اپوزیشن کی میؤچل جنگ بندی
عمران خان کو متحدہ کے لوگ بھی نفیس معلوم ہونے لگے
ابھی کچھ دنوں پہلے ہی کی بات ہے ہماری اپوزیشن حکومت سے لڑنے کے بجائے آپس میں ہی گتھم گتھا ہورہی تھی۔ خاص کر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملے میں وہ ایک دوسرے کے خلاف اچھی خاصی سنگ باری کررہی تھی۔
پہلے یوسف رضا گیلانی کا حکومت کی اتحادی پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی کے ووٹوں کی مدد سے قائد حزب اختلاف بن جانا اور پھر اہم موقعوں پر اپوزیشن کے کچھ ارکان کا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے غائب ہوجانا اُن کی صفوں میں شک وشبہات کے پیدا ہونے کا بموجب بنا۔ ابھی حال ہی میں ایک بہت ہی اہم اجلاس میں سینیٹ جہاں اپوزیشن اپنی عددی برتری کے بل بوتے پر منی بجٹ کو پاس ہونے سے روک سکتی تھی ، وہاں بھی ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت خود اپنے ہاتھوں شکست کھا گئی۔
اس طے شدہ حکمت عملی میں کون سا فریق ملوث تھا یا دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں ہی ملوث تھیں یہ بھی خاموش ڈپلومیسی کا ایک ایسا راز ہے جس پر سے پردے کا پڑے رہنا سب کے مفاد میں ہے ، جو اپوزیشن سینیٹ میں اپنی واضح برتری کو بھی وقت آنے پر استعمال نہیں کرسکتی وہ بھلا قومی اسمبلی میں جہاں اُسے حکومت کے مقابلے می اکثریت بھی حاصل نہیں ہے اسپیکر یا وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کس طرح لاسکتی ہے۔
اپوزیشن کی بھی عجب منطق ہے کہ وہ آج کل امپائرکے نیوٹرل ہوجانے کا اعتراف بھی کرتی ہے لیکن جب اُسے کسی اہم مشن میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کا الزام فوراً نامعلوم فون کالز پر لگا دیتی ہے۔یہ خفیہ فون کالزکون کرتا ہے اورکسے کرتا ہے قوم کو آج تک معلوم نہ ہوسکا۔
خود کسی سیاستداں نے اپنے لیے کسی ایسی فون کالزکا نہ اعتراف کیا ہے اور نہ کوئی ثبوت پیش کیا ہے۔ بس صرف الزامات اور بیانوں تک ہی ایسی باتیں کی جاتی ہیں۔ ہم اسے فون کالزکرنے والوں کی طاقت اور پاور کا کمال سمجھیں یا پھر اس کی پراسراریت کہ کوئی بھی اس پر سے پردہ اُٹھانے کی ہمت و جرأت نہیں کرسکتا۔
آج کل ہماری اپوزیشن ایک بار پھر حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور عدم اعتماد کی تحریک لانے کی جستجو کر رہی ہے۔ ایک طرف دو الگ الگ لانگ مارچوں کی تاریخیں دی گئی ہیں اور دوسری طرف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لیے دوسری پارٹیوں سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں، مگر حیران کن طور پر حکومت اطمینان اور سکون سے اپنا کام بھی کیے جا رہی ہے کہ جیسے اُسے اِن دونوں چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کے اتحادی ابھی فی الحال کہیں اور جانے والے نہیں۔
وہ اگلے الیکشن سے چند ماہ پہلے تک اس کے ساتھ جڑے رہیںگے۔ سیاسی ماحول میں ابھی کسی بھونچال کے آنے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ ملک کے معاشی حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ کوئی بھی اسے سنبھال نہیں سکتا۔ ایسے میں کون اپنا سر اس جنجال میں پھنسائے گا ، جو بھی یہ ذمے داری لے گا اپنا سیاسی مستقبل ہی داؤ پر لگائے گا۔
اس نئی سیاسی سرگرمی میں سب سے زیادہ دلچسپی آصف علی زرداری لے رہے ہیں، وہ اس عمر ضعیفی میں بھی عصا تھامے در در جا کر اپنے پرانے دوستوں اور یاروں کو ساتھ نبھانے کے لیے منت سماجت کررہے ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ نون والے بھی شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ آصف علی زرداری کو کہیں سے کوئی اشارہ ملا ہے تبھی وہ اتنے سرگرم اور فعال ہوگئے ہیں۔
موجود سیاسی منظر نامے میں بظاہر پیپلزپارٹی کے وفاق میں حکومت بنانے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دیتے لیکن زرداری صاحب کی سرگرمیاں بتا رہی ہیں کہ اگلی حکومت شاید انھیں ہی ملنے والی ہے اور یہ کچھ بعید از قیاس بھی نہیں ہے۔ یہاں ایسے حیران کن واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
وفاق میں حکومت بنانے کے لیے عددی برتری کی ضرورت ہوتی ہے اور جسے پورا کرنے کا فن زرداری کے سوا ہمارے کسی سیاستدان کو نہیں آتا۔ زرداری صاحب کے بعد اگر یہ صلاحیت کسی اور شخص میں ہے تو وہ جہانگیر ترین ہیں۔جہانگیر ترین فی الحال خاموش رہ کر بدلتے سیاسی حالات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اوراپنا جہازکسی کے بھی ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
اپوزیشن آج کل غیر ارادی طور پر ایک ایسی جنگ بندی پر عمل پیرا ہے جس میں وہ آپس میں لڑکر توانائی ضایع کرنے کے بجائے حکومت کے خلاف ایک محاذ بنا کر لڑنے کو ترجیح دیے ہوئے ہے۔ اس کی توپیں ایک دوسرے کے خلاف مکمل طور پر خاموش ہیں۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے گلے شکوے کچھ دنوں کے لیے مؤخر کردیے گئے ہیں ، لیکن وہ ختم ہرگز نہیں ہوئے ہیں۔ جب بھی یہ میؤچل جنگ بندی کا محدود عرصہ ختم ہوگا، دونوں کی توپیں ایک بار پھر آگ کے گولے برسانا شروع کر دیں گی۔ عمران خان فیکٹر تو ایک وقتی ٹارگٹ ہے۔
اصل مقابلہ تو دونوں کا آپس میں ہی ہے۔ جب بھی نئے الیکشن کا اعلان ہوگا یہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں مکمل آب و تاب اور ساز و سامان کے ساتھ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونگی۔ پی ٹی آئی حکومت پر الزامات کے بجائے یہ ایک دوسرے کو نشانہ بنا رہی ہونگی۔
رہ گیا سوال کہ مسلم لیگ ق اور متحدہ آیندہ آنے والے دنوں میں کہاں کھڑی ہونگی تو ہم یقین اور اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ جو بھی وفاق میں حکومت بنائے گا ، یہ دونوں پارٹیاں اس کے ساتھ ہم نوالہ اور ہم رکاب ہوں گی۔ ق لیگ تو پہلے بھی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کی اسیر رہ چکی ہے تو اس کے لیے ایک بار پھر پیپلزپارٹی کا ساتھ نبھانا کوئی دشوار یا مشکل مرحلہ نہیں ہوگا۔
اسی طرح متحدہ کی سیاست بھی اب صرف مفادات کی سیاست بن چکی ہے ، جس پارٹی نے انھیں 2018ء کے انتخابات میں بری طرح شکست دی اور شہرکراچی میں اس سے قومی اسمبلی کی14 نشستوں چھین لیں لیکن وہ اُسی کے ساتھ مرکز میں جا بیٹھے۔ کوئی اصول نہیں ہے۔ بس اقتدار ہی اصل ٹارگٹ اور مقصد حیات۔ ہاں البتہ اُن چھ نشستوں کی قربانی کے بدلے وہ خان صاحب کے اُن بلند وبانگ دعوؤں کو بھی نیچادکھا گئے کہ ایم کیوایم سے میں کبھی اتحاد نہیں کرونگا، بلکہ اپنے لیے اُن کے منہ سے '' نفیس لوگ '' جیسے کلمات اور القابات سے بھی نوازے گئے۔
دیکھا جائے تو یہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ عمران خان کو متحدہ کے لوگ بھی نفیس معلوم ہونے لگے۔ سیاست ایک مفادات کا کھیل ہے ۔ یہاں کل کا دشمن آج کادوست اور رفیق بن جاتا ہے اورکل کا دوست آج ایک دشمن۔ یہاں کوئی کسی کا حقیقی دوست اورمخلص ساتھی نہیں ہے۔ سب کے سینے میں دل نہیں بلکہ ایک مطلب زدہ بے حس مشینی آلہ دھڑکتا ہے جوکسی سے پرخلوص بے لوث وفاداری نبھا نہیں سکتا ہے۔