دالوں کا عالمی دن اور پاکستان میں دالوں کی درآمد
پاکستان کو دالوں کو محفوظ کرنے اس کی پیداوار بڑھانے اور قیمت کو کم کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے
عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوری میں عالمی سطح پر مہنگائی کی شرح میں دسمبر کے مقابلے میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
دسمبر 2021 کے مقابلے میں جنوری 2022 میں عالمی منڈی میں توانائی کی قیمتوں میں 8 فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں اس بات کا ذکرکیا گیا ہے کہ زرعی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اوسطاً 5.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پاکستان کی اہم ترین اشیائے خور و نوش کی درآمدات کے حوالے سے دالیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، پاکستان کے زرعی سائنسدان اور ماہرین معاشیات دالوں کی درآمد اور ملکی پیداوار اور صوبائی محکمہ زراعت دالوں کی کاشت زیر کاشت رقبہ پیداوار سے متعلق اور کاشتکاروں کے مسائل سے متعلق بھرپور کارروائی کرتے ہوئے میدان میں اتریں تو ایسی صورت میں کوئی وجہ نہیں ہے کہ ملک دالوں کی پیداوار میں خودکفیل ہوتے ہوئے دالوں کی کھپت پیداوار سے زائد ہونے کی صورت میں پاکستان میں حالات اس طرح بدل سکتے ہیں کہ مالی دباؤ میں کمی واقع ہوکر رہے گی۔ اس کے علاوہ دال وہ جنس ہے جسے طویل عرصے تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
اس طرح دوسری فصل کے آنے تک دالوں کی قلت کے خدشات کو کم کرنے کی صورت میں دالوں کی بڑھتی ہوئی قیمت کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے ، لیکن ایسے وقت میں کیا کیا جائے جب دالوں کی درآمدی مقدار میں روز بہ روز اضافہ ہی ہو رہا ہے اور ملکی دالوں کی پیداوار میں اضافے کے امکانات نظر نہیں آ رہے ہوں۔ عالمی بینک نے خوراکی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی رپورٹ دی ہے۔
اس رپورٹ کو مدنظر رکھیں اور دیگر وجوہات بھی یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ عالمی منڈی میں دالوں کی قیمت میں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے جس سے پاکستان کی طرف سے مالی اخراجات بڑھنے کے باعث زرمبادلہ خرچ زیادہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے موسمی حالات اور زمینی کاشت دالوں کی پیداوار میں اضافے سے بھرپور مطابقت رکھتے ہیں، لیکن ہر حکومت کی طرف سے طویل عدم توجہی کے باعث دالوں کی بڑھتی ہوئی درآمدات کو کسی طرح کم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی پیداوار بڑھائی جا رہی ہے۔
چند برس قبل کی بات ہے جب اقوام متحدہ نے 2016 کو دالوں کا بین الاقوامی سال کہنے کے بعد 2018 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 فروری کو دالوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اگر پاکستان صرف دالوں کی پیداوار میں خودکفیل ہو جائے تو مجموعی طور پر اربوں ڈالرکا زرمبادلہ بچایا جاسکتا تھا۔
پاکستان اگر آئی ایم ایف کے دباؤ سے نکلنے کے لیے کوئی منصوبہ زیر غور لانا چاہتا ہے تو کسی گوشے میں دالوں کی درآمد کو کم سے کم کرنے کو جگہ دینا ہوگی ، اگر گزشتہ مالی سال کے دالوں کی درآمد سے متعلق اعداد و شمار سے بات شروع کرتے ہیں تو 12 لاکھ 66 ہزار میٹرک ٹن دالوں کی درآمد پر 71 کروڑ ڈالر کے اخراجات آئے تھے۔
گزشتہ سے پیوستہ سال 2019-20 درآمدی مقدار کے لحاظ سے بہت زیادہ فرق نہیں ہے یعنی 12 لاکھ 11 ہزار میٹرک ٹن دالوں کی درآمد پر 61 کروڑ45 لاکھ ڈالر صرف ہوئے تھے۔ 2018-19 کے دوران پونے دس لاکھ میٹرک ٹن دالوں کی درآمد پر 50 کروڑ59 لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ خرچ ہوا تھا۔ اور 2017-18 کے دوران تقریباً 8 لاکھ میٹرک ٹن دالوں کی درآمد پر 53 کروڑ48 لاکھ ڈالرز صرف ہوئے تھے۔
اگر ان چند سالوں کو ہی مدنظر رکھیں تو سالانہ تقریباً 13 لاکھ ٹن تک کی درآمدی ضروریات کا امکان اب ظاہر کیا جا رہا ہے اور پون ارب ڈالر سالانہ سے زائد کے اخراجات آسکتے ہیں۔
عالمی منڈی میں خوراکی اشیا کی قیمتوں میں جس طرح اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان میں جیسے جیسے گوشت کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے اور سبزیوں کے داموں کو پر لگ رہے ہیں ایسے میں دالوں کی کھپت بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں دالوں کی قیمت بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس اضافے میں درآمدی دالوں کا اہم کردار ہے۔ کیونکہ عالمی منڈی میں دالوں کی قیمت بڑھ رہی ہے۔
پاکستان کو دالوں کو محفوظ کرنے اس کی پیداوار بڑھانے اور قیمت کو کم کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت غریب عوام کو ریلیف دینے کی خاطر مہنگائی کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے عوام کی اکثریت غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دالیں پروٹین کے حصول کا سستا اور بہترین ذریعہ ہیں ، اگر دالوں کی قیمت کم ہو تو اس کی کھپت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
دالیں خشک آب و ہوا میں بھی پیدا کی جاسکتی ہیں۔ ایسی زمینیں جہاں فصلیں کم پیداوار دے رہی ہوں دالوں کی مناسب پیداوار کا حصول ممکن ہے۔ دالیں جلد خراب نہیں ہوتیں۔ کچھ عرصہ قبل اور اب بھی مونگ کی دال میں دیگر لوازمات کو شامل کرکے محفوظ کرلیا جاتا تھا اورکبھی گھر میں گوشت، سبزی حتیٰ کہ دال بھی میسر نہ آئے تو مونگ کی دال جسے دیگر لوازمات کے ساتھ مرتبان میں محفوظ کرلیا گیا تھا اسے نکال کر خوش ذائقہ سالن تیار کرلیا جاتا تھا۔
دالوں کی کاشت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی کاشت پر اخراجات بھی زیادہ نہیں آتے اور اسے نقد آور فصل کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں دالوں کے بڑے برآمدی ملک بھی ہیں اور درآمدی ملک بھی ہیں۔
پاکستان دالوں کے درآمدی ملک کی صف میں شامل ہے۔ حکام ماہرین زراعت معاشی و زرعی منصوبہ ساز اگر دالوں کی پیداوار بڑھا کر پاکستان کو برآمدی ملک کی صف میں شامل کرلیتے ہیں تو ایسی صورت میں پاکستان کو مالی دباؤ سے نکالنے میں دالوں کا اہم کردار ہوگا۔