حکومت کو لاحق خطرات
سیاست میں کوئی کسی کا مستقل وفادار نہیں ہوتا ، سب کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں
ISLAMABAD:
چار سالوں میں یہ پہلا موقعہ ہے جب پی ٹی آئی کی اس حکومت کو خطرے کا سامنا محسوس ہو رہا ہے۔ کہنے کو وہ قطعاً گھبرائی ہوئی نہیں ہے لیکن اُسے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ اپنے ارکان قومی اسمبلی کے بدلتے رویوں سے بھی بغاوت کی بو آرہی ہے۔
سیاست میں کوئی کسی کا مستقل وفادار نہیں ہوتا ، سب کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ ویسے بھی اس حکومت کے جتنے بھی اتحادی اگر اس کا اب تک ساتھ نبھاتے رہے ہیں تو وہ اُن کی مفادات سے زیادہ کچھ غیبی مجبوریاں تھیں جو انھیں زبردستی یہ ساتھ نبھانے پر مجبور کرتی رہی ہیں ، لیکن یہ مجبوریاں اب کچھ ڈھیلی اورکمزور پڑتی جا رہی ہیں اور جیسے جیسے نئے الیکشن بھی قریب آتے جارہے ہیں تو اتحادیوں کے مزاج اور رویے بھی بدلتے جا رہے ہیں۔
اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک لانے کی خبروں نے آج کل ملکی سیاست میں کچھ ہلچل سی مچا رکھی ہے اور غیر مصدقہ خبروں کا بازار سرگرم ہے۔ اپوزیشن بظاہر متحد اور یکجا ہوکر عدم اعتماد کی تحریک کا آپشن استعمال کرنے جا رہی ہے اور حکومت اپنے بچاؤ کی تمام ترکیبیں بروئے کار لانے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے ، وہ اتحادیوں کے تمام مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوچکی ہے ساتھ ہی ساتھ اپنی صفوں میں ممکنہ بغاوت کو بھی کچھ لے دے کر ختم کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہوچکی ہے۔
حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے لیے یہ ایک سنہری موقعہ ہے کہ وہ حکومت سے اپنے سارے مطالبات منوا لے۔ حکومتی اتحادی جماعتیں اضافی مراعات اور انعام واکرام کے لیے بارگیننگ کر رہی ہے۔ دیکھا جائے تو اتحادی جماعتیں اگر چاہیں تو حکومت کو پٹرول پر بڑھائے جانے والے حالیہ بارہ روپے واپس لینے پر مجبور کرسکتی ہیں ، وہ تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کی دھمکی دیکر یہ اضافہ فوری طور پر واپس کروا سکتی ہیں۔
وہ اگر ڈٹ جائیں تو حکومت کے پاس اس مطالبے کو مان لینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود ہی نہیں ہے ۔ ہمارے یہاں قومی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کی سیاست نے کبھی ایسے مطالبات منوائے ہی نہیں۔ حکومت کی تمام اتحادی جماعتیں اس بار بھی کچھ لے دے کر خاموش ہوجائیں گی اور ذاتی سیاست کا یہ کھیل ہمیشہ کی طرح یونہی چلتا رہے گا۔
حکومت کو اس بار اصل خطرہ اپنے ہی لوگوں سے ہے۔ اُسے کچھ پتا نہیں کہ خفیہ ووٹنگ کے دوران اس کے کون کون سے ارکان منحرف ہوکر تحریک کی حمایت کرکے حکومت کا تختہ گول کر دیں۔ دوسری جانب اپوزیشن بھی بڑی احتیاط کے ساتھ یہ آپشن استعمال کرنے جا رہی ہے کہ کہیں پہلے کی طرح اس بار بھی اسے شرمندگی کا سامنا اُٹھانا نہ پڑجائے۔ اسی لیے وہ ابھی تک یہ تحریک اسمبلی کے فلور پر لانے سے کترا رہی ہے۔ اُسے جب مکمل یقین ہوجائے گا کہ اس کی یہ تحریک سو فیصد کامیابی سے ہمکنار ہوگی تبھی وہ یہ ڈول ڈالے گی۔
بے شک اس کے لیے کچھ اور وقت لگ جائے۔ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں اپوزیشن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ اگر ایسا ہوگیا تو وہ عوام کی نظروں میں کچھ دنوں کے لیے ضرور گر جائے گی لیکن ابھی نئے الیکشن میں ایک سال کا عرصہ باقی ہے۔ اس ایک سال میں وہ اپنی ساکھ پھر سے بحال کر لے گی۔ ویسے بھی مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کو اگلے ایک سال میں بھی کوئی راحت نصیب ہونے والی نہیں ہے۔
عوام کی موجودہ حکومت سے باقی ماندہ توقعات بھی اگلے ایک سال میں ختم ہوجائیں گی اور وہ سیاسی شہید کا رتبہ بھی پانے سے محروم ہوجائے گی۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں اگر فوری طور پر نئے انتخابات نہیں کروائے جاتے ہیں تو ایسی صورت میںحکمران قیادت کو جلسے جلوس کرکے عوام کی ہمدردیاں سمیٹ لینے کا بھر پور موقعہ مل جائے گا اور کوئی بعید نہیں کہ وہ 2023 میں پہلے سے زیادہ نشستوں کے ساتھ کامیاب ہوجائیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کی بھر پورکوششیں یہی ہیں کہ کسی طرح تحریک عدم اعتماد کو ناکام بناکر اپوزیشن کی سیاست کو نامراد قرار دلوا سکے اور اُسے عوام کے نظروں میں مزید رسوائی سے ہمکنار کروا سکے۔ گزشتہ ایک ماہ سے سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل ہمارے یہاں ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری بیانات میں کھیلا جا رہا ہے جب کہ پارلیمنٹ میں ابھی تک ایسی کوئی تحریک پیش ہی نہیں کی گئی ہے۔
سیاست کا یہ بازار صرف بیانات تک ہی جاری ہے اور تجزیہ کاروں کے لیے اپنی دکانیں چلانے اور چمکانے کا سامان فراہم کیے ہوئے ہے۔ کبھی خبر آتی ہے کہ جہانگیر ترین اور شہباز شریف میں ایک خفیہ میٹنگ ہوئی ہے جس کی کوئی تردید اور تصدیق کہیں سے نہیں آتی ہے مگر ہمارے تبصرہ نگاروں کو ایک ایک گھنٹے تک اپنی ذہانت اور بصیرت کے چراغ روشن کرنے کے لیے ایندھن ضرور فراہم کردیتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں آج تک کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہی نہیں ہوئی۔1990 ء میں محترمہ بے نظیر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد جس کی کامیابی کے بظاہر بہت امکانات دکھائی دے رہے تھے کیونکہ اس زمانے میں ہماری اسٹیبلشمنٹ حکومت وقت کے ساتھ اس طرح کھڑی ہوئی نہیں تھی، جس طرح آج نظر آتی ہے لیکن وہ تحریک بھی ناکامی و نامرادی سے دوچار ہوگئی تھی۔
یہ وہ موقعہ تھا جس کا طعنہ ن لیگ کی قیادت کو ان کے مخالف آج تک دیتے ہیں کہ انھوں نے ارکان اسمبلی کو چھانگا مانگا کے ریسٹ ہاؤسوں میں یرغمال بنائے رکھا تھا ، جب کہ یہ معاملہ قطعاً ایسا نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں ہی نے اپنے اپنے ارکان کو ہارس ٹریڈنگ سے بچانے کی غرض سے چھپائے رکھا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے پہل کرتے ہوئے اپنے ارکان اسمبلی کو مری اور گلگت کے مقام پر پہنچا دیا تھا اور میاں صاحب نے چھانگا مانگا کے ریسٹ ہاؤسوں میں ، جس کی جہاں تک پہنچ تھی اس نے ویسا ہی کیا اور دیکھا جائے تو یہ کوئی معیوب اور غیر مناسب چیز بھی نہیں تھی کہ جس کا طعنہ دیا جائے۔ بدنام زمانہ ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ اس وقت موجود نہیں تھا۔ فلور کراسنگ کا قانون بعد میں بنا گیا۔
اپنے ارکان کو مخالف جماعت کی پہنچ سے بچانے کے لیے ایسا کیا گیا تھا ، جس کا فائدہ یقینا حکمراں جماعت کو ہوا اور تحریک عدم اعتماد بری طرح ناکام ہوئی۔ آج بھی موجودہ حکومت اپنے اتحادیوں کو تحریک عدم اعتماد کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اگر اُن کی منت و سماجت کررہی ہے اور اُن کے مطالبات مان رہی ہے تو محض اس ایک خطرے کی وجہ سے کہ وہ کہیں مخالف گروپ میں شامل ہو کر اس کا بوریا بستر گول نہ کر دیں۔ سیاست میں یہ سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے اور ایسی ذہانت اور قابلیت دکھانے والے کو ہی ایک کامیاب و کامران حکمراں گردانا جاتاہے۔