مینوں پاگل پن درکار
غیر یقینی کے اس ماحول میں بڑے بڑے لیڈر کنفیوژڈ ہیں۔ البتہ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری۔۔۔
NEW DEHLI:
آجکل ملک پر دائیں بازو کی سوچ کا راج ہے' طالبان سے ''زار و قطار'' مذاکرات جاری ہیں' جگہ جگہ لاشیں بھی گر رہی ہیں لیکن اقتدار کے راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اب ان کے لب خشک ہو رہے ہیں' رومانیت کا سحر ٹوٹ رہا ہے اور سچ پوری آب و تاب سے سامنے آ رہا ہے۔ ادھر قوم حیرانی' پریشانی اور مایوسی کے ملے جلے احساسات و جذبات کے ساتھ اپنے رہبروں اور رہنماؤں کے چہروں کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہی ہے۔ ان کے عقل و دانش سے بھرپور مواعظ' اعلانات اور پیغامات سن رہی ہے۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ قوم کا مسیحا کون ہے' دشمن کون اور اس کا مستقبل کیا ہے؟ ہر طرف خاموشی ہے' ایسی گمبھیر خاموشی جو طوفان سے پہلے ہوتی ہے۔ صبح ایک دوست ملنے آیا' عامی ہے' امور مملکت کے رموز اور نزاکتوں سے نا آشنا۔ اس نے بڑا دلچسپ مگر طنز سے بھر پور سوال کیا' اس نے پوچھا کہ اگلے روز جہلم کے قریب ٹلہ رینج میں جو فوجی مشقیں ہوئیں' یہ کسے ڈرانے کے لیے تھیں؟ ہم چپ رہے' ہم ہنس دیے' منظور تھا پردہ تیرا۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ میں اور آپ کر بھی کیا سکتے ہیں' جن کے ہاتھ میں فیصلہ سازی کی لگام ہے' وہ دم سادھے بیٹھے ہیں تو ایسے میں ہم جیسوں کی کیا اوقات۔
گئے وقت کی ایک پنجابی فلم کا مشہور ڈائیلاگ یاد آ رہاہے' فلم اور اس کے ہیرو کا نام ذہن میں نہیں آ رہا ہے البتہ ڈائیلاگ یادداشت میں محفوظ ہے جو حسب حال بھی ہے۔ اس میں ایک بھٹیارن قادرا نامی ہیرو سے کہتی ہے کہ وہ ہوشیار رہے کیونکہ گاؤں کا چوہدری اور پولیس اس کی تاک میں ہیں۔ اس پر ہیرو اسے مخاطب کر کے کہتا ہے، ''چوہدری جانے تے قادرا جانے' توں مائی بھن دانے''۔ (چوہدری جانے اور قادرا جانے' اماں تو اپنے کام میں مگن رہو' تمہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔) قارئین کرام' یہ ڈائیلاگ میری اور آپ کی اوقات کو بھی عیاں کرتا ہے' یقین نہیں آتا تو میاں نواز شریف یا عمران خان سے اپنی بات منوا کر تو دکھائیں۔ عمران خان نے تو ایک ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ ''میں ووٹ بینک کا غلام نہیں ہوں' جو میرا ضمیر سمجھتا ہے اور اللہ کے سامنے ٹھیک ہے' میں وہی کام کرتا ہوں' چاہے' مجھے ایک ووٹ بھی نہ ملے''۔ ان جملوں سے ووٹروں کو اپنی اوقات کا بخوبی علم ہو جانا چاہیے۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا۔
افغانستان میں کمیونزم کے خلاف امریکا اور عالمی سرمایہ داروں کی جنگ میں پاکستان کی طفیلی اشرافیہ نے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا' یہ فیصلہ بھی دائیں بازو کی موقع پرست سوچ کا عملی اظہار تھا' اس وقت بھی عوام کے مفادات اور ان کی منشا کو نظر انداز کر کے یہ فیصلہ کیا گیا تھا حالانکہ اے این پی کے سربراہ مرحوم ولی خان نے اس وقت بھی خبر دار کیا تھا کہ پاکستان کو اس آگ میں نہ جھونکا جائے کیونکہ یہ آگ ہمارے گھروں کو بھی جلا سکتی ہے لیکن ان کی اس نصیحت یا انتباہ کو کسی نے اہمیت نہ دی۔ ملک کے لبرل اہل قلم اور دانشور بھی دہائی دیتے رہے کہ افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور ڈیورنڈ لائن کو سیل کر دیا جائے تا کہ نہ ہم ادھر جائیں اور نہ وہاں سے کوئی ادھر آ سکے لیکن اس خیال کو اسلام دشمنی سے تعبیر کر کے گردن زدنی ٹھہرا دیا گیا۔
امریکا کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا۔ اس وقت ضیاء الحق برسر اقتدار تھے' دائیں بازو کی سیاسی و مذہبی جماعتیں ان کی ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھیں' ان سب نے یک زبان ہو کر شور مچایا کہ سوویت یونین کافر ہے اور اس کے خلاف لڑنا جہاد ہے حالانکہ سردار داؤد کا تختہ الٹنے والا فوجی جرنیل عبدالقادر ڈوگرال افغان تھا' اس نے اقتدار نور محمد ترکئی نامی جس شخص کے سپرد کیا' وہ بھی ماسکو میں نہیں بلکہ افغانستان کے صوبہ غزنی میں پیدا ہوا تھا' نور محمد ترکئی کو قتل کر کے صدر بننے والا حفیظ اللہ امین بھی افغان تھا اور پھر اسے قتل کر کے برسراقتدار آنے والا ببرک کار مل بھی افغان ہی تھا' اور وہی افغان صدر سوویت یونین کی افواج کو اپنے ساتھ لایا تھا' سوویت یونین کی افواج کو پاکستان کے عوام نے دعوت نہیں دی تھی۔ جو گوریلے افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف لڑ رہے تھے' در حقیقت وہ افغانستان کی آزادی کے لیے نہیں بلکہ عالمی سرمایہ داری نظام کے تحفظ کے لیے لڑ رہے تھے۔ افغانستان تو صرف میدان جنگ تھا۔ بہر حال 1979 کے آخر اور 1980کے آغاز میں جس آگ کے شعلے افغانستان سے بھڑکے تھے، وہ اب ایسا الاؤ بن چکی ہے جس کے شعلے ڈیورنڈ لائن کراس کر کے پاکستان تک پہنچ گئے ہیں۔
پاکستان کی دائیں بازوکی مقتدر اشرافیہ نے جس آگ پر اپنے لیے بکرے روسٹ کیے اور روغنی نان تیار کر کے عالی شان دسترخوان سجایا تھا' اب وہ آگ موت کا منظر پیش کر رہی ہے۔ تاریخ کا سبق بھولنے یا اسے من پسند معنی پہنانے کا انجام سب کے سامنے آ چکا ہے۔ عالمی سرمایہ دار دنیا اپنا آپ بچانے میں کامیاب رہی ہے۔ اس نے اپنے متحارب نظام کو شکست دے کر تاریخ کا اختتام کر دیا۔ اب وہ تاریخ کا نیا دور تشکیل دے رہی ہے۔ بش سینئر نے اسے نیو ورلڈ آرڈر کا نام دیا تھا۔ پاکستان کے دائیں بازو والے جو خود کو بڑا طرم خاں سمجھتے تھے' اب بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں۔ پہلے بھی انھیں اس چیز کا پتہ نہیں تھا کہ وہ سوویت یونین یا کمیونزم کے خلاف کیوں لڑ رہے ہیں اور اب بھی انھیں یہ علم نہیں ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کس لیے لڑ رہے ہیں؟ یہ وہ مخمصہ ہے جس نے اس قوم کے جسم کو بے روح کر دیا ہے۔ ایک ابہام ہے اور ایک پاگل پن ہے' چیخ و پکار ہے اور آہ و بکا ہے۔ نہ دشمن کا پتہ نہ اپنے کی پہچان۔ اندھیرا ہے اور ہم ہیں دوستو۔
غیر یقینی کے اس ماحول میں بڑے بڑے لیڈر کنفیوژڈ ہیں۔ البتہ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری نے غیر مبہم اور دو ٹوک موقف اختیار کر رکھا ہے۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی میرا دل بلاول بھٹو زرداری کی عزت کرنے کو چاہتا ہے' وہ پاکستان کے مایوس اور نا امیدماحول میں ایسی باتیں کر رہا ہے' جو جرات' ذہانت اور مستقبل کی پیش بینی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ایک ایسا نوجوان جس کی والدہ کو انھی نظریات کی بنا پر قتل کیا گیا اور وہ خاندان کا اکلوتا وارث بھی ہو' وہ اگر زندہ قوم کی بات کرتا ہے تو میں تمام تر اختلافات کے باوجود اسے سراہے بنا نہیں رہ سکتا۔ پیپلز پارٹی نے قتل ہو کر زندہ رہنے کا فلسفہ پوری جرات سے اختیار کر رکھا ہے۔ یہ آسان کام نہیں ہے' کچھ لوگ اسے نعرہ بازی قرار دیتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ایسے نعرے کوئی اور لگانے کی جرات کیوں نہیں کرتا۔ بعض اوقات پاگل پن بھی ایک ایسی صفت بن جاتا ہے جس کی بنا پر انسان بڑے سے بڑے پہاڑ سے ٹکرا جاتا ہے۔ مجھے استاد دامن کی کسی نظم کا ایک مکھڑا یاد آ رہا ہے
مینوں پاگل پن درکار
نی مینوں پاگل پن درکار