چنار پہاڑ اور ماریہ
ماریہ ترانہ کو ارباب اقتدار کی آنکھوں میں آنکھ ڈالنے اور اپنی بات کہنے میں کبھی مشکل پیش نہ آئی
آج اس پہاڑوں کی لڑکی کے جذبے اور عزم نے مجھے کشمیر کی خوبصورت وادیوں میں پہنچا دیا،یہ وہ دکھی کشمیر ہے جو مفادات کی چکی میں مسلسل پس کر لہولہان ہو رہا ہے مگر مجال کہ دنیا کو اس کی قدرتی اور سماجی آزادی کی کوئی فکر ہو۔
ماریہ ترانہ کشمیر کی سر سبز، برف پوش پہاڑوں اور شفاف بہتے پانی کے دھاروں کی وہ نرم گفتار مگر پر عزم جذبوں کا اظہار ہے جو اپنے اندر کی کشمیری خوبصورتی کو عملی طور سے کشمیر کے افراد کی آزادی سے جوڑنے میں دشوار گذار پگڈنڈیوں کی پرواہ کیے، بغیر بلا خوف و خطر اپنے مقصد کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہے،وہ نہ صرف آزاد رہنا چاہتی ہے بلکہ اپنی آزادی کی حقیقت کو کشمیر کے عوام کی مکمل آزادی سے نتھی کرنے میں دن رات جتی ہوئی ہے۔
سروقد چنار اور دلکش وادیوں کی یہ قامت بھری لڑکی اپنی وادی کی آزادی اور اس کے قدرتی حسن پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں۔خوبصورت خوابوں کی یہ ماریہ اقبال ترانہ لندن سے جہاں اعلی تعلیم لیے ہوئے ہے، وہیں وہ کشمیر کی تہذیب،موسیقی،لے سر اور وہاں کے روایتی احساس سے بھی پیار کرتی ہوئی دیسی منڈی کے روپ میں آزاد فضا میں مست و مگن رہتی ہے۔
ماریہ نے پوری دنیا گھوم کر اپنے کشمیری عوام کی آواز پہنچانے کی کوشش کی ہے،وہ کشمیر کے عوام اور ان کی آزادی کی دھتی پہاڑوں جسے عزائم رکھنے والی لڑکی فرانس،سوئزر لینڈ اور جینوا میں بھی اپنے کشمیر کو آزاد رکھنے کی خواہش کا بر ملا اظہار کر چکی ہے،اپنے کشمیر کے دکھ تکالیف اور حالات دنیا کے سامنے رکھ چکی ہے مگر مجال جو اس کے پائے استقامت میں لغزش آئی ہو۔ماریہ آزادی کی لگن میں اب تک تھک کر نہ کہیں سستائی ہے اور نہ کبھی کشمیر کے حقوق سے دستبردار ہوئی ہے۔
ماریہ ترانہ کو ارباب اقتدار کی آنکھوں میں آنکھ ڈالنے اور اپنی بات کہنے میں کبھی مشکل پیش نہ آئی،اگر یقین نہ آئے تو یہ واقعہ جان لیجیے کہ جب ماریہ عورتوں کے حقوق کی آواز بنی تو ماریہ کو کمزور جان کر صنف کو ناتواں سمجھنے کے وہم میں مبتلا افراد نے ہراساں کیا،جس پر اس پہاڑوں ایسے عزم کی لڑکی نے جاہ حشم کی پرواہ کیے، بغیر خواتین سے امتیازی رویے پر دنیا بھر میں شدید احتجاج کیا ۔
سلگتے چناروں کی چھائوں اور تپش سے مضبوط ارادوں کی ماریہ اقبال کشمیر کے کھانے رسم و رواج رنگ ترنگ اور روایتی انداز میں بسی پہاڑوں کی وہ با صلاحیت اور باشعور سیاسی وسماجی علوم سے آشنا بہادر بیٹی ہے جو کسی قیمت پر کشمیر وادی کی کسی بھی بیٹی کو نہ محروم اور نہ ہی بے دست و پا دیکھنا چاہتی ہے،وہ کسی قیمت پر بھی کشمیری بیٹیوں کی انسانی حیثیت پر سمجھوتہ کرنے پر رضامند ہے۔
ماریہ اقبال سے ملاقات اور اس کی نرم مزاج سلجھی طبیعت سے آشنائی کراچی پریس کلب کے ایک پروگرام میں ہوئی جہاں جدوجہد پبلی کیشن کے روح رواں اور ہمارے پیارے محبی اصغر سہیل گویندی نے ماریا ایسی روشن خیال اور واضح نکتہ نظر رکھنے والی سے تعارف کروایا۔
ماریہ کی ثقافت شناسی اور رچ بس جانے کا انداز اور کووڈ سے بچائو کے بہانے سندھی اجرک کے ماس پہننے اور سندھ کو دوستی کا پیغام دینے کی ادا مجھ میں ایسا گھر کر گئی کہ ماریا میرے حلقے اور احساس کا حصہ بنتی بنتی ہمارا کنبہ ہوگئی،اس کی امنگ بہادری اور شائستگی کے ساتھ سیاسی نظریات کی فراوانی اور دو ٹوک موقف بعض اوقات اس کے اظہار کرنے کا وہ دکھ بن جایا کرتا ہے،جس پر شاید وہ کونے کھدرے تلاش کرتی ہوئی اپنے دکھوں کو کسی کے سپرد نہیں کرنا چاہتی ہو۔
مگر کشمیر کے پہاڑوں کی یہ بیٹی کسی طور کشمیر کے حق خودمختاری اور حق خود ارادیت سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں،ماریہ اکثر گفتگو کے دوران کشمیر کے دکھ اور تکالیف کا ایسا ''ترانہ'' ہوجاتی ہے کہ سننے والا خود کو ان دکھوں کے ساتھ نتھی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
ماریہ اقبال کی کشمیر کے سر سنگیت اور وادیوں کی رعنائی سے عشق دیدنی ہے،وہ کشمیر کی ہنر مندی اور ذہانت کے بے توقیر ہونے پر تلملا جاتی ہے،وہ بے وطن کشمیر کے افراد کے ان دکھوں اور نوحوں سے واقف ہے جو مجبوری اور مالی تنگ دستی کے سبب مٹی ماں سے جدا دوسرے دیس کا ہر عذاب اور بے اعتنائی جھیل رہے ہیں۔
کشمیر کے پہاڑوں کی اس ''ماریہ'' کو ہر قیمت پرکشمیر کی آزاد فضا میں لہراتی بل کھاتی تمام تفکرات سے بے فکر زندگی چاہیے ۔آج کشمیر جس عالمی اور خطے کی بر بریت اور ظلم کا شکار ہے،یہ وہی کشمیر ہے جس کی انسانی آزادی کے روشن خواب مقبول بٹ نے دیکھے تھے،یہ وہی کشمیر ہے جسے انسانوں کے مقتل میں تبدیل کیا، خطے کے امن کا توازن برباد کیا۔
کشمیر کے عوام کو جلا وطنی پر مجبور کیا،وہاں کی صنعت،حرفت اور قدرتی وسائل کو پامال کیا،معصوم عوام کے دہانوں میں بارود ڈالا، انھیں لاوارث کیا،ان کے لاشے بے گوروکفن کیے،ان کی تعلیم اور صحت چھینی،انھیں بے گھر کیا،ان کی خوشحالی کو بد حالی میں تبدیل کرکے انسانوں کی تقسیم کی باڑ لگائی۔
مگر اب کشمیر کے خوبصورت پہاڑوں کی یہ ماریہ فطرت اور کشمیری حسن سے عشق کی بنا ،اسے کسی طور محروم نہیں رہنے دینا چاہتی ،اسے اس کی آزادی سے والہانہ محبت ہے،ماریہ اپنے کشمیر کے محکوم عوام کی وہ آواز بنے رہنا چاہتی ہے جس سے صرف عشق کیا جائے۔وہ چاہتی ہے کہ کشمیر کا ہر بچہ عشق کے درجات کو پانے کی جستجو میں جتا رہے،اس کے کشمیر کے انسانی رشتے اور اس کا سماجی عشق کشمیر کا لازمی حصہ بن جائے۔
ماریہ چاہتی ہے کہ ادھڑے ہوئے کشمیر کے انسانی احساس میں ذوقِ طلب کی وہ سچائی رچ بس جائے جو آخرکار سماج کے بندھنوں کو اعلی انسانی احساس کی لڑی میں پرو دے،پہاڑوں کی یہ لڑکی ماریہ ترانہ چاہتی ہے کہ کشمیر کے افراد کی زندگی میں سماجی عشق کے وہ برتائو اور رویئے پروان چڑھیں،جن سے پچھتاوا ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے،اس کے محکوم کشمیر کو آزادی مل جائے،اس کا کشمیر کسی کے بھی طلبِ رحم کا سہارا نہ ہو،اس کے کشمیر کے بچے نتھرے پانی بلند چنار اور سر سبز وادیوں میں کلکاریاں ماریں اور مرجھائے چہروں پر لالی اور سرخی کا پیراہن ہمیشہ مسکراتا رہے۔