زباں فہمی لندن لُعبَت گُڑیا

دیکھیے کیسے ایک ظریف شاعر دکھ کا اظہار کرتا ہے تو اپنے سارے قارئین وسامعین کو بھی رنجیدہ کردیتا ہے


سہیل احمد صدیقی February 20, 2022
دیکھیے کیسے ایک ظریف شاعر دکھ کا اظہار کرتا ہے تو اپنے سارے قارئین وسامعین کو بھی رنجیدہ کردیتا ہے۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 134

اردوادب وصحافت نیز نشریات میں مذکور و منقول، کسی مغربی شہر کا سب سے زیادہ نمایاں نام بلاشبہ لندن ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ مغرب میں لندن وہ شہر ہے جس کا ذکر ہمارے یہاں سب سے زیادہ ہوا ہے۔

لندن ہمارے مشرقی (بشمول اردو) ادب میں کب اور کیسے داخل ہوا، سرِدست اس موضوع پر کوئی تحقیق پیش نظر نہیں، مگر یادداشت پر بھروسا کرتے ہوئے قیاس ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ ایسا غالباً مغل تاجدار جہانگیر کے عہد میں ہوا ہوگا، جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے پیش رو، انگریز یہاں تجارت کے بہانے اپنے پنجے گاڑنے پہنچے تھے۔

اُس وقت اردو کا بچپن تھا، اس لیے یہ لفظ یقیناً فارسی میں پہلے داخل ہوا ہوگا۔ ماقبل خطہ ہند میں پُرتگیِز (پُرتگالی کہنا درست نہیں)، ولندیز[Dutch] اور فرانسی یعنی فرینچ[French] (فرانسیسی غلط ہے) سامراجی گماشتے، یکے بعددیگرے، اپنے اپنے مقام پر، کمزور ہوتی ہوئی سلطنت کے حصے بخرے کرنے کی کوشش شروع کرچکے تھے۔ (یادداشت پر بھروسا کرنے کی بات اس لیے کی کہ بندہ کچھ روز کے لیے اپنے نجی کتب خانہ کی دید اور دسترس سے محروم ہوگیا ہے، کتب ڈبوں میں بند، خاکسار سوچوں میں گم۔ آخر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی بھی ناگزیر ہے)۔ برصغیر (یا برعظیم) پاک وہند کی ادبی، صحافتی وسیاسی شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے وقتی، عارضی طور پر یا ایک طویل مدت تک لندن میں قیام کیا۔

محض نام ہی گنوائیں تو سرسید احمد خاں، گاندھی جی، علی برادران، چودھری رحمت علی، قائداعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خان، سردارعبدالرب نشترؔ، پیرصاحب پگاڑا اور مابعد کے سیاست داں بشمول شریف برادران، عمران خان، الطاف......کون کون نہ ہوگیا۔ ادبی مشاہیر میں سرسید، پطرس بخاری، فیض، ابن انشاء، ساقی فاروقی، افتخار عارف، احمدفراز، مشتاق یوسفی اور دیگر متعدد اہم نام شامل ہیں۔

میرے محترم معاصر ڈاکٹر اَسد مصطفی صاحب کے، ایک مقامی اخبار کے لیے لکھے گئے باقاعدہ کالم ''سِرّ نہِاں'' کے شمارے ''فیض صاحب اور لندن''، مؤرخہ 24 جنوری 2022ء سے اقتباس آپ کی نذر ہے:''لندن سے فیض صاحب کی شناسائی بھی آج کل کے گوگل کے نقشوں کی محتاج نہیں تھی۔ اس کے متعلق خالد حسن لکھتے ہیں، لندن کے گلی کوچوں سے ان کی شدید جانکاری اور ناموں اور چہروں کو یاد رکھنے کی صلاحیت کی طرح ان کا سنس آف ڈائریکشن بھی خاصا حیران کن ہے۔

لندن ایک لامتناہی شہر ہے۔ خصوصاً اگر آپ اس میں کھو جائیں جو میرے ساتھ بالخصوص اس کے مشرقی اور جنوب مغربی حصوں میں اکثر ہوتا رہتا ہے۔ چند سال قبل فیض صاحب کو کرسٹل پیلس سے آگے، ایک صاحب کے گھر پہنچاتے ہوئے، میں راستہ بھول گیا۔ نقشے کے مطالعے نے مزید گڑ بڑا دیا۔ بحیثیت ایک دیرینہ 'لندن نواس' کچھ دیر تو میں نے ظاہر کیا کہ راستے سے بخوبی واقف ہوں مگر فیض صاحب ذرا بے نیازی سے سامنے کا جائزہ لے کر بولے 'ناک کی سیدھ میں نکل جاؤ۔ پھر اس طرف مڑو۔ پھر ادھر' اور ان کی ہدایت پر چل کر ہم واقعی عین منزل پر جا پہنچے۔ سال گزشتہ موصوف کو ہائی گیٹ لے جار ہا تھا۔ دوہری شاہراہ پر پہنچ کر پھر بھٹکا۔ خیال تھا فیض صاحب نے نوٹس نہ کیا ہو گا۔ کہنے لگے، بھئی اگر تم داہنے نہ مڑے تو اوکسفرڈ پہنچ جاؤ گے''۔

لندن کی ہوا معلوم نہیں کیسی ہوتی ہے، مگر اردو کے نامور طنزومزاح گو اکبرؔ الہ آبادی نے لندنی ہوا کھانے والے فرزند عشرت حسین عرف عشرتی کی خوب خبر لی تھی:

؎ عشرتی! گھر کی محبت کا مزا بھول گئے

کھا کے لندن کی ہوا عہدِ وفا بھول گئے

پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پرواہ نہ رہی

کیک کو چکھ کے سِوَئیّوں کا مزا بھول گئے

بھُولے ماں باپ کو اَغیار کے چرنوں میں وہاں

سایہء ِکفر پڑا، نورِ خدا بھول گئے

موم کی پتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی

چمنِ ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے

کیسے کیسے دل ِنازک کو دُکھایا تم نے

خبرِ فیصلۂ روز جزا بھول گئے

بخل ہے اہل وطن سے جو وفا میں تم کو

کیا بزرگوں کی وہ سب جود و عطا بھول گئے

نقل مغرب کی ترنگ آئی تمھارے دل میں

اور یہ نکتہ کہ مِری اَصل ہے کیا، بھول گئے

کیا تعجب ہے جو لڑکوں نے بھُلایاگھر کو

جب کہ بوڑھے رَوِشِ دینِ خدا بھول گئے

دیکھیے کیسے ایک ظریف شاعر دکھ کا اظہار کرتا ہے تو اپنے سارے قارئین وسامعین کو بھی رنجیدہ کردیتا ہے۔ کیک یقیناً اُس دور کے ہندوستانیوں کے لیے نسبتاً انوکھی چیز ہوگی، اس لیے اپنی ہردِل عزیز میٹھی شئے یا پکوان ''سوئیّاں'' یاد دلا کر شرمسار کیا۔ آج بھی یہ میٹھا پکوان گھر گھر پسند کیا جاتا ہے، مگر شاید عید، بقرعید کے علاوہ اس کا رواج کم ہوچکا ہے۔ اسی طرح بہت سی دیگر چیزیں ہیں ، مَیدے یا سُوجی سے بنی ہوئی میٹھی ٹِکیاں کبھی کبھار بنتی ہیں، مگر اس کی جگہ Doughnut/Donutبہت عام ہوگئے ہیں۔

باقر خانی کے نام سے نئے برگر بچے یقیناً ناواقف ہوں گے، ہمارے یہاں بھی بعض لوگ ایسا نام سن کر چونک جاتے ہیں۔ اس بابت بھی بہت پہلے ایک کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ نان خطائی کو برگر ہی نہیں، ہمارے یہاں کے خواندہ، نیم خواندہ اور کم خواندہ لوگ نان کھٹائی کہہ کر اُس کی عزت خاک میں ملادیتے ہیں۔ پورا بھاشن دینا پڑتا ہے کہ بھائی یہ چین کے مسلم علاقے خطاء سے تعلق رکھنے والا نان (روٹی) یا قدیم طرز کا بسکٹ ہے۔ یہ تفصیل ماقبل بھی ایک کالم میں رقم کرچکا ہوں، مگر بوجوہ دُہرانی پڑتی ہے۔

لندن کی حسیناؤں کو ''موم کی پُتلی'' کہنا اور پھر دیکھنے والے کا اُن پر دل آجانا، طبیعت کا پگھلنا قراردینا، جدید اردو شاعری میں الفاظ وتراکیب کی عمدہ صناعی کا نمونہ ہے۔ لندن کی حسینائیں مشرقی حسن کے شاہکاروں سے مختلف تو یقیناً ہوتی ہیں، مگر محض گلابی رنگت اُنھیں ہمارے سلونے پن پر غالب یا فائق ثابت نہیں کرتی۔ (ایک پرانا گانا یاد آگیا: او میری سانولی سلونی محبوبہ....جدید دور میں جنید جمشید اور ہم نوا نے بھی بنایا تھا: سانولی سلونی سی محبوبہ ...آگے کچھ پنجابی کا تڑکا تھا)۔ ہمارے یہاں خواتین یہ بھی کہتی ہیں کہ مغربی حسن بالکل پھیکا ہوتا ہے۔

ویسے مذاق برطرف، خواتین کیا کچھ مرد بھی سانولے رنگ والی خاتون کے لیے کہتے سنائی دیتے ہیں کہ صاحب! چہرے پر نمک بہت ہے۔ ہمارے ایک نستعلیق دوست بھی یہی کہہ چکے ہیں)۔ یہ الگ بحث ہے کہ خطہ ہند یا موجودہ جنوبی ایشیا میں رنگ کا تنوع بہرحال اپنی جگہ مُسَلّم اور ناقابل تردید حقیقت ہے۔ بات کی بات ہے کہ ہمارے یہاں مشرقی عورت کو ''وفا کی پُتلی'' کہا جاتا ہے، مگر یہ مخلوق مغرب میں بھی مل جاتی ہے۔

1990ء کا ذکر ہے کہ ہمارے ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر (اور موجودہ ٹیلی وژن مبصر) تو راقم کی زبانی یہ سن کر بری طرح مچل گئے تھے کہ بخدا! میں نے حوروں جیسا حُسن یہیں دیکھ لیا، اپنے علاقے کے فُلاں دفتر.......میں۔ موصوف کہنے لگے، ''یار! ہمیں تو اِتنا عرصہ ہوگیا، اس علاقے میں.....ہمیں تو کہیں نظر نہیں آئی، کہاں ہے؟ ہمیں بھی دکھاؤ''۔ اب آپ سے کیا چھُپانا ، وہ جلوہ زندگی میں بس ایک ہی بار دیکھنا نصیب ہوا۔ یہ ہے قدرت خدا کی۔ صاحبو! کون کہتا ہے کہ مشرق میں محض سانولا، گندمی اور دبا ہوا گورا رنگ ہی ہر جگہ نظر آتا ہے۔

یہاں بھی ملاحت کے ساتھ ساتھ صباحت پوری طرح جلوہ افروز ہے۔ شہابی رنگت بھی ملتی ہے، گلابی بھی، اس قدر گورا رنگ بھی کہیں کہیں نظر آتا ہے کہ زبان گنگ ہوجاتی ہے اور ذہن کُند کہ کیا الفاظ تلاش کریں محض یہ کہنے کے لیے یہ حسن کا ماہتابی نظارہ کس قدر دل کش ہے۔ ضمناً عرض کروں کہ بعض چہرے اس قدر حسین ہوتے ہیں کہ کیمرے کی آنکھ اُن کا عکس بعینہ قید کرنے سے قاصر ہوجاتی ہے۔ {ماضی میں پاکستان ٹیلی وژن کے ایک سابق سینئر پروڈیوسر دوست سے اس موضوع پر بات ہوئی کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں کہ سلمیٰ آغا کی عکاسی (بشمول ٹیلی وژن کی متحرک عکاسی) اَمرِمحال ہے۔

یہ نکتہ کسی فلمی صحافی نے اُٹھایا تھا، جب اس اداکارہ کا فوٹوشوٹ کسی جریدے میں شایع ہوا تھا۔ پروڈیوسر مرحوم نے بصراحت بتایا کہ واقعی ایسا ہی ہے۔ اداکارہ کا رنگ اس قدر گورا (Fair) ہے کہ بہت محنت سے میک اَپ کرکے فوٹو کھینچا جاتا ہے۔ یہی بات وجیہ وشکیل اداکار سنتوش کمار اور اُن کے بھائی دَرپَن کے لیے بھی کہی گئی تھی، خاکسار کو ایک مرتبہ کوئی بائیس سال پہلے ان حضرات کے چھوٹے بھائی سید سلیمان سے ملاقات کا اتفاق ہوا تو اُن کی خاندانی نشیلی آنکھیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ واقعی بڑھاپے میں یہ حال ہے تو جوانی میں کیا ہوگا}۔ میں نے کہیں لندن کی کسی حسینہ کے لیے ''لُعبت ِلندن'' کی ترکیب دیکھی تھی یعنی لندن کی گڑیا، (مجازاًحسین لڑکی کو بھی کہتے ہیں)۔

آگے بڑھنے سے پہلے لُعبت کے دیگر معانی بھی ملاحظہ فرمائیں: کھلونا، کھیلنے کی چیز۔ آن لائن لغات میں یہ مترادفات بھی دیکھنے کو ملے: بازیچہ، بُت، پُتلا، پُتلی، تصویر، فوٹو، گڈا، مُورت، مُورتی، کھیل۔ اس موضوع پر آگے بڑھنے سے قبل خاکسار ہی کے ایک پرانے کالم ''سخن شناسی'' کے ایک شمارے سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں، امید ہے لطف اندوز ہوں گے: ہم اردو میں گڑیا کہتے ہیں، عربی میں لُعبَت [Lu'bat] اور فارسی میں عَروسک، انگریزی لفظ Doll تو آپ سب ہی جانتے ہوں گے، فرینچ میں گڑیا کو کہتے ہیں: پُوپے (Poupee)۔ یہاں ایک دل چسپ بات آپ سے کہتے چلیں۔

لفظ عَروس، لغت کی رُو سے دولھا (دُلھا) اور دلھن دونوں کے لیے بولا جاسکتا ہے، مگر ہم صرف دلھن کو ہی کہتے ہیں۔ بس یہ اپنے اپنے روا ج کی بات ہے، بالکل اسی طرح جیسے عربی میں لفظ زوج، (شریکِ حیات) میاں بیوی دونوں کے لیے مستعمل ہے، مگر ہم صرف بیوی کے لیے استعمال کرتے ہیں، ایک 'ہ' کے اضافے سے یعنی زوجہ۔ (سخن شناسی کالم نمبر ۲: چینی گُڑیا اور گُڑیا چینی، تحریر: سہیل احمدصدیقی، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین، مؤرخہ اٹھارہ جون دوہزارسترہhttps://www.express.pk/story/849400/-)۔ لعبت پر یاد آیا کہ بعض شعراء نے بھی یہ لفظ استعمال کیا ہے اور خوب کیا ہے:

فدویؔ یہی رکھتے ہیں مگر دل میں تمنا

لکھیں گے سراپا شرر اس لعبت چیں کا

(لالہ سیوک رام فدویؔ)

مجھے گمان ہے کہ آخرمیں لفظ ''کو'' ہونا چاہیے۔

اللہ نے چاہا تو ہم اے برہمن دیر

مشتاق کسی لعبتِ چیں کے نہ رہیں گے

(حاتم علی مہرؔ) }حاتم علی مہرؔ (1815 - 1879) ہمارے نامور سخنور، میرزا غالبؔ کے ہم عصر اور دوست، ہائی کورٹ کے وکیل اور آنریری مجسٹریٹ تھے۔ حیرت ہے کہ سرسری آن لائن تلاش میں کہیں 'لعبت ِ لندن' کی ترکیب نظر نہیں آئی۔ البتہ لعبتِ چین یعنی چینی گڑیا (مجازاً حسین لڑکی) مل گئی۔ میرزا غالبؔ کے مقرب تلامذہ میں شامل، بال مکند بے صبرؔ(1812یا /13 18تا 1885ء بمقام دہلی، ہندوستان) کہہ گئے ہیں:

آج وہ لعبت ِچیں، چیں بہ جبیں

بے خطا مجھ سے ہوا، کیا باعث

(بال مکند بے صبرؔ)

ذرا غو ر فرمائیے کس طرح اس مشاق سخنور نے چیں یعنی چین اور چیں بہ جبیں (ماتھے کی شکنیں) کو یک جا کیا اور پھر استعجاب کا عمدہ اظہار بھی بزبان عاشق کردیا۔ یہ کلاسیکی شاعری کے آخری فن پاروں میں یقیناً قابل ذکر ہے۔ اب ہمارے طنز ومزاح گو شعراء کے سَرخَیل (سین پر زبر اور خے پر زبر کے ساتھ یعنی سردار: فارسی) اکبر الہ آبادی کا شعر دیکھیں:

بہت خوش ہے کہ قد، لعبت چیں کے مطابق ہے

ہمارے طفل دل نے کھیل سمجھا ہے قیامت کو

چینی گڑیا ہی پر کیا موقوف، ہمارے یہاں تو جاپانی گڑیا بھی بہت مشہور رہی ہے۔ ایک پاکستانی فلم ''جاپانی گُڈّی'' میں شامل (سن نمائش: 1972)، احمدرشدی مرحوم کے (اداکار منورظریف پر فلمائے گئے) ''الف سے اچھی، گاف سے گڑیا، جیم سے جاپانی/لُوٹ لیا ہے تو نے ایک مسافر پاکستانی'' جیسے مقبول گانے نے تمام پاکستانی مردوں کے دل موہ لیے اور پھر اکثر نے گڑیا کی تلاش میں جاپان جانے کا قصد کیا۔ ویسے گڑیاں تو کم وبیش ہر ملک اور خطے میں مختلف اقسام کی مشہور ہیں، مگر ہم یہاں ''انسانی'' گڑیوں کا ذکر کررہے ہیں۔

دیگر اشعار میں لعبت کا استعمال بمعنی کھیل بھی ملتا ہے، جیسے :

گیا ایک دیر میں اور واں جو لعبت کر اٹھے ہاں ہاں

تو نکلا واں سے گھبرا کر بتوں کا باندھ پشتارا

(نظیرؔ اکبر آبادی)

امتحاں گاہ میں اس شان سے سر کٹوانا

کھیل بچوں کا نہیں اے فلک لعبت باز

(عزیزؔ لکھنوی)

یہ وہی اکبر الہ آبادی ہیں جن کا ایک اور شعر انگلستان کے حوالے سے زباں زدخاص وعام ہوا:

سدھاریں شیخ کعبے کو، ہم انگلستان دیکھیں گے

وہ دیکھیں گھر خدا کا، ہم خدا کی شان دیکھیں گے

{بات کی بات ہے کہ ہمارے ایک معاصرشاعر زندگی میں پہلی مرتبہ (کسی سیڑھی کے طفیل) لندن کی ہوا کھانے جارہے تھے تو خاکسار نے یہی شعر پڑھ کر رخصت کیا۔ وہ اتنا خوش ہوئے کہ واپس آکر ایک ادبی جریدے میں ''انگلستان۔خدا کی شان'' کے عنوان سے قسط وا ر سفرنامہ لکھنا شروع کردیا۔ پانچویں قسط کی اشاعت کے بعد، مدیر نے سلسلہ یہ کہہ کر روک دیا کہ ''قارئین پوچھ رہے ہیں، سفر نامہ کب شروع ہوگا''}۔

ہندوستان سے لندن، انگلستان جانے والے اولین اور مشہور افراد میں حافظ منشی عبد الکریم (پیدائش: 20 اگست 1863-وفات: اپریل 1909)، اتالیقِ ملکہ وکٹوریا (وکٹوریہ مدتوں رائج رہا ہے، اس لیے غلط نہیں کہا جاسکتا) شامل ہیں جو آزاد دائرۃ المعارف، ویکی پیڈیا کے اندراج کے مطابق، منشی آگرہ سے اوائل 1887ء میں روانہ ہوئے اور یکم جون 1887ء کو لندن پہنچے۔ وہ پہلے شاہی مطبخ یعنی باورچی خانے [Royal kitchen]میں بیرے کے طور پر ملازم ہوئے۔

بی بی سی کی ویب سائٹ پر موجود ایک نگارش کے بیان کے مطابق، انھوں نے اور ساتھی بیرے محمد بخش نے شاہی محل، وِنزر کاسل [Windsor castle,Berkshire]میں23 جون 1887ء کو پہلی مرتبہ، ملکہ کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ بعد اَزآں ان کی قابلیت ولیاقت نمایاں ہوئی تو وہ ملکہ کے خاص مصاحب، منشی اور اتالیق مقرر ہوگئے۔

انھوں نے ''قیصرہ ہند'' ملکہ برطانیہ وہند کو فارسی اور اردو کی تعلیم دی اور وہ اپنی روزانہ بیاض[Daily diary] بھی اردو میں لکھا کرتی تھیں۔ جب اُن کے محبوب شوہر شہزادہ البرٹ کا انتقال ہوا تو انھوں نے اپنی پوری اردودانی استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ آج فُلاں تاریخ، فُلاں دن، فجر کے نو بجے ہمارے ہردل عزیز شہزادہ البرٹ [Prince Albert of Saxe-Coburg and Gotha:died 1861] اس دارِفانی سے رخصت ہوگئے۔ (ملکہ نے علی الصباح کی بجائے فجر لکھ دیا....باقی الفاظ یادداشت سے لکھ رہا ہوں، ایک آدھ کا فرق ہوتو معاف کیجئے گا)۔ اس تاریخی شخصیت کے متعلق ہمارے بزرگ معاصر، جناب رضاعلی عابدی نے ''ملکہ وکٹوریا اور منشی عبدالکریم'' کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔2018 ء میں برطانوی شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن مارکل نے اپنی شاہی رہائش گاہ کنسنگٹن پیلس ( Kensington Palace) سے فروگمور کاٹیجFrogmore Cottage منتقل ہونے کا اعلان کیا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں اس ہندوستانی ملازم کا قیام ہوا کرتا تھا۔n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں