شیرون کے جنگی جرائم
دنیا نے تو شیرون کے جنگی جرائم سے چشم پوشی کی۔ لیکن زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
عدل و انصاف حشر پر ہی موقوف نہیں۔ قانون قدرت ہے کہ بسا اوقات زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔ لگتا ہے کہ انیس سو اٹھائیس میں پیدا ہونے والے ایریل اسکینر مین عرف ایرک (یعنی ایریل شیرون) کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ 4 جنوری 2006ء سے یہ سفاک صہیونی دہشت گرد ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہوا کہ نہ اسے زندہ میں شمار کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی مُردوں میں۔ بالآخر 11 جنوری 2014ء کو جاں بلب ایریل شیرون کو موت نے رسمی طور پر دبوچ لیا۔ یہ سات سال صہیونیوں سمیت دنیا کے ہر فرعون، نمرود و شداد صفت انسان نما درندوں کو عبرت ناک انجام سے ڈرنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ''کامیاب'' دہشت گردی اور جارحیت معیار نہیں ہوا کرتی۔
یہ انسان کا انجام ہوتا ہے جو اس کے کامیاب مقام کا تعین کرتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ صہیونیوں اور ان کے حامیوں کی نظر میں شیرون نے سات سال پہلے تک ایک ہیرو کی سی زندگی گزاری لیکن سوال یہ ہے کہ ایک بدنام زمانہ دہشت گرد کو کوئی باضمیر آزاد انسان ہیرو کیسے تسلیم کر سکتا ہے؟ کیا آج کی اس عالم فاضل متمدن و مہذب دنیا کے انسانوں کا ہیرو ایسا ہو سکتا ہے۔ ایریل اسکینرمین عرف ایرک نے فلسطین کے اصل مکینوں کے خلاف منظم حملوں کے لیے انیس سو بیالیس میں 14 سال کی عمر میں ایک بدنام زمانہ صہیونی دہشت گرد گروہ میں شمولیت اختیار کی۔ فلسطین کی مقدس سرزمین غصب کرنے کے لیے صہیونیوں نے کئی مسلح دہشت گرد گروہ قائم کیے تھے۔ انیس سو انتالیس میں وجود میں آنے والا گروہ ہگام بھی انھی میں شامل تھا جس کا نام بعد ازاں تبدیل کر کے گڈنا رکھا گیا۔ ہگانہ کی طرح یہ گروہ بھی فلسطینی عربوں کو کچلنے کے لیے مسلح حملوں کے لیے معرض وجود میں آیا۔ ایرک نے گڈنا کے بعد زیر زمین دہشت گرد ہگانہ کی رکنیت اختیار کی۔
1947-48ء میں اس نے عرب دیہاتوں پر منظم حملے کیے۔ اسرائیل کے ناجائز غاصبانہ وجود کے قیام کے ساتھ ہی ہگانہ جیسے دہشت گرد صہیونی گروہوں پر مشتمل غاصب صہیونی افواج قائم کی گئیں تو ایریل اسکینر مین عرف ایرک کو اس میں افسر مقرر کر دیا گیا۔ فلسطینیوں اور دیگر عربوں پر حملے کرنے کے انعام میں غاصب صہیونی ریاست کے بانی بن گوریاں نے ایرک کو شیرون کا لقب دیا۔ عبرانی زبان میں زرخیز اور ہموار میدان کے لیے شیرون کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جب کہ مغربی ممالک میں زیادہ تر شیرون ایک زنانہ نام کے طور پر رائج ہے۔
فلسطینیوں کے فدائی حملوں کے خلاف صہیونی افواج نے یونٹ 101 قائم کیا تو ایرک شیرون کو اس کا کمانڈر بنا دیا گیا۔ یوں فلسطینی عربوں کو کچل کر رکھ دینا اس کا ہدف قرار پایا۔ مغربی کنارے کے علاقے قبیہ میں آپریشن شوشانہ میں بے گناہ نہتے فلسطینیوں کے بلا جواز قتل عام سے کر غزہ سے صہیونی انخلاء تک وہ مقبوضہ فلسطین میں کئی جنگی جرائم میں ملوث رہا ۔ آپریشن بلیک ایرو، آپریشن القیام، آپریشن ایگڈ، آپریشن اولیو لیوز، آپریشن وولکانو، آپریشن گولیور، آپریشن لولاؤ، سوئز جنگ کا آپریشن مسکیٹیئر، آپریشن پیس فار گیلیلی، انتفاضہ کو کچلنے والا آپریشن ڈیفینسیو شیلڈ سمیت کئی جارحانہ حملے صہیونی شیرون کے نامہ سیاہ اعمال میں شامل ہیں۔ تنظیم آزادی فلسطین کو کچلنے کے لیے انیس سو بیاسی میں لبنان پر جنگ مسلط کی اور ہر جنگ میں اس صہیونی دہشت گرد نے مظالم کی نئی تاریخ رقم کی۔ اسی شقی القلب صہیونی وزیر جنگ نے صابرہ و شتیلا کے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں پر حملہ کروایا جس کے نتیجے میں بے یار و مددگار فلسطینیوں کو بدترین انسانی المیے سے دوچار ہونا پڑا، ہزاروں فلسطینی مہاجرین شہید ہوئے۔
کم از کم پانچ ایسے واقعات کو خود مغربی ممالک میں شیرون کے جنگی جرائم میں شمار کیا جا تا ہے۔ قبیہ میں قتل عام، وادی سینا کے محاذ پر مصر کے جنگی قیدیوں کا قتل عام، صابرہ و شتیلا کے لبنانی کیمپوں میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام، آپریشن ڈیفینیسیو شیلڈ میں سیکڑوں فلسطینیوں کا قتل عام اور بیت المقدس اور جولان کے مقبوضہ فلسطینی و شامی علاقوں میں کم از کم 73000 یہودیوں کو غیر قانونی نسل پرست یہودی بستیوں میں آباد کرنا ایسی کارروائیاں ہیں جن کے ارتکاب پر ایریل شیرون پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے تھا۔ مغربی ممالک کے دانشور ان سنگین جرائم کو جنگی جرائم تسلیم کرتے ہیں۔
لیکن اقوام متحدہ نے اپنی ذمے داری ادا نہیں کی۔ امریکا، برطانیہ اور ان کے اتحادی ممالک کے لیے شیرون جیسا وحشی دوست تھا اس لیے ان ممالک نے اقوام متحدہ کو اس کا کردار ادا کرنے نہیں دیا لیکن عرب ممالک کے حکمران شیرون کے ان دوست ممالک کے حکمرانوں کے دوست تھے لہٰذا ان خائن عرب حکمرانوں کے لیے بش اور مارگریٹ تھیچر کا دوست شیرون دشمن نہیں بن سکا۔ اگر عرب حکمران اسے دشمن سمجھتے اور اپنے دوست مغربی حکمرانوں پر دباؤ ڈالتے تو ممکن تھا کہ شیرون پر جنگی جرائم کے مقدمات چلتے۔
لہٰذا دنیا نے تو شیرون کے جنگی جرائم سے چشم پوشی کی۔ لیکن زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔ شیرون کی زندگی کے آخری سات سال اس کی بے بسی کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس شعر کی حقانیت ثابت کرتا رہا۔ ریگن، کلنٹن اور بش کی دوستی، مارگریٹ تھیچر تا ٹونی بلیئر حکمرانوں کی قربت و حمایت اسے ذلت کی زندگی سے نجات نہ دلا سکی۔
بیروت کے قصائی کے لقب سے بدنامی حاصل کرنے والے صہیونی دہشت گرد نے اگست انیس سو بیاسی میں امریکا کے روزنامہ نیویارک ٹائمز میں مقالہ لکھا تھا جس میں اس کا دعوی تھا کہ اب لبنان سے اسرائیل میں روسی ساختہ کٹیوشا راکٹ فائر نہیں کیے جا سکیں گے۔ یہ دہشت گرد غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا وزیر اعظم بن گیا اور اس عہدے پر زندگی و موت کے درمیان معلق ہو کر رہ گیا۔ اسی سال (2006ء) جولائی کے مہینے میں لبنان سے حزب اللہ نے اتنے راکٹ فائر کیے کہ صہیونی حکومت پر دنیا بھر سے دباؤ آیا کہ سیز فائر کرے۔ آج بھی مشرق وسطی کے امور کے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگلی جنگ میں اسرائیل پر راکٹ موسلا دھار بارش کی طرح برسیں گے۔ شیرون کی زندگی ہی میں سال 2000ء میں جنوبی لبنان سے صہیونی اسرائیلی افواج کواپنے اڈے چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ یہی غاصب دہشت گرد ریاست کا مقدر تھا اور ہے۔