RAWALPINDI:
ظفر رند آسٹریلیا کے شہری ہیں ، کراچی کے قدیمی بستی لیاری کے علاقے عمرلین میں رہائش پذیر ایک قدیم اور نامور رند خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، جس کے سربراہ حاجی غلام بیت اللہ رند تھے ، جو ان کے دادا تھے جوکہ 1889میں ایک ساربان کی حیثیت سے ایک اتفاقی واقعہ کے بعد بمع اپنے اونٹوں کے آسٹریلیاکی جانب عازم سفر ہوئے تھے۔
ظفر رند کی زبانی لیاری کے اس منفرد خاندان کے متعلق معلوماتی و منفرد تحقیق نذر قارئین ہے۔ یہ 1889کا واقعہ ہے ظفر رند کے دادا حاجی غلام بیت اللہ لیاری میں ساربان تھے اونٹوں کے ذریعے جانوروں کے لیے گھاس، ایندھن کے لیے لکڑیاں اور دیگرضرویات زندگی کی اشیاء لانے اور لے جانے کے ٹھیکیدار تھے۔ حاجی غلام بیت اللہ محنتی جفاکش ، دریا دل اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔
ایک روز کراچی پورٹ ٹرسٹ میں کسی بحری جہاز پر وہ اونٹوں کے ذریعے سامان منتقل کر رہے تھے کہ اس دوران ایک اونٹ سرکش ہوکر بے قابو ہوگیا ، وہ سرکشی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگنے لگا، موقع پر موجود لوگ گھبرا گئے کہ کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہو۔ حاجی غلام بیت اللہ چونکہ سرکش اونٹ کو قابوکرنے میں مہارت رکھتے تھے ، چناچہ انھوں نے مست اونٹ کو قابو کیا اس منظر سے جہاز کے کپتان متاثر ہوئے انھوں نے ان کو اپنے ساتھ لے جانے کی پیش کش کی ۔
انھوں نے اس صورتحال سے اپنے چاچا کو آگا ہ کیا ۔ چاچا اور خاندان کے دیگر افراد سے اجازت لے کر حاجی غلام بیت اللہ اپنے اونٹوں کے ہمراہ اس بحری جہاز میں ان کے ساتھ سفر کے لیے روانہ ہوئے کافی عرصہ بعد معلوم ہوا تھا کہ وہ تین ماہ کی مسافت طے کرکے ساؤتھ آسٹر یلیا کے شہر PORT AUGUSTA پہنچ گئے تھے۔
اس زمانے میں ARYESROCK کے علاقے میں ٹیلی گراف لائن بچھانے کا کام شروع کیا جارہا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی انھیں اور دیگر لوگوں کو اس منصوبے کے لیے اونٹوں کے ذریعے بھاری مشنری ،کھانے پینے کی اشیاء پہنچانے پرمامور کیا گیا تھا ۔1894میں ویسٹرن آسٹریلیا میں COLGARDIE کے مقام پر سونے اور دھات کے ذخائر نکالنے کے منصوبے شروع کیے گئے تو اس دوران حاجی غلام بیت اللہ نے اپنی ذاتی کیمل ٹرانسپورٹ کمپنی کی بنیاد رکھی ۔وقت گزرتا رہا ، اور وہ ترقی کرتے رہے۔
KALLOORLIکے مقام پر سونے کے ذخائر نکلنا شروع ہوئے تو اس منصوبے میں بھی ان کی کیمل ٹرانسپورٹ کمپنی کو ٹھیکہ ملا ۔یہاں ٹرین اسٹیم انجن اور ڈبے (بگھی ) لکڑی کے تھے۔ اس منصوبے کے کام میںان کے ساتھ بلوچ اور افغان پٹھان بھی تھے۔
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اس منصوبے کے علاقوں کے نام آج بھی قدیمی ہیں جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ انھیں اپنے شاندار ماضی سے کس قدر لگائو ہے ۔مذکورہ بالا منصوبے کی تکمیل کے بعد GERALDTONعلاقے سے CEUاورWILLONAمیں گورنمنٹ نے گولڈ ڈسکور کرنا شروع کیا تو GERALDTONاس منصوبے کا بیس کیمپ علاقہ بنا لیا گیا وہاں سے ویلو نا کے لیے یہ کیمل ٹرانسپورٹ کمپنی کام کرنے لگی ۔
1911۔1912 میں آسٹریلیا کا علاقہ WILLONAمیں شدید زلزلہ آیا ہر سمت تباہی ہوئی، آمد رفت کے تمام راستے بند ہوگئے ،ویلو نا شہر بیس کیمپ علاقے سے منقطع ہوگیا ، حکومتی انتظامات خاطر خواہ نہیں تھے ۔حاجی غلام بیت اللہ نے اس ناگہانی آفت کے موقع پر اپنی خدمات پیش کیں ،لاتعداد لوگوں کی جانیں بچائیں، انھیں محفوظ مقام تک پہنچایا ،ویلونا کی کثیر آبادی کے متاثرین کے لیے دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے کھانے پینے کی اشیاء پہنچائیں۔
ان کی اس انسانی خدمت کے اعتراف میں اس وقت کے ویسٹرن آسٹریلیا کے گورنر نے انھیں ایک لاکھ پچاس ہزار ایکڑ اراضی کی زمین اور آسٹریلیا کی مستقل شہریت بطور انعام دیے ۔اس زمین پرانھوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے مسجد تعمیر کی اور رہائش اور دیگر سہولتوں کا انتظام کیا ،انڈیا ،انڈونیشیا ،ترکی ، ایران اور افغانستان سے آئے ہوئے مسافر اس مقام پر قیام کرتے رہے ہیں۔
12دسمبر1917 میں حاجی غلام بیت اللہ نے جن کی عمر 45سال تھی 17سالہ مریم مارٹن نامی ایک پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کی،کہا جاتا ہے کہ مریم ایک ملایائی ابر جینل تھی وہ بودھانو کے گورکن فریڈی مارٹن کی بہن تھی ۔پرتھ ویلم اسٹریٹ میں واقع مسجد میں اس وقت کے پیش امام ملا یار محمد نے ان کا نکاح پڑھوایا ۔شادی کے بعدحاجی غلام بیت اللہ تین بیٹوں اور ایک بیٹی کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔
1919 میں ان کے بیٹے نمروز یعنی ظفر رند کے والد ، 1922 میں ان کا دوسرا بیٹا مہر دوست ( جو نوجوانی میں انتقال کرگئے) ، 1924میں تیسرا بیٹانوردین اور 1927 میںان کی چوتھی اولاد بیٹی نوری کی پیدائش ہوئیں ۔ 1931 میں حاجی غلام بیت اللہ کی بیوی 31سال کی عمر میں پانچویں بچے کی پیدائش سے پہلے حمل کے دوران جیرالڈٹن کے علاقے میںانتقال کرگئیں ۔10 ستمبر 1935 میں حاجی غلام بیت اللہ کو آسٹریلیا کا پاسپورٹ جاری کیا گیا تاکہ وہ اپنے آبائی وطن متحدہ ہندوستان آمد رفت کرسکے ۔
اس پاسپورٹ کے صفحہ میں اس کی شناخت کو پیدائشی برطانوی رعایا کے طور پر درج کیا گیا ہے ،جب کہ اس کی تاریخ پیدائش 15اگست1872اور جائے پیدائش کراچی درج ہے، جو اس وقت برٹش انڈیا کا شہر تھا ۔واضح رہے کہ ویسٹرن آسٹریلیا کے مرکزی شہر پرتھ سے 560کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ماؤنٹ میگنیٹ ضلع کی حدود میں 1889 کو حاجی غلام بیت اللہ رند نے کراچی کے قدیمی بستی لیاری سے آکر یہاں اپنا پہلا قدم رکھا تھا اور اس علاقے کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔
1995 میں ماؤنٹ میگنیٹ کے شہریوں نے اس علاقے کا سو سالہ جشن منایا تھا ۔اس موقع پر وہاں کی میونسپل کارپوریشن نے 324صفحات پر مشتمل ایک کتاب بعنوان MOUNT MAGNETشایع کی جس میں اس علاقے کے بانیوں کی ابتدائی زندگی اور جد و جہد کے بارے میں تفصیلات بمعہ تصاویر کے شامل کیں ۔ان بانیوں میں حاجی غلام بیت اللہ رند کا نام بھی نمایاں طور پر درج ہے جن کا ذکر اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے ۔یہ کتاب لورین ڈے اور موریسی کرین کی تحقیق کردہ ہے ۔
اس تحقیق کے مطابق حاجی غلام بیت اللہ نے ویسٹرن آسٹریلیا میں سب سے پہلے اونٹوں کے ساتھ ریلوے کی تعمیراتی کاموں میں حصہ لیا جو بعد ازاں گھان لین کے نام سے معروف ہوا۔ جنوری 1891میں یہ ریلوے لائن ہوڈنا دتا تک پہنچا اس پوائنٹ پر تعمیراتی کام 1927 تک رک گیا اس کے بعد حاجی غلام بیت اللہ نے بروکن ہل کے اردگرد اپنا کام جاری رکھا جو غالبا ریلوے ہی سے تعلق رکھتا تھا۔
ریلوے لائن بچھانے کے بعد اونٹوں کے ذریعے بار برداری کا کام متاثر ہونے لگا تو اس نے بلگار بارود و کی ترقی کی جانب اپنی توجہ مرکوز کی جس سے اس کے بہتر مستقبل کی امیدیں زیادہ مستحکم ہوگئیں ۔ قبل ازیں 1928 میں حاجی غلام بیت اللہ نے اپنے بھانجے عمر رند ( جن کے نام پر علاقہ عمر لین موسوم ہے ) کے بیٹے ابراہیم کو آسٹریلیابلواکر اپنے منصوبے میں بطور منیجر کام پر لگوادیا ۔
1931 میں حاجی غلام بیت اللہ نے اپنے بچوں کو کراچی روانہ کردیا ۔بعد ازاں 1935میں حاجی غلام بیت اللہ رند خود بھی واپس اپنے آبائی وطن آگئے ، اس وقت اس کے آسٹریلوی پاسپورٹ میں اس کا پیشہ ایک ریٹائر گلہ بان درج تھا ۔اس دوران بیٹے دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کرتے رہے اور وہ خود اندرون سندھ ٹھٹھہ، ساکرو میں زمین خرید کر زمینداری کرتے رہے ۔ 1958 میں حاجی غلام بیت اللہ رند کا لیاری کے علاقے عمر لین میں انتقال ہوگیا ،ان کی تدفین میوہ شاہ قبرستان میں ہوئی ۔