صورت گر کچھ خوابوں کے

آج میں کراچی کی قدیم بستی لیاری کی تخلیقی اور زرخیزی کا وہ داستان گو ہونا چاہتا ہوں


وارث رضا February 20, 2022
[email protected]

LONDON: آج میں کراچی کی قدیم بستی لیاری کی تخلیقی اور زرخیزی کا وہ داستان گو ہونا چاہتا ہوں، جس پر میرا وجدان بجا طور پر فاخر ہے کہ لیاری کی اسی بستی نے جہاں فیض کو سماجی دکھ ، المیے اور انسانی مسائل سمجھنے میں مدد دی، وہیں اس قدیم لیاری نے تعلیم کے دھتی ، انگریز سامراج کے باغی اور گاندھی جی کی '' کوئٹ انڈیا '' تحریک کے متحرک ، جو نہ گرفتاری سے ڈرا اور نہ اس نے کبھی قید ہونے کی پرواہ کی، بلکہ پینٹ اور کوٹ اس وجہ سے نہ پہنا کہ کہیں سامراجی رنگ نہ چڑھ جائے ، تعلیم دینے کی لگن سے سرشار یہ '' ابو ظفر آزاد'' ہی کا جنون تھا کہ جس نے لیاری کے علاقے میں ایک پرانی عمارت میں غازی محمد بن قاسم اسکول قائم کیا اور بھٹو کی تعلیم کو قومیانے کی پالیسی کے باوجود اپنی ملکیت کو تج کرکے وہیں کا ملازم ہوگیا ، آج ابو ظفر آزاد کے اس خانوادے میں اس کی تیسری نسل کے 38 ڈاکٹرز کراچی کی شہری اور پسماندہ بستیوں میں طبی سہولیات اور تعلیمی ذوق و شوق پیدا کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔

وہ صبح میرے لیے امریکا سے ڈاکٹر شیرشاہ سید کی قیمتی کتابیں حاصل کرنے کی وہ تازگی تھی جس کے شعوری وجدان کی تلاش میں مجھے ان دس سے زیادہ کتابوں کی عرق ریزی مہینوں کرنا پڑی ، یہ 2021 کے درمیان کا واقعہ ہے جب ڈاکٹر شیرشاہ امریکا میں کووڈ سے پرے بدیس میں زندگی متحرک کیے ہوئے تھے، ان کتب کے مطالعے کے بعد میرے لیے اس نتیجے پر پہنچنا کوئی مشکل نہ تھا کہ میں اپنے کالم کی ابتدا ڈاکٹر ٹیپو سلطان اور ڈاکٹر شیر شاہ سید کے خاندان کی اساس کتاب '' وہ صورت گر کچھ خوابوں کا '' اور ڈاکٹر شیر شاہ کے افسانوی مجموعے ''دل ہی تو ہے'' سے کروں۔

یوں تو اس خانوادے سے میری شناسائی 1980کے بعد میر احمد حسین رضوی اور ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی کے توسط سے ہوئی ، مگر آہستہ آہستہ ڈاکٹر ٹیپو سلطان اور ڈاکٹر شیر شاہ کی متحرک شخصیت کے راز اس وقت زیادہ سامنے آئے جب ان دونوں بھائیوں نے ہم راندے درگاہ ساتھیوں کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے احیا کی کوششوں میں دامے ، درمے اور سخنے حصہ لیا اور ہم میر احمد حسن اور ڈاکٹر رحمن علی ہاشمی کی کوششوں سے پی ایم اے ہائوس کے اس متحرک خانوادے کے سپرد کر دیے گئے ، مجھے اس زمانے کی وہ تہذیب و شائستگی سے لبریز پی ایم اے ہائوس کی وہ شامیں یاد ہیں جو ہم کمیونسٹوں اور ترقی پسند خیالات کے افراد کے لیے حوصلہ افزا اور ہمارے خون کو گرما دینے والی ہوا کرتی تھیں۔

طویل عرصے تک ڈاکٹر ٹیپو سلطان ، ڈاکٹر کلیم بٹ ، ڈاکٹر بخش علی اور پھر ڈاکٹر شیرشاہ سید نے اپنے اسلاف ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی کے نکتہ نظر اور پروفیسر اقبال کے نظریے کے لیے پی ایم اے ہائوس کو آزادی اظہار و تقریر کا مرکز بنائے رکھا ، انجمن ترقی پسند مصنفین کے احیا اور اس کی ترقی میں ڈاکٹر ٹیپو سلطان اور ڈاکٹر شیر شاہ سید ہماری وہ ہمت اور طاقت رہے کہ ہمیں پی ایم اے ہائوس اپنا دوسرا گھر لگا ، اسی دوران میں نے ڈاکٹر شیر شاہ سید کی حرکی صلاحیتیں '' ایمنسٹی انٹرنیشنل'' میں دیکھیں ، جس میں ڈاکٹر شیر شاہ بلا خوف و خطر انسانی حقوق کی بازیابی کے لیے ہمیشہ مستعد نظر آئے ، شہر کے کسی انسان کے ساتھ زیادتی اور اسے انصاف دلانے میں ''ایمنسٹی انٹرنیشنل'' اور ڈاکٹر شیر شاہ ایک ساتھ ہی ملے۔

یہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے احیا کا وہ ابتدائی کٹھن دور تھا کہ جب ہم معاشی طور سے غیر مستحکم تھے مگر پی ایم۔ اے ہائوس کے ان مذکورہ دوستوں نے ہمیں اپنے ادارے کا لازمی حصہ سمجھا اور ہم نے پی ایم اے ہائوس میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے توسط سے برصغیر کے معتبرین قمر رئیس ، رام لال ، خمار بارہ بنکوی ، تاباں ، کیفی اعظمی کے ذریعے دھڑلے سے انجمن کو شہر کا معتبر ادارہ بنا دیا ، جس میں اس سارے حوصلے کے پیچھے ڈاکٹر ٹیپو اور ڈاکٹر شیرشاہ کی خاموش مگر با خبر مدد شامل حال رہی ، اسی دوران مجھ پر منکشف ہوا کہ ڈاکٹر شیر شاہ افسانے اور کہانیاں لکھنے کے دھتی ہیں ، سو یہ ہمارے لیے ایک اور مدد تھی کہ انجمن ڈاکٹر شیر شاہ سید کے افسانوں سے استفادہ کرے۔

مجھے یاد ہے بلکہ انجمن کے ریکارڈ میں شیر شاہ کا پہلا افسانہ ایک ایسی لڑکی کی زندگی کے گرد تھا جو اپنے بلند حوصلے کے باوجود چند بیماریوں کی وجہ سے اپنے خواب پورے کرنے میں محرومی کی زندگی سے مایوس تھی کہ اس کے حوصلے کی جلا اس کا ایک ایسا معالج بنا جس کے دل کی دھڑکن اس دیہاتی لڑکی کو ٹھیک بھی کرنا چاہتی تھی اور ایک انجانی محبت سے اسے آگاہ بھی نہیں کرنا چاہتی تھی ، مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر شیر شاہ کے اس افسانے پر بہت گفتگو ہوئی اور شفیع عقیل صاحب نے اس افسانے کو امید افزا اور تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا تھا۔

میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی ، ڈاکٹر سرور ، ڈاکٹر ادیب رضوی کی تربیت سے کسب لینے والے ڈاکٹر ٹیپو سلطان اور ڈاکٹر شیرشاہ کی طبی صلاحیتیں تو درست مگر ان میں حرکی صلاحیتوں کی اوج کا سبب ان مذکورہ اصحاب کے علاوہ بھی کوئی ضرور ہے ، جب کہ ڈاکٹر شیر شاہ سید تمامتر ذمے داریوں کے باوجود قلم کے دھنی بھی ہیں ، مجھے اس بات کا گمان تو تھا کہ ایک بہترین طبیب ایک اچھا سماجی فرد اور افسانہ نگار ہو سکتا ہے، مگر اس کے ساتھ میں یہ بھی جانتا تھا کہ بہترین افسانہ نگار ڈاکٹر قمر عباس ندیم کی تخلیقی صلاحیتوں کی پشت پر ان کی ماں قرۃ العین حیدر اور ہیمنگوے تھا ، مگر ڈاکٹر ٹیپو سلطان اور ڈاکٹر شیر شاہ سید و دیگر اہل خانہ کی صلاحیتوں کے پیچھے جہاں سیاسی و نظریاتی تربیت تھی وہیں کہیں ایک ایسا در ضرور ہے اس خانوادے کی تربیت میں جہاں سے یہ خانوادہ تہذیب و شائستگی کے ساتھ انسانی المیوں کے ساتھاری بھی ہیں ، دکھی اور بے آسرا افراد کی امید اور سہارا بھی ہیں۔

یہ انکشاف مجھے اچانک اس وقت ہوا جب ہمارے ایک عزیز دوست متین قریشی کے گھر واقع درخشاں سوسائٹی جانا ہوا ، بڑے کشادہ گھروں پر مشتمل ملیر کی یہ پر فضا بستی تھی ، جس میں ڈاکٹروں کا یہ خاندان لیاری سے منتقل ہوکر رہ رہا تھا ، ہم دوستوں کی گفتگو میں اکثر اس ڈاکٹر خاندان کی باتیں اور قصے ہوا کرتے تھے، اس خاندان کے سربراہ ایک استاد کے روپ میں بستی کے قابل تعظیم اور یہ خاندان تعلیم کے لحاظ سے قابل رشک سمجھا جاتا تھا۔

ڈاکٹر ٹیپو سلطان ، ڈاکٹر شیرشاہ و دیگر کے ساتھ جب میں اس کنبے کی ماں ڈاکٹر عطیہ کی لگن اور ان کا تحریکی پس منظر دیکھتا ہوں تو میرے سامنے انگریز سامراجی مظالم کے سامنے ڈٹے رہنے اور اپنی تعلیمی اساس کو برطانوی خفیہ غلاموں سے بچانے والے ابو ظفر آزاد اس خانوادے کی سیاسی اور سماجی تحرک میں جا بجا نظر آتے ہیں ، ذرا سوچیے کہ جس ابو ظفر کو برطانوی غلام سونگھتے پھر رہے ہوں ، مگر پھر بھی وہ استقامت کے ساتھ اپنی معمولی درجے پڑھی بیوی عطیہ کی تعلیم کے حصول میں اپنے ٹائپ رائٹر سے خط اور لوگوں کے ڈرافٹ بولٹن مارکیٹ کی فٹ پاتھ پر بناتا رہا ہو اور اپنی ہمت اور حوصلے سے بیوی عطیہ کو ڈاکٹر بنانے کا خواب پورا کیا شانہ بشانہ کھڑا رہا۔

میں آج جب وہی جذبہ اور کوششیں ڈاکٹر ٹیپو سلطان ، ڈاکٹر شیر شاہ سید ، ڈاکٹر شاہین ظفر ، ڈاکٹر سراج الدولہ و خاندان کے دیگر نوجوانوں میں دیکھتا ہوں تو میرا یقین نظریاتی سیاست اور استقامت پر بڑھ جاتا ہے۔ ابو ظفر آزاد کا خانوادہ کوہی گوٹھ اسپتال اور کالج کے لیے کوشاں بھی ہے اور کالج میں باقاعدہ جمہوری انداز سے طلبہ یونین کے انتخابات کرانے کی ذمے داریوں سے آگاہ بھی ہے۔

اسی درمیان ہمارے افسانوی ادب میں زندگی برائے ادب کا افسانہ نگار شیر شاہ سید روشنی کا وہ استعارہ ہے جو سماج کے دکھوں کو اپنے دل کے احساس کے ساتھ دیکھتا اور صفحے پر منتقل کرتا رہتا ہے ، شیر شاہ سید کے افسانوں کی پر کاریوں میں عوام کے احساسات اور دل دھڑکتے ہیں ، جن کا ذکر آیندہ نشست میں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں