افغان اثاثے اور امریکی صدر کا فیصلہ

امریکا کے صدر جوبائیڈن نے جمعے کو ان منجمد اثاثوں کو تقسیم اور استعمال کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں


Editorial February 14, 2022
امریکا کے صدر جوبائیڈن نے جمعے کو ان منجمد اثاثوں کو تقسیم اور استعمال کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امریکا نے افغانستان کے منجمد اثاثوں کو اپنی ترجیحات کے مطابق استعمال کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ امریکا ان اثاثوں کو دو حصوں میں برابر تقسیم کرے گا۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن نے جمعے کو ان منجمد اثاثوں کو تقسیم اور استعمال کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔

نیویارک کے فیڈرل ریزرو فنڈ میں افغانستان کے 7ارب ڈالر موجود ہیں جنھیں جو بائیڈن انتظامیہ نے منجمد کررکھا ہے۔ یہ اثاثے اس وقت منجمد کیے گئے تھے جب طالبان نے افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا ۔طالبان مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے ملک کے منجمد اثاثے بحال کیے جائیں۔

صدر جو بائیڈن کے حالیہ فیصلے پر قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے ٹویٹ میں ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مرکزی بینک کے فنڈز پر قبضہ کرنا 'چوری' ہے اور 'انسانی اور اخلاقی انحطاط' کے سب سے نچلے درجے پر گرنے کی نشانی ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے ہفتے کو اس حوالے سے موقف دیا ہے کہ غیرملکی بینکوں میں افغانستان کے زرمبادلہ کے منجمد ذخائر میں سے 3.5 ارب ڈالر افغان عوام اور3.5 ارب ڈالر نائن الیون متاثرین کے خاندانوں کو دینے کا امریکی فیصلہ دیکھا ہے۔

پاکستان کا یہ اصولی مؤقف ہے کہ یہ اثاثے افغان قوم کی ملکیت ہیں اورامریکا پورے کے پورے اثاثے افغانستان کو واپس کرے۔ترجمان کے بقول افغان فنڈز کے استعمال کا طریقہ کار افغانستان کا خود مختار فیصلہ ہونا چاہیے۔

پاکستان گزشتہ کئی مہینوں سے مسلسل بین الاقوامی برادری پر زور دیتا آرہا ہے کہ وہ افغانستان میں رونما ہونے والے انسانی المیہ سے نمٹنے اور افغان معیشت کی بحالی میں مدد فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر کارروائی کرے کیونکہ یہ دونوں آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو فوری طور پر غیر منجمد کرنے سے افغان عوام کی انسانی اور اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ترجمان نے کہا کہ افغان عوام کو اس وقت شدید معاشی اور انسانی مسائل کا سامنا ہے اور عالمی برادری کو ان کے مصائب کے خاتمے کے لیے اپنا اہم اور تعمیری کردار جاری رکھنا چاہیے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کہا ہے کہ یہ منجمد اثاثے افغان ملکیت تھے اور ہیں، اس رقم کے استعمال کا فیصلہ کرنے کا حق بھی صرف افغانوں کو ہے،ہم چاہتے ہیں افغانوں کی مدد کی جائے کیونکہ افغانستان کے لوگوں کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔ہفتے کو کابل میں افغانستان کے شہریوں نے اثاثوں کی اس غیرمنصفانہ تقسیم کے امریکی فیصلہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔مظاہرین کابل کی مرکزی عیدگاہ کے باہر اکٹھے ہوئے۔

مظاہرین نے امریکی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے امریکا سے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں 20سال تک جاری رہنے والی جنگ میں لاکھوں افغان شہریوں کی ہلاکت کا معاوضہ بھی ادا کیا جائے، دوسری جانب امریکی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کے مالی مشیر تورک فرہادی نے کہا ہے کہ یہ اثاثے افغان عوام کے ہیں، طالبان کے نہیں،بائیڈن کا فیصلہ یک طرفہ ہے اور بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتا، ادھر امریکا میں قائم ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کگلمین نے اپنی ٹویٹ میں امریکی فیصلے کو سنگدلی قرار دیا ہے۔

ادھر طالبان حکومت نے افغانستان میں 40 سالہ جنگ کے متاثرین کو امداد دینے کے منصوبے کی منظوری دی ہے، امارت اسلامی کے نائب ترجمان بلال کریمی کا کہنا تھا کہ امداد شہدا کے خاندانوں، معذور افراد اور یتیموں کے علاوہ سابق حکومت اور سیکیورٹی فورسز کے جنگ سے متاثرہ افراد کو بھی ملے گی۔

افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والے 2 غیرملکی صحافیوں کو رہا کردیا گیا ہے، صحافیوں کے ساتھ کام کرنے والے دیگر افغان شہری بھی رہا کردیے ہیں،صحافیوں کو شناختی کارڈ اور اجازت نامے نہ ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

گزشتہ سال اگست کے مہینے میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد کئی ملکوں اور عالمی اداروں نے افغانستان کے مرکزی بینک کے بیرون ملک اثاثوں کو منجمد کر دیا تھا ۔ان منجمد اثاثوں کی مجموعی مالیات دس ارب ڈالر بنتی ہے اور ان میں سے سات ارب ڈالر صرف امریکا شہر نیویارک میں موجود ہیں۔طالبان نے بارہا امریکا اور غیر ملکی حکومتوں اور اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ فنڈ جلد از جلد جاری کیے جائیں تاکہ وہ افغانستان کی بدحال معیشت کو سہارا دے سکیں اور انسانی بحران سے بچ سکیں۔

طالبان نے تنبیہ کی تھی کہ افغانستان کے منجمد فنڈز کو واپس نہ کرنا 'مسائل' کا باعث بن سکتا ہے جس کے باعث نہ صرف اقتصادی طور پر افغانستان مزید متاثر ہوگا بلکہ بڑی تعداد میں لوگ پناہ لینے کے لیے ملک چھوڑنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان کی حکومت بھی ان خدشات کا اظہار کرتی رہتی ہے کہ اگر افغانستان کی مدد نہ کی گئی تو وہاں بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے اور دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے جس کا براہ راست پاکستان پر اثر پڑے گا۔

افغانستان سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہو جائے گی اور نقل مکانی کرنے والوں کا رخ پاکستان کی طرف ہو گا' پاکستان پہلے ہی افغان مہاجرین کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے' پاکستانی معیشت اور معاشرت مزید بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ اگست 2021 میں طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے ملک کی معاشی حالت مسلسل بگڑتی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ نے خدشہ کا اظہار کیا کہ 2022 کے وسط تک ملک میں غربت کی شرح 97 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیمیں امریکا سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ یہ اثاثے جاری کیے جائیں اور طالبان سے ماورا عالمی امدادی اداروں کے ذریعے یہ رقم افغان عوام تک پہنچائی جائے۔لیکن امریکا اور دیگر ملکوں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی ہے۔

امریکا کے صدر جوبائیڈن کے حالیہ فیصلے کے بعد تو ان فنڈز کی بحالی اور افغانستان کو منتقلی کی امید تقریباً ختم ہو گئی ہے۔افغانستان کے جو اثاثے امریکا میں منجمد کیے گئے ہیں' ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ وہ رقوم ہیں جو گزشتہ 20برس کے دوران میں عالمی سطح پر افغانستان کے عوام کی مدد کے لیے عطیات کی صورت میں دی گئی تھیں۔ امریکا میں7ارب ڈالر منجمد ہوئے ہیں جب کہ یورپ اور یو اے ای میں دو ارب ڈالر منجمد ہیں۔

افغانستان گزشتہ چالیس برس سے طاقتور ملکوں کی باہمی آویزش اور مفادات کی جنگ کا میدان جب کہ اس ملک کے عوام اس جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔افغانستان کے عوام پران کے بالائی اور طاقتور طبقات نے بھی مظالم ڈھائے جب کہ غیرملکی طاقتور ملکوں نے بھی مظالم ڈھانے کی نئی تاریخ رقم کردی۔ پہلے کمیونزم اور کیپٹل ازم کی لڑائی میں افغانستان اور اس کے عوام تباہ کیے گئے ۔پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر یہاں آگ و خون کھیلا گیا۔اب طالبان ایک بار پھر اقتدار میں ہیں۔

پاکستان اپنی بساط اور طاقت کے مطابق افغانستان کی مدد اور سفارتی حمایت کررہا ہے۔لیکن اقوام اور ملکوں کی عالمی برادری میں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی بھی حکمت عملی اور اصول ہوتے ہیں۔عالمی برادری سے کٹا ہوا کوئی ملک اور اس کی حکومت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔بلاشبہ افغانستان کے معاملے میں امریکا اور یورپ کی پالیسی انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ظلم پر مبنی ہے لیکن افغانستان کے حکمرانوں کو اپنی پالیسیوں اور حکمت عملی پر بھی نظر ثانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

افغانستان کے عوام کے مفادات کا تحفظ ان کے حکمرانوں اور اشرافیہ کی اولین ذمے داری ہے۔اپنے مسائل، مشکلات،کوتاہیوں، کم فہمیوں اور ناکامیوں کا ذمے دار دوسروں کو قرار دینا درست حکمت عملی نہیں ہے۔اپنے آپ کو ٹھیک نہ کرنا اور دوسروں کو کہنا کہ وہ ٹھیک نہیں ہیں،ریاستیں اور حکومت اس پالیسی سے نہیں چلتیں۔ طالبان اقتدار میں ہیں تو انھیں اپنے عوام کا ہر حال میں بوجھ اٹھانا ہے،اقتدار حقوق و فرائض سے مشروط ہوتاہے،حکمران پر بھی فرائض عائد ہوتے ہیں۔

ان فرائض میں عوام کے جان ومال، عزت وآبروکا تحفظ ، روزگار اور کاروبار کی آزادی،نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات اور امتیاز سے پاک آئین اور قانون ،یہ ایسے فرائض ہیں جنھیں ادا کرنے کے لیے غیرملکی امداد کی ضرورت نہیں ہے، یہ لکھنے اور عمل کرنے کے فرائض ہیں۔افغانستان کے حکمرانوں کو اس حوالے سے کام کرنا چاہیے،جب افغانستان کے عوام سکھ کا سانس لیں گے تو پوری دنیا کو پتہ چل جائے گا اورافغانستان پر دولت اور سرمایہ کی بارش برسنا شروع ہوجائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں