عمران خان کا دَورۂ رُوس مقاصد کیا ہیں
رشئین میڈیا، اپنے سابقہ کردار کے برعکس، پاکستان کے بارے میں مثبت رپورٹیں بھی شایع کررہا ہے
شنید ہے کہ وزیر اعظم جناب عمران خان رُوس کے سرکاری دَورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ اس خبر کی تصدیق وزیر خارجہ ، شاہ محمود قریشی ، نے بھی کر دی ہے اور وزیر اعظم سیکرٹریٹ نے بھی۔ حتمی تاریخ کا البتہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
کہا مگر یہ جارہا ہے کہ شاید وزیر اعظم صاحب فروری 2022کی آخری تاریخوں میں ماسکو پہنچیں۔ یہ بھی خبریں آئی تھیں کہ رُوسی صدر، جناب ولادیمیر پوٹن، پاکستان کے دَورے پر آ رہے ہیں لیکن یہ خبریں بوجوہ عمل کا جامہ نہ پہن سکیں۔پھر حکومتی شخصیات نے اس توقع کو بھی بڑھاوا دیا کہ فروری کے پہلے ہفتے جب ونٹر اولمپکس میں شرکت کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان بیجنگ میں ہوں گے۔
وہاں آئے رُوسی صدر سے خانصاحب کی ملاقات ہوگی لیکن دونوں رہنماؤں میں ملاقات بوجوہ متشکل نہ ہو سکی ۔ کہا جاتا ہے کہ خان صاحب کے دَورۂ رُوس کی تازہ متوقع راہیں اُس وقت صاف ہُوئیں جب اپریل 2021میں رُوسی وزیر خارجہ، سرگئی لاوروف، نے پاکستان کا دَورہ کیا تھا۔
خانصاحب کے دَورۂ رُوس کی خبریں ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہیں جب اپوزیشن کی طرف سے ملک میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کیے جانے کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے۔ اب اگرجناب عمران خان ماسکو پہنچتے ہیں تو وہ 23سال بعد رُوس کا دَورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر اعظم ہوں گے ۔
یوں یہ غیر معمولی دَورہ ہوگا۔رُوس اور امریکا، دونوں ہی دُنیا کی نہایت طاقتور مملکتیں ہیں۔ سرد جنگ کے ایام میں دونوں کا پلڑا برابر رہا۔ پاکستان کا اپنا وزن بوجوہ امریکی پلڑے میں رہا۔ اس کی وجہ سے پاکستان کو کئی نقصانات بھی اُٹھانا پڑے۔ امریکا کی طرف پاکستان کے اس واضح جھکاؤ کا فائدہ بھارت نے اُٹھایا۔ سوویت رُوس اور بھارت نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر متحدہ پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے دولخت کرنے میں رُوس اور بھارت کا یکساں کردار تھا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر تشکیلِ پاکستان کے فوراً بعد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم، جناب لیاقت علی خان، ماسکو کا دَورہ کرنے کے بجائے واشنگٹن نہ پہنچتے تو بعد ازاں رُوسیوں کا پاکستان کے خلاف رویہ اسقدر معاندانہ کبھی نہ ہوتا ۔
اگر ہم بریگیڈیئر (ر) اے آئی ترمذی کی مشہور کتاب Profiles of Intelligence پڑھیں تو ہمیں اس میں کئی واقعات ایسے ملتے ہیں کہ سرد جنگ کے ایام میں اسلام آباد میں رُوسی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے خلاف کیا کیا گُل کھلاتی رہی ہیں ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امریکی خوشنودی کی خاطر پاکستان میں ریاستی سرپرستی میں رُوس اور رُوسی کمیونزم کی سخت مخالفت کی جاتی تھی۔ رُوسی جامعات سے اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرکے واپس پاکستان آنے والے پاکستانی طالب علموں کو مشتبہ نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔
وطنِ عزیز کے نامور سفارتکار ، جناب جمشید مارکر، نے اپنی سفارتی یادوں پر مشتمل تصنیف (Cover Point) میں ہمیں بتایا ہے کہ رُوس سے پاکستان کے تعلقات بوجوہ اتنے خراب ہو چکے تھے کہ انھیں درست کرنے کے لیے بھٹو صاحب کو بڑا زور لگانا پڑا۔ بھٹو صاحب کے دَور میں پاکستان میں رُوسی صنعت کاری اور سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہُوا ۔ کراچی کی عظیم اسٹیل ملز رُوس ہی کا دیا گیا لاجواب تحفہ تھا جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے برباد کر لیا ہے۔
پاکستان کی معیشت و سماج میں رُوسی نقوش نہایت مدہم ہیں۔ 80ء کے عشرے میں جب سوویت فوجیں افغانستان پر چڑھ دوڑیں تو پاکستان اور رُوس کے درمیان مخاصمت عروج کو پہنچ گئی۔ پاکستان نے ریاستی سطح پر (جہاد کی شکل میں) سوویت رُوس کی سر تا پا مخالفت کی۔ سوویت رُوس کے ٹوٹنے کے باوجود رُوس اب بھی دُنیا کی دوسری بڑی طاقتور ترین مملکت ہے۔
پاکستان رُوس کو مستقل بنیادوں پر ناراض کر سکتا ہے نہ رُوس سے مستقل دُور رہ سکتا ہے ؛ چنانچہ ایسے مشکل دَور میں وزیر اعظم جناب عمران خان کا دَورۂ رُوس نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔رُوس بھی اگرپاکستانیوں کے کئی طنزو تعریض کو پسِ پشت ڈال کر پاکستان کے قریب آنے کی خواہش رکھتا ہے تو آگے بڑھا یہ ہاتھ ہمیں جھٹکنا نہیں چاہیے۔ رُوسی صدر، ولادیمیر پوٹن، نے عزت کے ساتھ خانصاحب کو ماسکو آنے کی دعوت دی ہے تو اس کنائے کا اکرام و احترام کیا جانا چاہیے ۔
اب وزیر اعظم جناب عمران خان ایسے مشکل دنوں میں رُوس پہنچ رہے ہیں جب یوکرائن کے معاملے پر رُوس اور امریکا تصادم کی راہ پر گامزن ہیں۔ یوکرائن کے معاملے پر بھارت واضح طور پر رُوس کا ساتھ دینے کا اعلان کر چکا ہے جب کہ پاکستان نے اس معاملے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
امریکا کے مقابل رُوس کا ساتھ دینا پاکستان اور عمران خان کے لیے نہایت مشکل ہوگا۔ ان مشکل ایام میں پاکستان اپنی دگرگوں معیشت کی وجہ سے جدید ترین ٹیکنالوجی پر مشتمل مہنگے ترین رُوسی میزائل(S400)بھی نہیں خرید سکتا تو سوال یہ ہے کہ پھر عمران خان صاحب اپنے بھاری بھر کم وفد کے ساتھ ماسکو کیا لینے جا رہے ہیں؟کیا صرف دو، ڈھائی ارب ڈالر کی گیس پائپ لائن (اسٹریم گیس پائپ لائن پروجیکٹ) کے پرانے پاک رُوس معاہدے میں جدت پیدا کرنے کے لیے ؟ یہ گیس پائپ لائن رُوس کے تعاون سے کراچی سے شمالی پنجاب تک پہنچائی جائے گی۔
توقع ہے کہ اس کے بچھاتے ہی انرجی کے میدان میں پاکستان کے کئی مسائل حل ہو جائیں گے ۔ یہ کہنا تو بہرحال اپنی ''چادر'' سے باہر ہونے کے مترادف ہے کہ یوکرائن کے معاملے پر پاکستا ن رُوس اور امریکا کے درمیان صلح کروا سکتا ہے۔ پھر ہمارے خانصاحب رُوس کیوں جا رہے ہیں؟ جب کہ سب کو معلوم ہے کہ رُوس اپنی کمزور معیشت کی وجہ سے اس وقت پاکستان کو کوئی بڑا قرض بھی نہیں دے سکتا۔
رُوس کی افغانستان پر بھی نظر ہے۔ رُوس نئے افغان طالبان حکام کو اپنے ہاں مدعو بھی کر چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان چاہیں گے کہ دَورۂ ماسکو کے دوران وہ اور ولادیمیر پوٹن مل کر افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کوئی مضبوط لائحہ عمل طے کر سکیں۔ امریکا اور بھارت نہایت قریب آنے سے رُوس خواہی نخواہی جنوبی ایشیا کے دوسرے اہم ترین ملک، پاکستان، سے مضبوط تعلقات استوار کرنے کی طرف مائل ہے۔ امریکی تھنک ٹینک '' ولسن سینٹر'' نے بھی اس جانب اشارہ کر دیا ہے۔
اس دَورے کے دوران پاکستان یہ چاہے گا کہ رُوس اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے پر فضا عملی طور پر ہموار ہو سکے ۔ اس پائپ لائن کی لمبائی 1100کلومیٹر ہے اور یہ روزانہ کی بنیاد پر 1.2کیوبک فٹ گیس ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عشروں بعد یہ رُوس کی پاکستان میں سب سے بڑی سرمایہ کاری ہوگی ۔ دفاع، معیشت اور توانائی کے شعبوں میں رُوس کا تعاون حاصل کرنا جناب عمران خان کی کوششوں میں محوری حیثیت رکھتی ہے۔
یہ بھی اُمید ہے کہ خان صاحب کے اِس دَورہ کے دوران پاکستان اور رُوس کے درمیان ایسا معاہدہ بھی طے پا سکے جس کی اساس پر دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خاتمے میں دونوں ممالک ایک دوسرے سے کھل کر تعاون کر سکیں۔ رُوسی وزیر خارجہ، سرگئی لاوروف، نے اس ضمن میں واضح اشارہ تو دے دیا ہے۔
جناب عمران خان کے دَورے سے قبل رشئین میڈیا، اپنے سابقہ کردار کے برعکس، پاکستان کے بارے میں مثبت رپورٹیں بھی شایع کررہا ہے۔ یہ نہایت اچھی پیشرفت ہے۔