یہ بات خاصی خوش آیند ہے کہ پہلے انسانی دل کی جگہ جانور کے دل کی پیوند کاری کرکے ڈاؤ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر محی الدین نے کارنامہ اپنے نام کرلیا تھا جو میڈیکل کی دنیا میں ایک بڑا انقلاب لے کر آیا ہے بس ڈاکٹر صاحب سے گزارش اتنی ہی تھی کہ جس جانور کے دل کو انھوں نے انسان کے دل میں لگانے کا جو کامیاب تجربہ کیا ہے۔

اس کی جگہ بکری، گائے، بھینس یا معصوم بلی پر بھی تجربات کرلیتے تو کم ازکم حرام حلال کی جھنجھٹ تو نہ رہتی۔ بہرحال مجیب اعجاز نے الیکٹرک کار کے لیے جس مضبوط دل یعنی چارج ہونے والی بیٹری کا کامیاب تجربہ کرکے اسے کاروباری سطح پر لائے ہیں یقینا یہ ہم سب پاکستانیوں کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ بل گیٹس سے کوئی ذاتی رنجش نہیں ہے پھر بھی ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر کسی بڑے انقلاب کے پیچھے اس بابے کا ہاتھ ہے، چاہے وہ کمپیوٹر سافٹ ویئر ہو، ایپل کا فون ہو یا کورونا کی ساری لہریں۔ کچھ تو راز کی بات ہے اور ہم لوگ تو خیالات کی پینگیں بڑھانے کے ماہر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔