پٹرول مہنگا کوئی بات نہیں
حکومت کا موقف ہے کہ جب عالمی منڈی میں پٹرول مہنگا ہوگا تو وہ سستا کیسے دے سکتے ہیں
حکومت نے ایک مرتبہ پھر پٹرول مہنگا کر دیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں پٹرول تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ جب عالمی منڈی میں پٹرول مہنگا ہوگا تو وہ سستا کیسے دے سکتے ہیں۔ اس لیے پٹرول مہنگا کرنا ناگزیر ہے۔
وہ وقت گئے جب حکومتیں مہنگی چیز سستی دے دیا کرتی تھیں۔ کون نہیں جانتا کہ پٹرول مہنگا ہونے سے ہر چیز مہنگی ہوگی۔ یہ صرف ایک پٹرول مہنگا کرنے کی بات نہیں ہے بلکہ ہر چیز مہنگا کرنے کی بات ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پٹرول کے مہنگا ہونے کے بعد ملک میں مہنگائی ایک نئی لہر آئے گی، اور غریب مزید مشکل میں آجائے گا۔
ایک دفعہ ایک بادشاہ جب تخت پر نیا نیا بیٹھا تو اس نے اپنے سب سے قابل وزیر کو بلایا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری رعایا مجھے ایک نیک رحم دل اور عوام دوست بادشاہ کے طور پر یاد کرے۔ اس کے لیے میں کیا کروں۔ وزیر نے کہا کہ ہماری سلطنت میں لوگ دریا کے دونوں طرف آباد ہیں۔ ایک طرف آبادی ہے جب کہ دریا کی دوسری طرف زمینیں ہیں۔
لوگ صبح صبح دریا عبور کر کے زمینوں پر کام کے لیے جاتے ہیں۔ آپ دریا عبور کرنے پر ٹیکس لگا دیں۔ لوگ ٹیکس معاف کروانے آپ کے پاس آئیں گے ۔ آپ فورا ٹیکس معاف کر دینا۔ لوگ آپ کو ایک رحم دل نیک اور عوام دوست بادشاہ مان لیں گے۔
بادشاہ نے دریا عبور کرنے پر ٹیکس لگا دیا۔ تاہم کئی دن گزر گئے ٹیکس معاف کروانے کوئی نہیں آیا۔ لوگوں نے چپ چاپ ٹیکس دینا شروع کر دیا،اور کام جاری رکھا۔ بادشاہ بہت مایوس ہوا۔ بادشاہ نے وزیر کو پھر بلایا ۔ وزیر نے کہا جناب حیرانگی کی بات ہے لوگوں نے ٹیکس دینا شروع کر دیا ہے۔ آپ ایسا کریں ٹیکس کے ساتھ دو دو جوتے مارنے کا حکم بھی دے دیں۔ پھر لوگ آجائیں گے۔
آپ ٹیکس اور جوتے سب معاف کر دینا۔ بادشاہ کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ اور اس طرح دریا پر ٹیکس کی وصولی کے ساتھ دو دو جوتے مارنے کا حکم بھی جاری کر دیا گیا۔ اور پھر رعایا اکٹھی ہو کر دربار پہنچ گئی۔ بادشاہ کو بتایا گیا کہ لوگ آگئے ہیں۔ بادشاہ نے شاہی لباس زیب تن کیا۔ سر پر تاج رکھا اور دربار میں آگیا۔
بادشاہ نے شاہی آواز میں کہا ''بتاؤ کیا کہنا ہے'' رعایا کی طرف سے ایک شخص بولا۔ ''حضور آپ نے دریا عبور کرنے پر ٹیکس لگایا ہم نے دینا شروع کر دیا۔ بادشاہ کا حکم سر آنکھوں پر ۔پھر آپ نے دو دو جوتے مارنے کا حکم دے دیا۔
ہم نے وہ بھی مان لیا اور جوتے کھانے بھی شروع کر دیے۔ لیکن ایک مسئلہ ہے'' بادشاہ سمجھا اب یہ سب کچھ معاف کروانے کے لیے فریاد کریں گے۔بادشاہ نے کہا ''مانگو کیا مانگتے ہو''۔رعایا کا نمایندہ بولا۔ ''حضور نے جوتے مارنے کے لیے صرف دو بندے لگائے ۔
لائن لمبی لگ جاتی ہے۔ ہمیں کام پر جانے میں دیر ہو جاتی ہے۔ اگر آپ جوتے مارنے والے بندوں میں اضافہ کر دیں تو بہت نوازش ہو گی'' اس طرح بادشاہ حیران ہوگیا کہ اب کیا کروں۔ اس نے بہت پوچھا کہ اور کچھ ۔ مانگو جو مانگنا ہے۔ رعایا نے کہا کچھ نہیں چاہیے بس جوتے مارنے والے بندے بڑھا دیں۔ اس طرح بادشاہ نے بادل نخواستہ جوتے مارنے والے بندے بڑھا دیے۔ اس واقعہ کا پٹرول مہنگا کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔
اگر آج لوگ مہنگائی پر احتجاج کے لیے باہر نہیں نکل رہے۔ لوگ خاموش ہیں۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بادشاہ کی طرح مہنگائی کے ساتھ ساتھ جوتے مارنے بھی شروع کر دیں۔ حکومتی وزرا کی طرف سے یہ طعنے کہ لوگ باہر نہیں آتے جوتے مارنے کے مصداق کے مطابق ہی ہے۔ کیا عمران خان انتظار کر رہے ہیں کہ جب لوگ باہر آئیں گے تب ہی وہ مہنگائی کم کریں گے۔ اس سے پہلے اضافہ کرتے جائیں گے۔ کیا وہ لوگوں کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔
عمران خان کو علم ہوگا کہ عوام میں ان کی مقبولیت کم ہو رہی ہے۔ مہنگائی ان کی مقبولیت کو کھا رہی ہے۔ لوگ ناراض ہیں، وہ ضمنی انتخاب ہار رہے ہیں۔ ان کی جماعت کے لوگ بھی ان سے ناراض ہیں، حلیف بھی ناراض ہیں۔ انھیں سمجھنا ہوگا کہ جیسے جیسے ان کی مقبولیت کم ہوگی ویسے ویسے ان کی اقتدار پر گرفت بھی کمزور ہوتی جائے گی۔
آج بھی انھیں جن مسائل کا سامنا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عوام میں غیر مقبول ہو رہے ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ اگر عمران خان تمام ضمنی انتخابات جیت جاتے اور کے پی میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ جیتا ہوتا۔ تو کیا انھیں آج اس قسم کے مسائل کا سامنا ہو سکتا تھا۔
اگر عوامی سروے میں ان کی مقبولیت بڑھتی ہوئی ملتی تو آج انھیں اس قسم کے سیاسی مسائل کا سامنا نہ ہوتا۔یہ درست ہے کہ حکومت پٹرول کی قیمتوں کو خاص کنٹرول نہیں کر سکتی،لیکن حکومت کی گزشتہ ساڑھے تین سال مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کارکردگی کوئی خاص اچھی نہیں رہی ہے۔