چلی میں سوشلسٹوں کی کامیابی
سرمایہ داری مخالف تحریک کی جانب سے عوام نے ہر اس چیزکے خلاف ووٹ کا نعرہ بلند کیا جس کی نمایندگی کاسٹ کرتا ہے
ISLAMABAD:
چلی میں19 دسمبر2021 کے انتخابات نے سب سے بڑھ کر یہ ظاہرکیا ہے کہ سماج میں موجودہ تطہیرکا اظہار شدت اختیار کر رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ کہ اس معاملے میں کم ازکم بنیادی تحریک عوامی سرگرمی فراہم کر رہی ہے۔
یہ واضح ہے کہ ایک ایسے انتخابات میں کہ جس میں صرف دو امیدوار ہوں یہ ایک سادہ نتیجہ ہے۔ تاہم دوسرے مرحلے نے واضح کیا ہے کہ دونوں امیدوار یعنی دائیں بازو اور بائیں بازوکا اتحاد جس کا رہنما گیبریل بورک صدر منتخب ہوا ہے ، روایتی پارٹیوں سے ہٹ کر بنایا گیا۔ اتحادیوں کے ساتھ انتخابات کی دوڑ میں شامل ہوئے۔
یہ اس تطہیرکو ظاہرکرتا ہے جو آمریت اور ایک جعلی امن معاہدے کے بعد کے عبوری دور میں ابھرنے والی محدود جمہوریت میں وجود رکھتی ہے۔
شام 7 بجے اپروڈگنیٹی کی انتخابی فتح یقینی ہوگی۔ امیدواروں کے درمیان 10 اعشاریہ کا فرق تھا جوکہ 10 لاکھ ووٹوں کے برابر بنتا ہے۔ یہ مفروضہ کہ ووٹوں میں بہت کم فرق ہوگا غلط ثابت ہوا۔ کاسٹ نے اپنے ہیڈ کوارٹر سے اپنی شکست قبول کرلی۔
لوگ یک دم سڑکوں پر نکل آئے اور بہت بڑی تعداد میں بورک کی مرکزی ریلی کی جانب مارچ کرنے لگے جہاں وہ تاریخ کے سب سے بڑے انتخابی ووٹ سے صدر بن گیا تھا۔
اس تطہیرکا اظہار پہلے مرحلے کے بعد خود رو طور پر شروع ہونے والی مہمات اور لوگوں کی جانب سے مرکزی بائیں بازو کے امیدوار کی توجہ اس طرف دلانے کی کوشش سے اور زیادہ ہوا کہ ایک بہت اہم لڑائی آ رہی ہے۔ اس فتح کی اصل طاقت محنت کش عوام کی مضبوط اور پرعزم جدوجہد ہے۔
اس فتح کا جشن اور خوشیاں منانے کے بعد ضروری ہے کہ اپنی توجہ ان مطالبات کے حل کی طرف لائی جائے جنھوں نے مثبت یا منفی انداز میں ان تاریخی انتخابات کی قوت محرکہ کا کردار ادا کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم میں سے وہ لوگ جنھوں نے اپنے تھوڑے بہت حقوق چھن جانے کے ڈر سے فسطائی رجحان کے خلاف ووٹ دیا اور جنھوں نے نئے حقوق اور پچھلے 30 سالہ دور سے مختلف ایک نئے چلی کے لیے بورڈ کو ووٹ دیا وہ ان مقاصد کو عملی جامہ پہنتا دیکھنا چاہیں گے۔
اس عوامی ابھارکی اصل قوت محرکہ یہی اہداف ہیں جو بورک اور بائیں بازوکے اتحاد نے خود عوامی بغاوت کے دوران پیش کیے تھے۔ ان مطالبات پر پورا اترنے میں ناکامی بلاشبہ اس دائیں بازوکو مضبوط کرے گی جس نے کاسٹ کی صورت میں اپنا اظہار پایا ہے۔
44 فیصد کی قابل غور قوت کے ساتھ وہ ایک بھوت کی طرح اس نئی سیاسی صورت حال پر منڈلاتا رہے گا۔ انتخابات نے سماج میں موجود سیاسی تناؤکا مکمل اظہارکیا ہے۔ جس کے کم ہونے کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں۔ آیندہ آنے والے دنوں میں عوامی جدوجہد میں حصہ لینے سے کہیں زیادہ ضروری کام عوامی قوتوں کو آزاد طور پر منظم کرنا ہوگا۔
سرمایہ داری مخالف تحریک کی جانب سے عوام نے ہر اس چیزکے خلاف ووٹ کا نعرہ بلند کیا جس کی نمایندگی کاسٹ کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام نے بورک اور اس کے اتحادیوں کے پروگرام اور سمت کی طرف بھی تنقیدی رویہ رکھا۔
اپنی آخری تقریر میں اس نے ڈاکٹر آیاندے کو جابر فوجی آمر پنوشے نے اکھاڑکر اسے قتل کردیا تھا اور چلی میں انتہائی رجعتی اور سامراج نوازی کا آغاز کیا تھا کی کہانی دہرانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی اس کی غلطیاں بھی دہراتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالی کرنے والوں اور برسوں تک بندوق کے زور پر ہمارے وسائل کو لوٹنے والے سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر ''متحدہ اور پرامن چلی'' بنانے کے امکان پر زور دیا۔
یہ وہی جنوبی امریکا ہے جہاں معروف انارکسٹ ''چی گویرا'' پیدا ہوئے اور جنوبی امریکا مختلف خطوں میں لڑتے ہوئے ، بلدویا کے جنگل میں امریکی سی آئی اے کے بزدل فوجی کے ہاتھوں قتل ہوئے ، مگر آج جنوبی امریکا اور دنیا بھرکے لوگ چی گویرا کو یاد کرتے ہیں اور اس کی بہادری اور نظریہ کو داد دیتے ہیں۔
آج جنوبی امریکا کئی ملکوں، ارجنٹینا، کیوبا، ایکواڈور، وینزویلا، بلوویا اور اب چلی اس کے علاوہ شمالی امریکا کا ملک میکسیکو میں بائیں کی حکومتیں ہیں۔ اس کے علاوہ پورے لاطینی امریکا کے بیشتر ملکوں اور خطوں میں انارکسٹوں نے کمیون قائم کر رکھے ہیں ، جن میں سب سے بڑا کمیون میکسیکو میں قائم ہے۔ یہاں 100 فیصد لوگ خواندہ ہیں۔
منشیات فروشی اور درخت کی کٹائی کو روک دیا گیا ہے۔ کمیون کے کارکنان خود محنت مزدوری کرتے ہیں اور کمائی کوکمیون کے حوالے کر دیتے ہیں۔