بلیک ہول کی نئی کہانی

اس کائناتی عنصر کے افسانوی تصّور سے پہلی حقیقی تصویر بننے تک


ناصر ذوالفقار February 20, 2022
اس کائناتی عنصر کے افسانوی تصّور سے پہلی حقیقی تصویر بننے تک ۔ فوٹو : فائل

SHEFFIELD: سو برسوں سے زائد ماہرین فلکیات کو جس کا انتظار تھا وہ شاہ کار تصویر بالآخر آج دنیا کے منظر نامے پر نمودار ہوچکی ہے اور اپنا حقیقی وجود رکھتی ہے، یہ کیا! یہ تو اتنی واضع اور خوبصورتی کی حامل بھی نہیں ہے کہ جتنی کہ آرٹسٹوں نے تخیلات میں ان ''سیاہ گڑھوں'' کو پینٹ کیا تھا؟

یہ ابتدائی نوعیت کے سوالات ہیں جو کہ عام کائنات کا علم رکھنے والوں کے ذہن میں فوری جنم لیتے ہیں لیکن درحقیقت سائنس دانوں کے لیے یہ ایک بہت بڑی کامرانی کی دلیل بن چکی ہے جو فلکیاتی طبیعات و کاسمولوجی کے مستقبل کے لیے ایک بڑی چھلانگ ثابت ہورہی ہے۔

وہ جس کے دیدار کے لیے ماہر برسہا برس سے نہایت صبرواستقامت کے ساتھ امیدیں باندھے بیٹھے تھے۔ اب تک بلیک ہول یا سیاہ گڑھوں کے حوالے سے کی گئی تحقیقات میں جو اندازے و تخمینے لگائے گئے تھے انہیں ثابت کرنے کے لیے بلیک ہول کی یہ پہلی تصویر ایک اٹل حقیقت کی شہادت ہے، کیوںکہ اس نے ثابت کردیا ہے کہ سائنس داں و ماہرین طبیعات نظریاتی طور پر بالکل درست سمت میں تھے جن میں آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ جیسے جینئس ماہرطبیات پیش پیش رہے ہیں۔

صد افسوس کہ اسٹیفن ہاکنگ اس پہلی تصویر کے منظرعام پر آنے سے پہلے ہی اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے، وہ اس تصویر کے سامنے آنے کے ایک سال پہلے ہی فوت ہوئے تھے۔

10 اپریل 2019 ء، بدھ ایک یادگار اور سائنسی تاریخ کا ایک اہم ترین دن تھا، جب ایونٹ ہورائزن کی نیٹ ورکس دوبینوں کی مدد سے اکٹھا کیاگیا۔ تصویری ڈیٹا کو پکچر میں لانے اور بلیک ہول کی اب تک کی اولین تصویر کی گواہی کا اعلان کیا گیا۔

برسلز کی اس پریس کانفرنس میں جس میں فلکیات داں، انجینئرز اور نظریاتی فزکس کے ماہرین پر مشتمل ارکان تھے، خطاب کرتے ہوئے انسان کی اس بڑی کام یابی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا کہ انہوں نے اب ایک عظیم جسامت (Super Massive) کے حامل بلیک ہول کو دیکھ لیا ہے۔



یہ دیوقامت بلیک ہول کہکشاں M-87 کے قلب میں واقع ہے اور ہماری زمین سے پانچ کروڑ 50 لاکھ نوری سالوں کی دوری پر ہے۔ ایونٹ ہورائزن یا ''واقعاتی افق'' کی منظر کشی کے لیے بنائی گئی دوربینوں کو ایک نیٹ ورکس سے جوڑا گیا ہے جو کہ دنیا کے اطراف مختلف مقامات پر نصب ہیں اور اسے ''ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپس'' یا EHT کہا جاتا ہے۔

اگرچہ اس بڑے جسیم بلیک ہول کی تصویر اتارنے کے لیے ہماری زمین کے برابر سائز کی دوربین درکار تھی چناںچہ ان آٹھ ریڈیو دوربینوں کو جوڑ کر ایک مجازی زمین کے برابر دوربین کو ڈیزائن کیا گیا ہے جو دنیا کے آٹھ مختلف ممالک میں بٹھائی گئی ہیں تاکہ اس خصوصی واقعاتی افق سے ڈیٹا کو موصول کیا جاسکے۔

اس کے علاوہ چلی کے ایک لق دق صحر ''اتا کاما'' میں واقع اتا کا ما لارج میئر ایرے (ایلما) نے بھی بھر پور رول ادا کیا ہے۔ اس بلیک ہول جو نہایت وسیع وعریض کہکشاں کے مرکز میں ہے، کی تصویر کی دریافت کی اہمیت کا اندازہ یو ں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر ممتاز سائنسی جریدے ''آسٹرونومیکل جنرل لیٹرز'' کے خاص ضمیمے میں چھے تحقیقاتی مقالے شائع کیے گئے ہیں جس میں بلیک کی حالیہ تصاویر اور دیگر دوسری تفصیلات مہیا کی گئی ہیں جو کہ ہر خاص وعام کے لیے اوپن ذریعے کے طور پر مفت حاصل کی جاسکتی ہیں۔

اس بلیک ہول کی انوکھی تصویر میں گو ل گڑھے جیسا دکھائی دینے والا ''سیاہ حلقہ'' ہے جس کے نچلے حصّے میں قدرے روشن اور موٹائی پر مشتمل دائرہ ہے۔ اس بلیک ہول کا 2017 ء میں مشاہد ہ کیا گیا اور اسکی تصویر اتارنے میں پورے دو سال صرف ہوئے۔

بلیک ہول کی حقیقت کیا ہے؟

ہمیشہ سے ہی تجسس کے حامل یہ ''سیاہ گڑھے'' جنہیں بلیک ہول سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کائنات کے سربستہ رازوں میں اہم ترین شے رہے ہیں اور ان پر سب سے زیادہ تحقیق بھی کی جارہی ہے۔ بلیک ہول دراصل اپنے ماضی میں ایک ستارہ ہی ہوتا ہے جیسا کہ ہمارا اپنا سورج، ان کی زندگی اور اختتام زوردار دھماکے پر ہوتا ہے اور پھر نئے ستارے جنم لیتے ہیں جو کہ ان کی پیدائش کا سگنل بھی ہوتا ہے۔

ستاروں میں جب ان کا ایندھن (ہائیڈروجن، ہیلیم) ختم ہونے کو ہوتا ہے تو ان کے مرکز میں بے پناہ دباؤ پیدا ہوتا ہے جو ستارے کی بیرونی جھلّی کو تباہ وبرباد کردیتا ہے۔ ستارے جوہری تاب کاری کے نتیجے میں سفید یا نیلے بونے (Dwarfs)بن جاتے ہیں اور ایک ممکنہ امکان ہے کہ وہ بونے ستارے بننے کے بجائے زبردست دھماکے سے پھٹ پڑیں جس کی زبردست روشنی خارج ہوتی ہے۔ یہ سپر نووا کہلاتا ہے۔ ستاروں کی پیدائش کی نرسریوں میں رہ جانے والی مادہ کی مقدار اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ جو عموماً کسی نیوٹران ستارے کی آخری منزل نہیں ہوسکتی اور وہ بے انتہا سکڑ جاتا ہے، اس کی بچ جانے والی راکھ یا ملبے کی کثافت غیرمعمولی حد تک بڑھ جاتی ہے۔

یہاں اب سرحدیں ''ایونٹ ہورائزن یا واقعاتی افق وہ مقام بن جاتا ہے جہاں آنے والی ہر شے قید ہوکر رہ جاتی ہے، حتیٰ کہ روشنی بھی یہاں سے فرار کی طاقت نہیں رکھتی۔ حرکت کے قانون کے مطابق یہ سیاہ گڑھا ایک مکمل کالا ستارہ یا عرف عام میں 'بلیک ہول ' بن چکا ہوتا ہے جو اپنے اند ر کھینچنے، جذب کرنے یا ہڑپ کرنے کی بے پناہ طاقت رکھتا ہے۔

بلیک ہول کی جدید اصطلاح امریکی ماہر فلکیات جان وہیلر نے 1969 ء میں وضع کی تھی تاہم۔ اس کا تصّور 200 سال پہلے انگریز سائنس داں جان مچل نے 1783 ء میں پیش کردیا تھا۔ پچھلے پانچ سالوں میں بلیک ہول کے حوالے سے زبردست پیش رو ہوئی ہے۔

2015 ء میں اسٹیفن ہاکنگ کی نئی تجویز سے اب ''بلیک ہول گم شدہ معلومات کا پیراڈوکس'' (Black Hole's Lost Information Pardox) کے 50 سالہ معمّے کے حل ہونے کی امکانات روشن ہوئے۔ ان کی نئی تھیوری نے دنیا میں تہلکہ مچادیا ہے اور ماہرینِ طبیعات کے لیے یہ گرم ترین موضوع بن گیا۔



بلیک ہول کے چیلنجنگ نظریے کے بارے میں ہاکنگ نے کہا تھا اگر آپ محسوس کریں کہ آپ بلیک ہول میں ہیں تو یہاں سے باہر نہیں نکل سکتے، وہاں سے فرار ناممکن ہے۔ ہاکنگ نے کہا کہ''اگر کوئی جسم بلیک ہول میں گرتا ہے تو وہاں سے فرار ممکن ہے لیکن گرنے والا مسافر کائنات میں واپسی کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ وہ ایک دوسری کائنات میں پہنچ سکتا ہے جو کہ بالکل ہماری جیسی کائنات کی طرح ہوسکتی ہے۔'' ہاکنگ نے اس بارے میں مزید بتایا کہ ''ایک بڑی جسامت کا بلیک ہول ہو اور وہ گردش پذیر بھی ہوتو یہ قوت اسے دوسری گزرگاہ سے کسی اور کائنات میں لے جاسکتی ہے۔

اگرچہ اس کے برخلاف میں ایک خلائی پرواز کا آرزومند رہا ہوں، ایسے سفر پر جانے کی کوشش نہیں کروں گا اور اس سے گریز کروں گا۔'' اگر اسٹیفن ہاکنگ حق بجانب تھے تو یہ بلیک ہول کے بارے میں اب تک کا سب سے الگ اور جداگانہ تصّور ہے۔ بلیک ہول کے مرکز ''نیوکلیس'' سے تاب کاری کی صورت میں خارج ہوتی ہیں اور انہیں ''ہاکنگ کی تاب کاری'' سے جانا جاتاہے جو کہ ہاکنگ کی تحقیق کا بڑا محور رہا تھا جس پر وہ بجا طور پر نوبل پرائز کے مستحق تھے۔

اسی سال 2015 ء میں بلیک ہول کے حوالے سے بڑی پیش رفت ہوئی اور سو سال کے بعد آئن اسٹائن کے ثقلی لہروں کے نظریے اور نظریہ اضافیت کی تصدیق ممکن ہوگئی۔ یہ لہریں بالکل ریڈیو ویوز کی طرح ہیں جنہیں برقی مقناطیسی (Electromagnetic)کہا جاتا ہے، آئن اسٹائن اس بات پر کامل یقین رکھتے تھے کہ یہ لہریں کشش ثقل یا گریویٹی کی صورت میں سفر کرسکتی ہیں۔ یہ بہت زیادہ توانائی سے بھرپور (Energetic) لہریں ہیں جو کائنات میں دو بلیک ہولوں کے باہم زبردست ٹکراؤ سے خارج ہوتی ہیں۔ نیوٹن کا قانون کشش ثقل (گریویٹی) کو ایک قوت کے طور مانا جاتا ہے جو کہ دو کائناتی اجسام کے مابین اثر رکھتی ہے اور ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

نظریہ اضافیت کے سامنے آجانے سے کشش ثقل کی ماہیت یکسر بدل چکی ہے۔ کائنات میں بڑی جسامت کے دو عظیم سیاہ گڑھے جب آپس میں ٹکرائیں تو اس عمل کے نتیجے میں خصوصی توانائی پیدا ہوتی ہے۔ جہاں یہ لہریں جنم لیں اس کے زیراثر وہاں پر موجود تمام فلکیاتی اجسام کی حرکت رفتار بڑھ جاتی ہے۔

ان مشاہداتی جڑواں سیاہ گڑھوں کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں 36 گنا اور 29 گنا بھاری ہے گڑھوں کے ٹکرانے سے ان کا مجموعی وزن 65 گنا ہونا چاہیے تھا جو کہ 63 رہ گیا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ تین گنا کمیت توانائی میں بدل گئی اور اس عظیم توانائی کے اخراج کا اندازہ سورج کے 15 لاکھ سالوں میں پید ا کی جانے والی توانائی سے لگایا گیا ہے۔ ثقلی لہروں کی تازہ دریافت کی بدولت اب ممکن ہو چلا ہے کہ ہم کائنات کے چھپے ہوئے 80 فی صدی حصّے (ڈارک انرجی، ڈارک میٹر) تک رسائی بڑھاسکیں گے۔

اسی سال فلکیاتی تاریخ کا یہ پہلا اور یادگاری موقع تھا جب چند گھنٹوں کی آخری ساعتوں کے درمیان بلیک ہول سے خارج ہونے والی روشنی کی لہروں کو دیکھا گیا تھا۔ یہ بلیک ہو ل جوکہ ''سگنس'' ستاروں کے جھنڈ میں واقع ہے اور ہماری زمین سے 7.800 نوری سالوں کی دوری پر ہے، یہ اب تک فلکیاتی نقطہ نظر سے بلیک ہول کی تاریخ کا ناقابل یقین واقعہ حقیقت میں بدل چکا ہے کہ اس بلیک ہول سے نکلنے والی روشن چمک کی کوند کو شوقیہ فلکیاتی ٹیم نے دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے عام فلکیاتی 20 سینٹی میٹر ز کی دوربین سے بلیک ہول کا مشاہدہ کیا جو اس سے پہلے ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑا ثبوت ہے کہ عام دوربین سے بھی بلیک ہول کو دیکھا جاسکتا ہے۔

بلیک ہول کی اولین تاریخی تصویر نے ان کی تحقیق میں ایک بڑی جست لگائی ہے اور انقلاب برپا کردیا ہے۔ اس تصویر کو کئی مقامات سے مسلسل چھے دن تک مشاہدہ میں رکھا گیا تھا، اور دیکھا گیا کہ بلیک ہول اپنی جسامت برقرار رکھے ہوئے تھا۔ بلیک ہول ہماری زمین کے مجموعی حجم سے 30 لاکھ گنا بڑا ہے۔

اس کا فاصلہ 50 کروڑ کھرب کلومیٹر ہے۔ سورج سے 6.5 ارب گنا بڑا ہے اور اس کی لمبائی 400 ارب کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس عظیم تجربے کے لیے پروجیکٹ کی تجویز پروفیسر ہاینوفلیک نے پیش کی تھی جن کا تعلق نیدرلینڈ کی ''رادباؤنڈ'' یونیورسٹی سے ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جو تصویر کہکشاںایم ۔87 سے حاصل ہوئی ہے سائنس دانوں کے اندازوں کے مطابق یہ بلیک ہول اب تک دریافت شدہ بلیک ہول میں سب سے زیادہ وزنی ہے اور ہمارے نظام شمسی سے بھی بڑا جسم رکھتا ہے۔

یہاں جو روشنی دکھائی دے رہی ہے اسی تیز روشنی کی وجہ سے ہم اسے دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ بلیک ہول کے اطراف موجود دائرہ وہاں اس لیے ہے کہ وہ بلیک ہول میں داخلی راستے کا مرکز ہے اور جہاں گزرنے والی کوئی بھی شے اس ہول کی انتہائی کشش ثقل بچ کر نہیں نکل سکتی اور اس کی برداشت سے باہر ہوجاتی ہے اور شکست کھاکر اندر جاگرتی ہے، اس مقام پر فزکس کے تمام اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

اکثر کہکشاؤں کے بیچوں بیچ ایک بڑا بلیک ہول ہوتا ہے، تاہم اس کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں بلیک ہول موجود ہوتے ہیں جب کہ دیکھا جانا والا یہ ہیوی ویٹ بلیک ہول تھا۔ تمام بلیک ہولوں کی خصوصیات مختلف طرح کی ہوتی ہیں ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ قریبی گیس و خلاء کی دھول اور ستاروں تک کو ہڑپ کرجاتے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں توانائی کی اتنی بڑی مقدار کا اخراج کرتے ہیں کہ آس پاس میں نئے ستاروں کی تشکیل کا عمل تک گھٹائی میں پڑجاتا ہے۔

سالوں سے ماہرفلکیات خیال کرتے آ رہے تھے کہ اس جیسی تصویر کو ممکنہ حقیقی تصویر یا امیج کا رنگ دیا جائے، چناںچہ اس عظیم مقصد کے لیے دیوقامت بڑی دوربین کا خیال آیا۔ اگرچہ اس بڑے جسیم کے بلیک ہول کی تصویر اتارنے کے لیے ہماری زمین کے برابر سائز کی دوربین درکار تھی، چناںچہ ان آٹھ ریڈیو دوربینوں کو جوڑ کر ایک مجازی زمین کے برابر ورچیوئل دوربین کو ڈیزائن کیا گیا ہے جو دنیا کے آٹھ مختلف ممالک میں لگائی گئی ہیں، تاکہ اس خصوصی واقعاتی افق سے ڈیٹا کو موصول کیا جاسکے۔



اس کے علاوہ اتا کا ما لارج میئر ایرے (ایلما) نے بھی بھر پور رول ادا کیا ہے۔ دنیا کی چالیس اقوام کے سائنس داں اور ماہرین ٹیکنالوجی تیرہ سال سے اس تصویر کے حصول کے لیے تحقیق و جستجو کررہے تھے۔ بیک وقت ای ایچ ٹی کی چھے مختلف پریس کانفرنس کی گئی تھیں، جن میں اس تصویر کو ریلیز کیا گیا۔ اس EHT پروجیکٹ میں سائنس دانوں نے باہمی اشتراک سے کام کیا اور آٹھ رصدگاہوں نے مل کر ایک ورچیول ٹیلی اسکوپ تخلیق کی ہے تاکہ بلیک ہول کی تصویر کی تفصیلات کو حاصل کیا جاسکے۔

EHT کی تخلیق کردہ ٹیلی اسکوپ چلی، ہوائی، ایروزونا، میکسیکو، اسپین اور ساؤتھ پول پر نصب ہیں۔ ہر ایک ٹیلی اسکوپ کے ساتھ یکساں مطابقت پید ا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ "Petabytes" ڈیٹا کے اعدادوشمار جمع کرنا ممکن ہو۔

اس ڈیٹا کو بہت ہی طاقت ور سپرکمپیوٹر کی مدد سے آپریٹ اور پروسیس کیا جاتا ہے جو ڈیٹا سے تصویر بنادیتا ہے۔ سارا ڈیٹا بڑے پیمانے کی گنجائش والی ہارک ڈسک میں محفوظ ہوتا ہے اور ہر ریڈیواسٹیشنوں میں ایک بڑی ہارڈڈرائیو موجود ہے جو تمام اعدادوشمار کا ذخیرہ رکھتی ہے۔ ای ٹی ایچ کے ڈائریکٹر Shep Doeleman نے بتاتے ہوئے کہا کہ بلیک ہول سائنس فکشن کے مصنفین کی جانب سے کسی شے کے مقابلے میں بہت اجنبی ہیں لیکن اب وہ سائنس کے حقیقی معاملات ہیں، اگر ہم سب کے لیے یہ ایک بڑا لمحہ ہے تو یہی دن ہے!

حقیقی بلیک ہول کی تصویر ڈیٹا کی ماہر کیٹی باؤما (Katie Bouma) ہیں جو ای ایچ ٹی کی ایک اہم خاتون رکن ہیں، جن کا تعلق یونیورسٹی آف ہاورڈ سے ہے۔ کئی سال کیٹی نے مطلوبہ تصویری ڈیٹاز کو اکٹھا کرنے میں صرف کیے ہیں۔ اس ڈیٹا کے اسٹوریج کے لیے جو ہارڈڈسک ڈرائیوز استعمال کی گئی وہ مجموعی طور پر آدھا ٹن وزنی ہے۔ اس طرح حاصل شدہ تصویری اعدادوشمار کو قابل منظر تصویرکشی میں بدل دیا گیا۔ کیٹی حیران کن طور پر جب ٹیم میں شامل ہوئی تھیں تو بلیک ہول یا فلکیاتی فزکس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔

اس کے برعکس ان کی قابلیت کمپیوٹر سائنس اور الیکٹریکل انجینئرنگ ہے اور وہ چھے سال سے ٹیم میں شامل تھیں۔ ان کا تجسّس غیرمرئی چیزوں کو دیکھنے اور پیمائش کرنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے زبردست تھا، لہٰذا اسی لیے وہ اس قابل فخر ٹیم کے لیے موزوں امیدوار رہی ہیں۔ کیٹی نے ناصرف ایسے الگورتھم تیار کیے جو ممکنہ تصویر کی تیاری کا سبب بنے بلکہ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی ٹیم کے لیے سوچنے کے نئے زاویے کا طریقہ کار بھی ڈھونڈ نکالا اور متعارف کرایا۔ وہ کہتی ہے کہ جو میں نے کیا وہ دراصل خود کو جانچنے کا کلچر بن گیا۔

یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر ڈاکٹر زیری یونسی جو اس منصوبے کے شریک کار بھی تھے، کہتے ہیں کہ مشترکہ نیٹ ورکس دوربینوں سے ملنے والا مواد یا ڈیٹا اتنی بڑی مقدار میں تھا کہ اسے انٹرنیٹ سے منتقل کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے، چناںچہ تمام تر ڈیٹا کے اعدادوشمار کو محفوظ کرنے کے لیے ہارڈ ڈسک ڈرائیوز استعمال کی گئی ہیں اور اس جمع شدہ اسٹورج ڈیٹا کو امریکی شہر بوسٹن اور جرمنی میں بون بھیجا گیا۔ پروفیسر شیپرڈ نے کہا کہ یہ ایک انتہائی حیران کرنے والا سائنسی کارنامہ ہے۔ ہم نے اس کام کی انجام دہی کی ہے جو کبھی کئی نسلوں کے لیے ناممکن سمجھا جاتا تھا۔

''ہاکنگ ریڈیشن'' کے مطابق بلیک ہول جب اپنی تمام توانائی کو خارج کردیتے ہیں تو سکڑ جاتے ہیں، بلیک ہول اتنے سیاہ نہیں جتنے کہ تصاویر میں دکھائے جاتے ہیں۔ ابھی ہاکنگ کے اس نظریے کی EHT نے تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔

پروفیسر ہاینو فلیک نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سائنس داں ایسے خطّے کو دیکھ رہے ہیں جس کا ان کے لیے تصور بھی محال تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وقت اور خلاء کے اختتام اور واقعاتی افق پر ہم جہنم کے دروازے کو دیکھ رہے ہیں، کم ازکم مجھے یہ حیران کرنے والا ہے لیکن فزکس کے لیے اہم ترین! حقیقت میں بھی کائنات کی آگاہی اور سمجھ بوجھ بڑھانے والا یہ بڑا بریک تھرو ہے۔ فلیک نے مزید کہا کہ آپ بلیک ہول نہیں دیکھ رہے دراصل اس سائے (شیڈ) کو دیکھ رہے ہیں جو اس واقعاتی افق کے پس منظر میں ہے۔

یہاں روشنی غائب ہوجاتی ہے، یہاں اس خطّے یا شیڈ کو علاقہ تخلیق کرتا ہے، دیکھ سکتے ہیں۔ اس تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بلیک ہول کے اطراف ''رنگ آف فائر'' جیسا نارنجی رنگ کا دائرہ ہے، اسے اس شکل میں واضح طور پر دیکھنا اس لیے ممکن ہوسکا کہ جو گیسیں بلیک ہول میں جاتی ہیں اس سے پیدا شدہ روشنی دائرے کو اور زیادہ نمایاں بنادیتی ہے۔

جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی آسٹروفزکس ماہر Misty Bantz بزنس انسائیڈر کو بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس تصویر کی ریلیز سے قبل وہ سپر میسیو ہول کی واضح تصویر کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔ مسٹی نے کہا کہ سیاہ ہول کا اس تصویر میں ظہور ہونا طبیعات کے علم میں اضافہ کرے گا۔ اس کا نظریہ انیسویں صدی کی دہائیوں میں بتایا گیا تھا، بلیک ہول دوسرے اجسام کو ہڑپ کرنا کا پیٹرن اور ہاٹ جگہیں، آرکیولوجی وتاریخی اسٹریکچر اور آئن اسٹائن جس کے بانیوں میں سے ہیں۔ پروفیسر سائمز ولیمز کہتے ہیں کہ اس کائنات میں بلیک ہول سب سے زیادہ پراسراریت کی اشیاء ہیں، ہم نے وہ دیکھ لیا ہے کہ جو ہم نے سوچا تھا، یہ ناگزیر تھا!

اس تاریخی سیاہ ہول کی تصویر میں روشن ترین ''اسرِیشن ڈسک'' (Accretion Dick) ہے، یہ روشنی کی ایک ایسی ڈسک ہے جو کہ بلیک ہول کے گرد بنتی ہے جب کوئی ستارہ اس کے بہت قریب سے گزرتا ہے اور اس عمل میں ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ بلیک ہول کی حد واقعاتی افق کے قریب یہ ڈسکیں مادّہ کی چوتھی حالت 'پلازمہ' کے سرچشمے کو ڈھکیلتی ہیں اسے"Relativistic Jets" کہتے ہیں۔ اس جگہ بلیک ہول کی شدید حرارت و تپش Accretion Disk کو ناقابلِِ یقین روشن و دہکتا ہوا بنادیتی ہے۔

یہ انتہائی درجۂ حرارت تک پہنچتا ہے جس میں یہ روشنی کم کرنے کے لیے بلیک ہول کے اطراف ایک انگوٹھی کی طرح ظاہر ہوتی ہے روشنی کے پس منظر میں سیاہ سوراخ نظر آتا ہے۔ یہی اس کا اہم جُز ہے جہاں روشنی موجود نہیں، مرکز میں سیاہی حلقہ وہ مقام ہے جس کی پیمائش 25 بلین میل بنتی ہے۔ ایونٹ ہورائزن پرگریویٹی نہایت ہی طاقت ور ترین شے ہے کہ یہاں سے فرار ناممکن ہے۔ بلیک ہول اسی طرح دکھائی دیتے ہیں، یہ بڑا زندہ ثبوت ہے اور ماہرین نے کبھی اس کے بارے میں سوچ رکھا تھا۔

واقعاتی افق یا شیڈو کا فاصلہ 62 بلین میل یا 100 بلین کلومیٹر ہے جب کہ اطراف میں25 بلین میل (چالیس بلین کلومیٹر) پھیلا ہوا ہے اور یہ فاصلہ پورے نظام شمسی سے بھی بڑا ہے اور پلوٹو کے فاصلے سے بھی تین گنا زیادہ ہے۔ ''واقعاتی افق'' کو ایک بار عبور کرنے کے بعد آپ کا بچنا محال ہے جس کی کشش ثقل سے تو روشنی جیسی تیزترین شے بھی فرار سے قاصر ہے جب کہ ہمارا آج کا تیزترین خلائی جہاز بھی روشنی کی رفتار کا محض ایک فی صدی ہے۔ افق کے کناروں اور اس کے آگے کی ہر شے اندھی تاریکی کے سوا کچھ نہیں۔

قیدی بلیک ہول کی اس کشش ثقل کی گرفت کے اندر پھنس کر رہ جاتا ہے۔ اسی لیے یہ تصویر ہمارے لیے راستوں کی جانب شروعات ہیں۔ اب ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ یا ای ٹی ایچ کی اس ٹیم نے اپنی نگاہیں ایک اور سپر جسیم بلیک ہول کی جانب مرکوز کرلی ہیں۔ اس بار یہ ہماری اپنی کہکشاں کے اندر ہے۔"Sagittarius A" نامی یہ مطلوبہ ٹارگٹ بلیک ہول گلیکسی ملی وے کے مرکز میں ہے اور یہ زمین سے 25000 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔

ہماری کہکشاں اس دیوقامت Messies 87" ـ" کے مقابلے پر نمایاں طور پر چھوٹی ہے۔ تو خیال ہے کہ اس کی تصویر کا حصول اور بھی زیادہ مشکلات کا حامل ہوگا۔ اس کی تصویر کے بننے کے عمل میں ماہرین کو ڈیٹا جمع کرنے اور پروسیس کرنے میں دو سال درکار ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہمیں اسے دیکھنے کے لیے کچھ سال اور انتظار کرنا ہوگا کہ ہماری کہکشاں میں بسنے والا سیاہ گڑھا کس طرح کا دکھائی دیتا ہے؟

اس صد ی کا سائنس اور انجینئرنگ کا تخلیقی شاہ کار ''جیمز ویب خلائی دوربین'' کو پچھلے سال 25 دسمبر میں خلاء کے حوالے کیا گیا۔ مکمل فولڈنگ والی یہ حیرت انگیز اور مہنگی ترین دوربین زمین سے ڈیڑھ ملین کلومیٹر کی دُوری پر آریان راکٹ کی مدد سے بٹھائی گئی ہے، جس نے اپنی منزل پر پہنچنے میں ایک ماہ کا عرصہ لگایا ہے اور ابھی اس کا کولنگ کا نظام حرکت میں ہے جو کہ مائینس273 تک گرنے پر ہی روبہ عمل ہوتا ہے جو اس کے انفراریڈ دوربین سسٹم کے لیے لازمی امر ہے۔

اگلے ماہ جون، جولائی تک امید کی جارہی ہے کہ اس کی ناقابل یقین کائناتی کھوج لگانے کا مشن شروع ہوجائے گا جو ہمارے کائناتی علم میں یقیناً بے پناہ اضافہ کرے گا اور ہمارے لیے کائنات کی قدیم گتھیاں سلھجانے، دوسرے اجرام فلکی کے ساتھ بلیک ہول جیسی پراسرایت کے حامل اجسام کو بھی بہتر طور پر سمجھنے اور عرصہ درازسے ان کے متعلق اٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے میں ''جیمزویب دوربین'' اہم سنگِ میل ثابت ہوگی!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں