بھارتی سیکولرازم

پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بھی پر زور احتجاج کرتی اور اپنی آواز اتنی بلند کرتی


ڈاکٹر یونس حسنی February 20, 2022

MUMBAI: بھارت کی ریاست کرناٹک میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی لگائی گئی۔ مسلمان طالبات اس پابندی کے خلاف مظاہرے کرتی رہی ہیں اور اس فرقہ وارانہ حکم کے خلاف طالبات عدالت میں پہنچ گئی ہیں اور صوبائی ہائی کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔

گزشتہ دنوں بھارتی ریاست کرناٹک میں مہاتما گاندھی میموریل کالج کی بی کام کی طالبہ مسکان نے حجاب کی پابندی کے ساتھ کالج میں جانا چاہا تو انتہا پسند ہندو طلبا نے اس طالبہ کوگھیر لیا اور جے شری رام کے نعرے بلند کرتے ہوئے اس کے پیچھے آئے۔ لڑکی نے بھی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ حجاب تو وہ کیے ہوئے تھی اس نے اللہ اکبر کا نعرہ مستانہ بلند کیا اور تنہا لڑکی اس ہجوم بے ہودہ کا مقابلہ کرتے ہوئے اس غول بیابانی کی گرفت سے نکلی۔اس واقعے کے اخبارات میں آتے ہی نہ صرف بھارت میں بلکہ برصغیر میں اس پر شدید ردعمل کا اظہار ہوا۔ پاکستانی حکومت نے بھی بھارتی ناظم الامورکو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں خصوصاً اور دیگر اسلامی ممالک میں عمومی طور پر اس واقعے کے سلسلے میں موثر احتجاج ہوتا، سرکاری سطح پر مسلم حکومتیں اس رویے پر احتجاج کرتیں اور حجاب کے اسلامی مظہر کے لیے مدلل اور موثر احتجاج ہوتا مگر ایک آدھ نیم دلانہ احتجاج کے سوا کسی حلقے سے کوئی موثر احتجاج نہیں ہو سکا۔

یہاں پاکستان میں جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین نے کرناٹک کی باحجاب خواتین اور مسکان کی جرأت رندانہ کی حمایت میں مظاہرہ کیا اور بھارت کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ حجاب کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو اچانک پیدا ہو گیا ہو۔ حجاب شعائر اسلام میں داخل ہے اور مسلمان خواتین ڈیڑھ ہزار سال سے حجاب کی پابندی کرتی آئی ہیں اور رواں صدی میں مغرب کی تہذیبی سیادت کے زیر اثرکمزور پڑتے ہوئے اسلامی شعائر کے نتیجے میں حجاب اب اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ نافذ نہیں ہے۔ پھر بھی مسلمان خواتین کی غالب اکثریت اب بھی حجاب کرتی ہے۔

کرناٹک میں مسلمان طالبات نے حجاب کے حق میں سپریم کورٹ تک رسائی حاصل کی تو کورٹ کی ایک بینچ نے فیصلہ فرمایا کہ یہ مسئلہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور جب تک اس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا مسلم طالبات کو حجاب سے باز رہنا چاہیے۔

سبحان اللہ ! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب تک فیصلہ نہ ہو مسلم طالبات حجاب کرتی رہیں اور اگر ہائی کورٹ انھیں حجاب سے باز رکھنے کا فیصلہ دیتی ہے تو بھی انھیں اپنے شعائر سے محروم کرنے کی بنا پر اپیل کا حق رہے گا ، مگر اب جب کہ بھارت کے لادینی کردار سے مصنوعی چہرہ ہٹ گیا ہے اس قسم کی ستم ظریفیاں ہونا بعید نہیں ہے اور بابری مسجد کے معاملے میں جس طرح عدالت نے فیصلہ فرمایا ، ہندو ذہن اب بھی ایسا ہی فیصلہ فرما سکتا ہے۔

اس سارے معاملے کا ایک اور دل چسپ پہلو بھی ہے غالباً مسلم معاشرے میں حجاب کے رواج سے متاثر ہو کر ہندو خواتین بھی گھونگھٹ کرتی رہی ہیں اور آج بھی یہ رواج کسی نہ کسی حد تک ہندو معاشرے میں موجود ہے۔ مسلمانوں کو حجاب سے محروم کرنے کے بجائے ہندو معاشرے سے گھونگھٹ کے رواج کو ختم کرنے کے لیے کوشش ہونی چاہیے کہ یہ ہندو معاشرے پر مسلم اثرات کی نشان دہی ہے۔

دراصل حجاب صرف ہندوؤں کا مسئلہ نہیں ہے۔ پورا مغرب بھی حجاب سے پریشان ہے۔ مغربی معاشرہ بھی جب اسلام پر حملہ آور ہوتا ہے تو وہ اسی حجاب پر سب سے پہلے حملہ کرتا ہے ثابت ہوا کہ حجاب میں کوئی خیر کا پہلو ایسا ہے کہ ہندو ذہن ہو یا یورپی ذہن اسے پریشانی حجاب سے لاحق ہوتی ہے۔ پاکیزہ معاشرہ نہ ہندوؤں کے لیے قابل قبول ہے نہ مغرب کے لیے اس لیے دونوں طاقتیں اپنی پوری قوت مسلم معاشرے کو حجاب سے محروم کرنے پر صرف کرتی ہیں۔ ان کی یہی پریشانی اس بات کی دلیل ہے کہ حجاب وہ قدر ہے جو مسلم معاشرے کی خصوصیت اور اس کی پاکیزگی کی علامت ہے اور ہم اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔

جب صورت حال یہ ہو تو بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں رونما ہونے والے ان واقعات پر '' موثر'' احتجاج کیوں نہیں ہوا۔ پاکستان میں کیا صرف جماعت اسلامی ہی واحد جماعت تھی جسے احتجاج کرنا تھا۔ کیا اسلامی مملکت پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کی یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ اسلامی شعائر میں سے ایک شعارکو خطرہ درپیش ہو تو وہ اس کے دفاع میں نکل کھڑے ہوں۔

پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بھی پر زور احتجاج کرتی اور اپنی آواز اتنی بلند کرتی کہ ہندوستانی حلقوں میں اس کی بازگشت نہ صرف سنائی دیتی بلکہ اثرانداز بھی ہوتی۔ مگر ہماری سیاسی جماعتوں کا شاید یہ مسئلہ ہی نہیں رہا ہے۔ وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے ، ایک دوسرے کے لیے ممکن حد تک برے سے برے الفاظ استعمال کرنے اور روز صبح اٹھ کر اپنے مخالفین کو کوسنے کے عمل سے فارغ ہوں تو انھیں پتا چلے کہ زمانہ کیا قیامت کی چال چل گیا ہے اور وہ راستہ گم کرکے کہاں رہ گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔