پاکستان دو سال کیلئے کرکٹ چھوڑ دے آئی سی سی کی ماں مرجائے گی

بھارت کی کرکٹ پر اجارہ داری ہوگئی تو کرپشن انتہا پر ہوگی، بگ تھری معاملے پر ایکسپریس فورم کا احوال


بھارت کی کرکٹ پر اجارہ داری ہوگئی تو کرپشن انتہا پر ہوگی، بگ تھری معاملے پر ایکسپریس فورم کا احوال۔ فوٹو : فائل

بھارت مار کے بغیر سیدھا نہیں ہوسکتا پاکستان ایشیا کپ کا بائیکاٹ کردے تو وہ سیدھا ہوجائیگا.

ایکسپریس فورم میں جنرل (ر) توقیر ضیاء کے اس مؤقف کو دیگر شرکاء نے رد کردیا ان کا کہنا تھا کہ اس طرح پاکستان کا جنوبی افریقہ والا حال ہوگا۔ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بھی بند ہے اگر پاکستان چند سال کیلئے کرکٹ کے میدانوں سے باہر نکل گیا تو کرکٹ بالکل ختم ہوجائے گی۔ جنرل (ر) توقیر ضیا کا بگ تھری کے حوالے سے کہنا تھا کہ آئی سی سی قانون کے تحت چلتی ہے کوئی فیصلہ کمیٹی میں لایا جاتا ہے پھر ایگزیکٹو بورڈ اس پر حتمی فیصلہ کرتا ہے۔ میں نے اپنے دور میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا پر مشتمل ایشیا کرکٹ کونسل بنائی جو اتنی مضبوط تھی کہ کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ کچھ کر دکھائے۔

بھارت کی سوا ارب کی آبادی ہے اور وہاں کرکٹ میں پیسہ بہت لگتا ہے اوپر سے انہوں نے آئی پی ایل شروع کردی دنیا بھر کے کرکٹر پیسے کے لیے آئی پی ایل میں حصہ لینے لگے۔ بھارت اب یہ سمجھتا ہے کہ کرکٹ اس کے پیسے سے چل رہی ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جسے آئی پی ایل سے باہر رکھا گیا ہے۔ بگ تھری میں اصل کردار بھارت کا ہے۔

انگلینڈ جوڑ توڑ میں ماہر ہے اس نے دیکھا کہ بھارت کے ساتھ مل جانے میں اس کا فائدہ ہے تو وہ اس سے مل گیا۔ آسٹریلوی کھلے دل کے لوگ ہیں لیکن آسٹریلوی بورڈ پر اپنے کھلاڑیوں کا دباؤ ہوگا جو آئی پی ایل کھیلتے ہیں کیونکہ اگر وہ بھارت کو ووٹ نہیں دینگے تو آئی پی ایل سے باہر ہوجائیں گے۔ بھارت کو یہ زعم ہے کہ پیسہ سارا ہمارا ہے تو ہم آئی سی سی میں اپنا رعب کیوں نہیں جماتے۔ آئی سی سی کا انتظامی ڈھانچہ اتنا کمزور ہے کہ وہ بھارت کو ڈیل نہیں کرسکتے۔ جولائی میں بھارت کے پاس صدارت آجائیگی اور دوسرے ملکوں کو مختلف کمیٹیوں میں ڈال دیا جائے گا۔ اس سے کرکٹ میں کرپشن اور جوأ بہت بڑھ جائیگا۔ میچ فکسنگ میں دھونی کا نام آیا، رائنا کا نام آیا سری نواسن کے داماد کا نام آیا اور ثابت بھی ہوگیا کہ وہ جوئے میں ملوث ہے۔ تمام بکی بھی بھارت کی پیداوار ہیں۔ بھارت میں کرکٹ میں اتنی کرپشن ہے کہ کوئی اسے ہینڈل نہیں کرنا چاہتا۔ اب اگر خود ہی کرپٹ لوگ اس کے اندر آجائیں گے تو شائد کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا پائے اگر کوئی اٹھائے گا بھی تو وہ ناکام ہوگا۔

بنگلہ دیش اور زمبابوے میں کرکٹ بورڈ زیادہ مضبوط نہیں پاکستان سری لنکا کرکٹ کے حوالے سے بڑے مضبوط ممالک ہیں۔ شروع میں جنوبی افریقہ پاکستان کے ساتھ تھا بعد میں انہوں نے سوچا کہ ان کے بورڈ کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ اگر وہ کرکٹ نہیں کھیلیں گے تو نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ پاکستان کا بگ تھری کے حوالے سے مؤقف اصولی ہے کہ آپ ایک یا دو ممالک کی اجارہ داری کیسے تسلیم کرسکتے ہیں۔

نجم سیٹھی کا مؤقف تو سامنے آگیا ان کا رجحان بگ تھری کو تسلیم کرنے کا لگتا ہے اوپر سے آپ کی چل رہی ہے امن کی آشا ہمارے وزیراعظم کا بھی بھارت کی طرف جھکاؤ ہے۔ اگر ہم نے بھارت سے ہر میدان میں ڈرتے رہنا ہے تو میرے خیال میں ہمیں تقسیم سے پہلے والی صورتحال میں چلے جانا چاہیے لیکن اگر ہم غیرت مند ہیں تو پاکستان اور سری لنکا کو ایشیا کپ میں جانے سے انکار کردینا چاہیے۔ ایشیاء کپ میں بھارت اور بنگلہ دیش آپس میں کھیلیں اور پھر دیکھ لیں کہ کرکٹ کو کیا رسپانس ملتا ہے لیکن اب شاید پانی بھی سر سے گزر چکا ہے۔

بھارت کی طرف جھکاؤ ہی کرنا ہے تو پھر دیکھنا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ کیا حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ بھارت کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نیوکلیئر پاور بن گئے ہیں اس کا استعمال کس دن کرنا ہے یہ میں نہیں کہتا کہ بم چلا دو وہ ہم سے ڈرتے ہیں لیکن ذہنی طور پر وہ بہت تیز لوگ ہیں ذہنی طور پر وہ آسمان پر اور ہم زمین پر ہیں۔ آپ یہ دیکھ لیں کہ وہ ہمارے خلاف خود کچھ نہیں کرتے اور امریکہ کو آگے رکھا ہوا ہے۔

بہرحال بگ تھری چند سال میں کرکٹ کو بہت نقصان پہنچائیں گے اگر ہم بھی جھک گئے سری لنکا بھی جھک گیا تو پھر ٹھیک ہے جیسے چلتا ہے ویسے چلتا رہے اور وہ پاکستان کو اپنے طریقہ سے ٹریٹ کرتے رہیں گے۔ بھارت پاکستان کیساتھ کرکٹ نہیں کھیلنا چاہتا۔ ذکاء اشرف نے کہا کہ آپ گارنٹی دیدیں کہ آپ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں گے تو بھارت نے کہا کہ ہم گارنٹی نہیں دیتے وہ آخری وقت پر کہہ سکتے ہیں کہ ہم آپ سے نہیں کھیلتے ان کی حکومت بھی اس میں شامل ہوجاتی ہے اور اس میں پاکستان کا نقصان ہی نقصان ہے۔

بھارت کی اتنی اوقات نہیں کہ ہم ان کے آگے ایسے جھک جائیں جیسے ہم بھکاری ہوتے ہیں۔ میرا ذاتی مؤقف ہے پاکستان کو ایشیا کپ سے باہر ہوجانا چاہیے۔ بھارت مار کے بغیر سیدھا نہیں ہوگا۔ اگر دو سال کرکٹ نہیں کھیلتے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ باقی کرکٹ میں دیکھیں کہ یہ کتنا فائدہ لے سکتے ہیں۔ اس وقت باقی کھیلوں کی جو صورتحال ہے ہاکی والے کہتے ہیں ہمیں پیسہ نہیں ملتا، فٹبال والے کہتے ہیں ہمیں پیسہ نہیں ملتا، بیڈمنٹن والے کہتے ہیں ہمیں پیسہ نہیں ملتا، کبڈی والے کہتے ہیں ہمیں پیسہ نہیں ملتا تو کیا حرج ہے کہ اگر ہماری کرکٹ ٹیم بھی باہر جاکر کوئی نام نہیں کمارہی تو ہم کرکٹ کو خیر باد کہہ کر وہ پیسہ باقی کھیلوں پر خرچ کریں۔

سیٹھی صاحب کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس جتنا پیسہ ہے وہ تین سال میں ختم ہوجائے گا اور ہم دیوالیہ ہوجائیں گے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے تو پھر کرکٹ بورڈ میں دوسو آدمی بھرتی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جہاں ہر بندے کی تنخواہ لاکھوں میں ہے۔ بگ تھری والے ایشو پر ذکاء اشرف دبئی اور سنگاپور جارہے تھے وزیراعظم صاحب کو چاہیے تھا کہ انہیں ٹائم دیتے اور ہدایات دیتے لیکن بعد میں ذکاء اشرف کو نکالنا اور ان پر تنقید کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

کرکٹ کے پیٹرن انچیف صدر ہیں اب پیٹرن وزیراعظم بن گئے ہیں اور انہوں نے نجم سیٹھی کو چیئرمین بنا دیا تو انہوں نے آئین کو کہیں نہ کہیں سے توڑ مروڑ کا نشانہ تو بنایا ہے یہ ان کا حق نہیں ہے یہ حق ہے آپ کی گورننگ باڈی کا جس میں تمام کرکٹ ایسوسی ایشنیں شامل ہوتی ہیں ان کی منظوری کے بغیر بڑے فیصلے نہیں ہوسکتے۔ وزیراعظم نے غلط فیصلہ کیا ہے مجھے ان سے اس غلط فیصلے کی توقع نہیں تھی۔ جہاں تک کرکٹ اکیڈمیوں کا تعلق ہے ہر ریجن میں ایک اکیڈمی اور ایک نیشنل اکیڈمی بننی تھی ان اکیڈمیوں میں ایسی سہولیات دی جانی تھیں جو دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود ہوں۔ ہمارا مقصد ان اکیڈمیوں میں کرکٹرز تیار کرنا اور پیسہ کمانا تھا یہ اکیڈمیاں سال میں 10 مہینے فعال رہنی تھیں اور ان میں جدید ترین سہولیات مہیا کی جانی تھیں۔ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کیلئے ساڑھے چار کروڑ کی بائیومکینک مشین خریدی گئی جسے اعجاز بٹ صاحب نے سٹور میں رکھوا دیا۔ اب سنا ہے کہ نئی مشین کیلئے ٹینڈر دیا گیا ہے۔

اب ان اکیڈمیوں کو شروع کرنے اور چلانے کیلئے پیسہ چاہیے ہمارے ملکی ادارے کرینہ کپور کو ایڈ کیلئے کروڑوں دے سکتے ہیں ان کیلئے اصول بنانا چاہیے کہ وہ کھیلوں کیلئے پیسے دیں۔ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ہم نے ڈومیسٹک کرکٹ سے 50 ٹاپ کے کھلاڑیوں کو تربیت کیلئے منتخب کرنا تھا اگر کوئی نجی طور پر تربیت حاصل کرنا چاہے تو فیس دے کر بھی تربیت حاصل کرسکے۔ ان اکیڈمیوں کا یہ بھی مقصد تھا کہ ہمارے پاس اتنے کھلاڑی ہوں کہ ہر کھلاڑی کے پیچھے تین کھلاڑی ہوں پھر کوئی کھلاڑی یہ نہ کہہ سکتا کہ میرے بھائی کو کھلاؤ گے تو میں بھی کھیلوں گا ورنہ نہیں۔کیونکہ متبادل کھلاڑی نہیں اس لیے ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ کھلاڑی ہمارے بہترین سفیر ہیں ہمیں انہیں پیار کرنا چاہیے۔

میرا وزیراعظم کو مشورہ ہے کہ چاہے کسی کو بھی بورڈ کا چیئرمین بنادیں لیکن اسے تین چار سال دیں ان پر سپرویژن رکھیں انہیں بہترین ایڈوائزری کمیٹی بنادیں۔ نجم سیٹھی دنیا پھرے ہوئے ہیں انہیں پیسے کی بھی کمی نہیں، چیئرمین بورڈ کو کوئی پیسہ بھی نہیں ملتا تو پھر انہیں اتنا شوق کیا ہے۔ شائد وہ چاہتے ہیں پاکستان کی کرکٹ کو ٹاپ پر لے آئیں ہوسکتا ہے وہ کرکٹ کو بہتر کردیں۔ جہاں تک پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا تعلق ہے وہ دہشتگردی ختم ہونے تک بحال نہیں ہوسکتی۔



پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق منیجر اور ملتان کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر میاں منیر نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کی بات کریں تو سب سے پہلے سٹیک ہولڈرز کاکردار دیکھیں کہ جو منتخب لوگ ہیں بورڈ ان پر اعتماد کرے یا پھر بورڈ خودہی ٹیم منتخب کرلیا کرے جو لوگ منتخب ہوکر آتے ان پر الزام لگتا ہے کہ شاید یہ لوگ کرپٹ ہیں اور اسی بنیاد پر بورڈ کے لوگ سلیکشن کے مرحلے پر ایسوسی ایشنوں میں جاتے ہیں ان کا سلیکشن کا جو معیار ہے اس کا میرے دوستوں کو پتہ ہے کہ کہاں کہاں سے پرچیاں اور کہاں کہاں سے فون جاتے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ جو لوگ منتخب ہوکر آتے ہیں ان پر بددیانتی کا الزام نہ لگائیں جو ووٹوں کے ساتھ آتے ہیں وہ جوابدہ ہیں اگر ان کی ٹیم کارکردگی نہیں دکھاتی کرکٹ بورڈ کا کوئی اختیار نہیں کہ ایسوسی ایشنوں کی ٹیمیں منتخب کرے انتہاکی بات یہ ہے کہ ہوٹلوں کی بکنگ تک بورڈ کراتا ہے اور کوچ کا انتظام بھی کرکٹ بورڈ کرتا ہے لیکن اگر آپ نے سسٹم چلانا ہے اور لوگوں کو موقع بھی دینا ہے تو صرف ان سے پوچھ گچھ کریں میں ہمیشہ یہ کہتاہوں جو بچے جون جولائی میں کرکٹ کھیلتے ہیں آگے آنا ان کا حق ہے۔

ان بچوں کا کوئی حق نہیں جو لیگ کھیلنے کیلئے انگلینڈ جاتے اور واپسی پر ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں۔کوئی ڈیپارٹمنٹ ایسا نہیں ہے جو کھلاڑی تیار کرے، دعویٰ سب کرسکتے ہیں لیکن حقیقت میں کھلاڑی ایسوسی ایشن بناتی ہیں۔ پھر جب جو بچے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں انہوں نے کبھی واپس جاکر اپنی ابتدائی کلبوں کو نہیں دیکھا ان کا سٹینڈرڈ اپ ہوجاتا ہے انہیں کلب کے کھلاڑیوں سے پسینے کی بو آتی ہے اور وہ نیشنل اکیڈمی میں نوکری کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ ہمیں سسٹم بنانا ہے۔ ایسوسی ایشن کرکٹ بورڈ کو بناتی ہیں۔ چیئرمین بھی ایسوسی ایشنوں نے منتخب کرنا ہوتا ہے۔ ہم آئے دن اپنا سسٹم تبدیل کرتے جارہے ہیں۔ آج بے شک آپ کی ٹیم جیت جاتی ہے لیکن آپ کے پاس ورلڈ کلاس کھلاڑی نہیں ہیں۔ اس موقع پر گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے توقیر ضیا نے کہا کہ میاں منیر ٹھیک کہہ رہے ہیں کرکٹ بورڈ کو سٹینڈرڈ درست کردینے چاہئیں کہ جو بھی ایسوسی ایشن کی ٹیم ہے اس کی فٹنس کا سٹینڈرڈ کیا ہونا چاہیے اور اس کیلئے ماحول اور موسم کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ جہاں تک بورڈ کے آئین کا تعلق ہے ہم ابھی تک کسی ایک آئین پر متفق نہیں ہوسکے۔ میں نے بھی ایک آئین تیار کیا تھا جس میں ایک رول ایسوسی ایشنوں کا تھا ایک دوسرے کو بچاتے رہیں گے تو کام نہیں بنے گا۔

میاں منیر نے کہا کہ جب نیا آئین تیار کیا جائے گا تو میری گزارش ہے کہ یہ آئین کوئی بیورو کریٹ نہ بنائے بلکہ سٹیک ہولڈرز اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک بورڈ بنایا جائے جو یہ آئین تیار کرے میرا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ کرکٹ بورڈ کا چیئرمین منتخب ہونا چاہیے۔ اب ذکاء اشرف کے دور میں جو آئین آیا ہے اس میں چیئرمین کیلئے دو لوگوں کو نامزد کیا جائے گا۔ یہ کہاں کی جمہوریت ہے کہ کوئی اور بندہ الیکشن ہی نہ لڑسکے الیکشن اوپن ہونا چاہیے جو چاہے اس الیکشن میں حصہ لے اسی آئین کے تحت ذکاء اشرف منتخب ہوئے اور 15 میں سے 19 ایسوسی ایشنوں پر ایڈہاک تھا کہ 4 نئے ریجن بنا دیئے گئے تاکہ ان کے چیئرمین بننے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے ایک ایسا آئین بننا چاہیے جس میں چیئرمین کا انتخاب جمہوری انداز میں ہو جو سب منتخب نمائندوں کو جوابدہ بھی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایشیا کپ میں نہیں جاتے تو ہمارا جنوبی افریقہ والا حال نہ ہوجائے، ہمیں جذبات سے نہیں دانشمندی کے ساتھ سوچنا ہوگا کہ ہم نے اپنی کرکٹ کا مستقبل کس طرح بچانا ہے۔

بھارت ہمیشہ پاکستان کیخلاف رہا ہے۔ جنرل توقیر ضیا نے پھر گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا بھارت کو ٹھیک کرنے کاصرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے رعب۔ آپ کوکچھ پانے کیلئے کچھ کھونا بھی پڑے گا۔ آپ دو سال کرکٹ سے آؤٹ ہوجائیں اگر آئی سی سی کی ماں نہ مرجائے تو میرا نام بدل دیں۔

سابق سیکرٹری لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن میاں جاوید نے ایکسپریس فورم میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کلب کھلاڑی کی ماں ہوتی ہے۔ اگر ماں کو مناسب خوراک نہ ملے اس کی صحیح دیکھ بھال نہ ہو تو بچہ تندرست نہیں ہوگا۔ بہت بڑا ظلم ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کلبوں کو لکھ کر بھیج دیتا ہے کہ آپ ہمیں سال کا حساب کتاب دیں کتنے ٹورنامنٹ کھیلے ہیں کتنے میچ کرائے ہیں ان سے یہ پوچھا جائے کہ آپ کلبوں سے یہ سوال کررہے ہیں آپ بتائیں آپ نے کلبوں کو سا ل میں کتنے پیسے دیئے ہیں تمام کلبوں کے اپنے پیٹرن ہیں جو شوقین ہیں کاروباری حضرات رقم خرچ کردیتے ہیں جس سے یہ کلب کرکٹ چل رہی ہے اس میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا کوئی رول نہیں ہے۔ پچھلے 12 سال سے یہ بہت بڑا المیہ ہے جس پر آج تک دھیان نہیں دیا گیا۔ کسی چیئرمین نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ پاکستان نے 1992ء میں ورلڈ کپ جیتا تو کوئی کرکٹ اکیڈمیاں نہیں تھیں کلبوں میں کھیلنے والے لڑکوں نے کپ جیت کر دیا۔



اس وقت بورڈ میں صرف 20 سے 25 لوگ ملازم تھے جو پورے پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ چلارہے تھے۔ اب بورڈ میں 700 لوگ ملازم ہیں اور کرکٹ کا حال دیکھ لیں کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں قیادت پیرا شوٹ کے ذریعے اوپر سے آتی ہے جب کہ قیادت کو یہ پتا ہی نہیں ہوتا کہ ڈومیسٹک اور کلب کرکٹ کے مسائل کیا ہیں جب سکول کرکٹ ہوتی تھی تو سکول کرکٹ کا فائنل 5 دن کا ہوا کرتا تھا۔ انٹر کالجیٹ ٹورنامنٹ کا فائنل بھی 5 دن کا ہوا کرتا تھا۔ اب وہ بھی ٹی 20 اور ون ڈے پر چلے گئے ہوئے ہیں۔ انہیں دینے کیلئے کرکٹ بورڈ کے پاس پیسے نہیں ہیں اور بورڈ میں لاکھوں روپے پر ملازم رکھے جارہے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی پاکستان میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو پاکستان کرکٹ کیلئے اعزازی طور پر کام کرنا چاہتے ہیں لیکن کرکٹ بورڈ پر لوگوں کی جو اجارہ داری بنی ہوئی ہے وہ لوگ اور کسی کو آنے نہیں دیتے اور جو اوپر سے آجاتا ہے اسے سیلوٹ مارتے ہیں۔ اسے خوش آمدید کہتے ہیں اور اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ بار بار چیئرمین بدلنے سے کرکٹ کو کیا فائدہ ہوگا۔ حکومت چیئرمین کرکٹ بورڈ کے انتخاب کیلئے الیکشن کرائے اس سے پہلے ایسوسی ایشنوں کے الیکشن کرائے جائیں پھر چیئرمین چنا جائے جو کلبوں اور ایسوسی ایشنوں کو جوابدہ ہو۔

پاکستان کی کرکٹ میں ساری خرابی غیر منتخب چیئرمین آنے سے پیدا ہوئی ہے۔ یہاں دوپہر کو ٹیم بنتی ہے ہائی کمان آدھی رات کو آدھی ٹیم تبدیل کردیتی ہے۔ پرفارمنس والا باہر اور سفارش والا اندر ہوتا ہے۔ اس موقع پر توقیر ضیا نے کہا کہ کوچ کھلاڑیوں میں سے ہی لینا چاہیے نجم سیٹھی نے عامر سہیل کو نکال کر غلطی کی یہی غلطی ذکا اشرف نے معین خان کو نکال کر کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کلب کرکٹ کو مضبوط کرینگے تو ہی اکیڈمیوں کیلئے لڑکے ملیں گے تاہم میں نے اپنے دور میں ایک بڑی غلطی کی تھی کہ کلبوں کی غیر ضروری طور پر سکروٹنی کرائی تھی۔

میرے خیال میں تمام کلبوں کو کرکٹ کھیلنے دی جاتی تو بہتر تھا ان پر نظر رکھتے جو کلب کاغذی ہوتی وہ خود ہی آؤٹ ہوجاتی۔ سابق ٹیسٹ ایمپائر میاں اسلم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کرکٹ کا بیڑہ غرق تب ہوا جب آپ نے ساری کرکٹ کرکٹروں کے ہاتھ میں دیدی۔ کرکٹر صرف پیسوں کیلئے آگے آتے ہیں۔ لاکھوں روپے تنخواہ ملتی ہے وہ ایک دوسرے کا توڑ کرنے کیلئے ٹی وی پر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے پر تنقید کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ جنرل صاحب نے بڑی اچھی اکیڈمی بنائی لیکن جس مقصد کیلئے انہوں نے بنائی اس کا زیرو فیصدبھی نتیجہ نہیں نکلا۔ ہمارے ملک میں کبھی کوئی آتا ہے کبھی کوئی آتا ہے۔



سیاسی طور پر اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر چیئرمین لگائے گئے کوئی چیئرمین منتخب ہوکر نہیں آیا اکیڈمیوں کا سلسلہ بھی ٹھپ ہوگیا۔ جواب میں توقیر ضیاء نے کہا کہ میں نے تو ایک کام شروع کیا اکیڈمیوں کو چلانے کیلئے رمیز راجہ، مدثر نذر، شاہد اسلم، اقبال سکندر اور تیمور کو ٹریننگ دلوائی لیکن بعد میں آنے والوں نے ان سب کو دائیں بائیں کردیا۔ اس اکیڈمی نے 2012ء میں ایک مکمل تعلیمی ادارہ بننا تھا جس میں تمام ایسی سہولتیں ہونی تھیں جو ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہیں۔ اس اکیڈمی میں دنیا بھر سے کھلاڑی آتے ہمیں اپنے کھلاڑی کہیں باہر نہ بھیجنے پڑتے۔ بائیو مکینک مشین خریدنے کیلئے مدثر نذر کو بھیج دیا گیا جبکہ مشین خریدنے کیلئے کسی ایکسپرٹ کو بھیجنا چاہیے تھا لیکن شخصی فیصلے تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ چیئرمین جس طرح آتے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

ذکاء اشرف نے جس طرح الیکشن کرائے وہ طریقہ کار غلط ہے جو بھی یہ الیکشن لڑنا چاہے اسے موقع ملنا چاہیے جب کوئی درست طریقہ سے منتخب ہوکر آئے گا تو اسے کئی پوچھنے والے ہوں گے۔ ذکاء اشرف ایک کامیاب بزنس مین اور نجم سیٹھی ایک کامیاب صحافی ہیں۔ ظاہر دونوں بہت زیادہ عقل رکھتے ہیں۔ لیکن جو بھی ہو اسے اپنی پوری عقل استعمال کرنی چاہیے۔

میاں اسلم نے کہا کہ کرکٹ کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ منٹو پارک میں بلڈوزر پھرا دیا گیا کیونکہ وہاں سے سڑک گزرنی ہے ایک ایسی گراؤنڈ جہاں سے بے شمار ٹیسٹ کرکٹر پیداہوئے وہ ختم ہوگئی اب ہمارے پاس گراؤنڈ نہیں ہے۔ کرکٹ بورڈ کی گورننگ باڈی مضبوط ہو تو چیئرمین زیادہ مضبوط ہوگا۔ اگر توقیر ضیا ایک ایسا گورننگ بورڈ بنادیتے تو کرکٹ بورڈ مضبوط ہوجاتا۔ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی مجاہد جمشید نے کہا کہ سب سے پہلے ہم نے کرکٹ کو بچانا ہے ہم نے کرکٹ بورڈ کو سیاسی اڈا بنا دیا ہے۔



دوسرے ملکوں کے کرکٹ بورڈ کمپنیاں ہیں لیکن بورڈ جو ہیڈکوارٹر ہوتا ہے وہی عدم استحکام کا شکار ہوگا تو پھر کرکٹ کیسے ٹھیک ہوسکتی ہے۔ ایک چیئرمین کوئی چیز شروع کرتا ہے تو جو نیا آتا ہے وہ اسے ریت کے ڈھیر کی طرح ٹھڈا مار کر گرا دیتا ہے۔ بورڈ میں استحکام لائے بغیر آپ اچھے رزلٹ لے ہی نہیں سکتے۔ میں نے پی سی بی کو ایک مشورہ دیا تھا کہ کرکٹ میں اتنا پیسہ آگیا ہے مین آف دی میچ کا جو بھی پیسہ ہو وہ کلب کرکٹ میں تقسیم کردیں۔

آپ کی کرکٹ کھڑی ہوجائے گی۔ میاں جاوید نے کہا کہ اعجاز بٹ نے کرکٹ ایوارڈ اپنی مرضی کی کلبوں میں تقسیم کیے۔ اپنے ایک ملازم کو بھی ایوارڈ دے دیا جس کا کرکٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ سیالکوٹ کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر ملک ذوالفقار نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب کلب کرکٹ میں چیئرمین کرکٹ بورڈ شامل ہوجائیں گے تو گند تو پڑے گا۔ آج جتنا بھی گند ہے وہ اعجاز بٹ کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے سیالکوٹ کرکٹ ایسوسی ایشن میں اپنے رشتہ دار کو آگے لانے کیلئے کئی دھاندلیاں کیں۔ عدالتوں نے نوٹیفکیشن کرنے کا حکم دیا لیکن بورڈ نوٹیفکیشن نہیں کررہا اگر وہ نوٹیفکیشن کریگا تو اس کی رٹ ختم ہو جائے گی۔ ذکاء اشرف کا آئین جھوٹا اور ان کے الیکشن بھی جھوٹے تھے۔



8 مئی کوگورننگ باڈی کا اجلاس اسلام آباد میں بلایا جاتا ہے اور اس میں اگر الیکشن کا ذکر ایجنڈے میں تھا تو پھر ذکاء اشرف سچے ہیں لیکن انہوں نے اتنی بڑی سیٹ پر بیٹھ کر اتنا بڑا جھوٹ بولا پھر انہوں نے جو آئین بنایا اور خود کو چار سال کیلئے چیئرمین بورڈ بنالیا اور جو گورننگ بورڈ کا ممبر ہوگا اس کی مدت ایک سال ہوگی۔ اگر کوئی ریجنل صدر ان کیخلاف زبان کھولے گا تو چیئرمین اس صدر کو 5 سال کیلئے معطل کرسکتے ہیں۔ اگر ایسے بندے کو ہٹا دیا گیا تو کون سی قیامت آگئی جو بندہ نام نہاد الیکشن کرائے ایسوسی ایشنوں میں جس کو جتنوانا ہو اسے جتا دیا جائے جس کو ہرانا ہو اسے ہرا دیا جائے اس کا چلا جانا ہی بہتر ہے۔ سب سے پہلے ناانصافیاں ختم کرنا ہوں گی۔ چیئرمین بورڈ منتخب ہوکر آنا چاہیے تاکہ وہ کسی کے سامنے جوابدہ تو ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں