لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زرینہ کی عمر تو نو سال تھی مگر سوچنے کا ڈھب پیرانہ سالی کی نشان دہی کرتا تھا
ISLAMABAD:
زرینہ کی عمر تو نو سال تھی مگر سوچنے کا ڈھب پیرانہ سالی کی نشان دہی کرتا تھا، تجربات کی روشنی، مشاہدہ، علم دانائی اور حکمت ساتھ میں دور اندیشی وہ ماضی حال اور مستقبل کے بارے میں اپنے بابا سائیں اور اماں سے گھنٹوں باتیں کیا کرتی اور وہ حیران اور خوش ہوکر اس کی باتیں سنتے اور اب تو گاؤں کے لوگ اس کی فکر انگیز گفتگو کو سننے کے لیے اس کے کچے مکان کے دالان میں آجاتے تھے۔
زرینہ نے اردو لکھنا پڑھنا اس وقت سے سیکھ لیا تھا جب وہ تیسری جماعت میں تھی ،اس کے ساتھ ہی وہ بچوں کی کہانیاں اور اخبارات ورسائل کو بھی اس وقت تک پڑھتی رہتی جب تک کہ آخری صفحہ اپنے اختتام کو نہ پہنچ جاتا۔
اماں زرینہ سے اکثر کہتی ''تم سارا وقت پڑھائی میں لگی رہتی ہو، اب تمہارے سانول ماما کو روکنا پڑے گا کہ اس کو اخبار رسالے لا کر نہ دیا کرو۔''
'' اماں تم ایسا نہ کرنا پڑھائی کے بغیر میں زندہ نہیں رہ سکتی'' زرینہ منہ بسور کر بولی۔
'' اچھا ٹھیک ہے ایک شرط پر تم قرآن کو ترجمے سے پڑھو۔''
''اماں میں وہ بھی پڑھتی ہوں، جب ہی تو مجھے معلوم ہو گیا ہے زندگی کیا ہے ایک بلبلے کی مانند اور بس اور دنیا کھیل تماشے سے زیادہ نہیں۔ ہم سب دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، پر وہ ہاتھ نہیں آتی۔ وہ جو غزل ہے ناں ندا فاضلی کی:
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
ہر روز قیامت ٹوٹتی ہے، وہ جو غالب نے کہا تھا :
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کاہے گویا دن اور
تم کو زرینہ غالب کی شاعری بھی یاد ہے تم میری مافک ہو، جب میں پانچویں جماعت میں تھی بڑے بڑے شاعروں کے شعر یاد تھے۔ رحمن بابا، بابا بلھے شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی۔
تو اماں مجھ کو تم سناؤ ۔ زرینہ میں نے تم کو سنایا تھا تم بھول گئیں، چلو کسی اور دن دوبارہ سناؤں گی۔ نہیں ابھی۔ اچھا ٹھیک ہے سوچتی ہوں۔
ہاں یاد آیا۔ بابا بلھے شاہ کہتے ہیں۔
پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں رکھ لیا نام قاضی
ہتھ وچ پھڑ تلوار نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
اور بھلیا حاصل کی کیتا، جے توں رب نا کیتا راضی
واہ اماں ! کمال کردیا تم نے۔ ہاں زرینہ آج کل ایسے ہی لوگ ہیں، جن کی طرف بلھے شاہ نے اشارہ کیا ہے۔ اماں ایسے لوگ ہوں تو پھر مشکل نہیں۔ یہ ذرا دیکھو! صرف ایک دن کے اخبار میں کتنی قتل و غارت کی خبریں چھپی ہیں، قاتلوں نے کسی کو نہیں چھوڑا، نکاح کرنا تو سنت ہے ، پھر یہ لوگ سنت ادا کرنے کے بعد اپنی بیویوں کو چھوٹی سی بات پر قتل کردیتے ہیں، بیوی کہتی ہے کہ مجھے میکے جانا ہے، تو سب گھر والے مل کر اور جس کی بیوی ہے وہ خود بھی تشدد کرتے ہیں اور بیٹا ماں کو قتل کردیتا ہے، بہنوں کو معمولی سی بات پر جان سے مار دیتا ہے۔
کس کو مار دیا جان سے؟ بابا سائیں نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ بابا سب ایک دوسرے کو جان سے مار رہے ہیں، بلا سبب، بغیر جرم کیے، بابا سائیں! یہ قیامت کی نشانی ہے۔
تم اتنی جلدی کیسے گھر آگئے، زرینہ کی ماں نے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
پہلے یہ بتاؤ تم دونوں کے پاس موبائل تو نہیں ہے، تم کو معلوم تو ہے اس کو بیچ دیا تھا اسی وقت جب اسکول کی ملازمت چھوڑی تھی اور زرینہ کے لیے کتابیں کافی ہیں ،اسے موبائل کی کیا ضرورت ہے پر تم کیوں پوچھتے ہو؟
اس لیے پوچھتا ہوں، ہماری فیکٹری کے قریب ایک بہت برا واقعہ پیش آیا، پورا گھر تباہ ہوگیا۔ صرف فیس بک پر دوستی کی وجہ سے، عورت کا اور خاص طور پر ماں کا ایک وقار ہوتا ہے عزت ہوتی ہے، عورت ہو یا مرد عزت تو سب کی ہوتی ہے۔ بیوی نے ناگواری سے کہا۔ ہاں میں بھی یہی بولتا ہوں پر ایک بیٹے نے ماں کو اس لیے گولی مار دی کہ وہ موبائل یعنی فیس بک کے ذریعے ایک عورت کی بلیک میلر سے دوستی ہوگئی اور جب اس نے مزید رقم نہیں بھیجی تو اس ظالم شخص نے اس کی نازیبا وڈیو وائرل کردی، صاحبزادے یہ برداشت نہیں کرسکے۔ اور دوسرا واقعہ ہماری فیکٹری کا جو ٹینک ہے اس کا ڈھکنا کھلا ہوا تھا۔
گیٹ کھلتا ہے تو محلے کے بچے کھیلنے آ جاتے ہیں انھی میں سے ایک بچہ ٹینک میں ڈوب کر مرگیا جس کا بڑا افسوس ہے مجھ کو، میری اس کے ساتھ دوستی چلتی تھی۔ وہ اپنی زرینہ جیسا بچہ تھا، بڑی بڑی باتیں کرتا تھا کبھی کہتا فوجی بنوں گا، سب دشمنوں کو ایک گولی میں اڑا دوں گا، ایک گولی میں۔۔۔۔؟ ہم ہنستا تو وہ بھی قہقہے لگانے لگتا۔ ایک بچہ کیا گیا گھر برباد ہو گیا، ماں بے ہوش ہوگئی ہے اور باپ ہم سب کو گالی بکتا ہے کہ ہم نے ٹینک کا ڈھکنا کیوں نہیں ڈھانپا؟ اب اس کو کیا بتائیں ڈھکنا ڈھانکتے ہیں، لیکن نشئی اور چور اچکے لے جاتے ہیں۔
بابا یہ چور، ڈاکو، قاتل ہماری حکومتوں نے پیدا کیے ہیں بیس پچیس سال ہوگئے ہیں تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی بچے گلیوں میں رلتے رہے، چھوٹے موٹے جرائم کرنا کھیل کود کے دوران ہی سیکھ گئے، بڑے ہوئے تو بڑے بڑے جرم کرنا روز کا معمول بن گیا۔ والدین نے توجہ نہیں دی اور پولیس نے فائدہ اٹھایا اور ان کے مددگار بن گئے۔
مددگار کیوں نہ بنتے، پیسہ جو ملتا تھا۔ زرینہ کی ماں نے تشویش سے کہا۔ تم دونوں نے ٹھیک کہا ملک کے حالات کو خراب کرنے میں اندرونی اور بیرونی طاقتیں پیش پیش ہیں، ہماری فوج، عظیم فوج جس کی وجہ سے ہمارا ملک اور اس کی عوام سب حفاظت میں ہیں۔ سلام کرتا ہوں میں فوج کو، میں بھی سلام پیش کرتی ہوں۔
زرینہ اپنی جگہ سے اٹھ کر سلیوٹ مارنے لگی۔ اور زرینہ کے بابا! یہ اپوزیشن بھی خوامخواہ جلسے جلوس کرکے لوگوں کا وقت ضایع کرتی ہے اور حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ راستے بند، ٹرانسپورٹ بند، لوگ گھروں میں مقید، دفاتر، کارخانے جانے والوں کے لیے مشکلات۔ آخر کس لیے اور اس سے فائدہ بھی کیا۔ ملزم بے نقاب ہو چکے ہیں، مقدمات چل رہے ہیں، کس منہ سے یہ دوبارہ آنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، چھوڑو بابا! ان لوگوں کو انھیں تو اللہ ہی سزا دے گا۔ آؤ میرے ساتھ مل کر دعا پڑھتے ہیں:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری