’’فیک نیوز‘‘ اور سیاستدان

مین اسٹریم میڈیا میں تو بیریئرز لگے ہیں جہاں آپ کا کالم، مضمون، پروگرام یا ڈاکومنٹری چیک ہو جاتی ہے


علی احمد ڈھلوں February 23, 2022
[email protected]

''ایک سیاسی پارٹی کا کوئی لیڈر دوسری سیاسی پارٹی کے کسی لیڈر یا پارٹی کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ چور ہے، وہ ڈاکو ہے، بے ایمان ہے، پھر دوسری پارٹی حرکت میں آتی ہے اور اس کے لیڈر حضرات پہلی پارٹی کے لیڈر پر کرپشن کا جوابی الزام عائد کرتے ہیں حالانکہ دونوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کیسے فیک یا جعلی، جھوٹی باتیں سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے خلاف کرتے ہیں۔

سیاستدانوں کی اس روش کو روکنے کے لیے کبھی کوئی قانون سازی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور یہ سلسلہ اب بھی بلاروک ٹوک جاری ہے تو پھر سارا نزلہ میڈیا ، صحافیوں اورسوشل میڈیا پر ہی کیوں؟ ریاست کے کسی ادارے پر تنقید کرنا کیسے جرم ہوسکتا ہے۔ سرکاری ادارے عوام کی ملکیت ہوتے ہیں، سرکاری افسر اور ملازمین کو انگریزی میں پبلک سرونٹس کہا جاتا ہے۔

اتوار کو صدر مملکت جناب ڈاکٹرعلوی نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈی ننس جاری کردیا۔ اس آرڈیننس کا مقصد جعلی خبریں (فیک نیوز) روکنا بتایا گیا ہے، اور اس فعل کو قابلِ دست اندازی پولیس اور ناقابلِ ضمانت قرار دیا گیا ہے اور اس الزام میں کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکے گا۔

آرڈی ننس کے مطابق کسی فرد کے تشخص پر حملے کی سزا تین سال سے بڑھا کر 5سال کر دی گئی ہے اور ''تشخص'' کی تعریف میں ایسوسی ایشن، ادارے، تنظیم یا اتھارٹی کو بھی شامل کیا گیا ہے جو حکومتی قوانین کے تحت قائم کی گئی ہو۔

عدالتوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ اس نوعیت کے کیسوں کا چھ ماہ کے اندر فیصلہ کردیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس آرڈیننس پر صحافی برادری کا پہلا اعتراض جمہوری ملکوں میں یکطرفہ قانون سازی نہیں ہوتی، ویسے بھی پاکستان میں متعدد صحافی اب تک قتل، اغوا یا لاپتہ ہو چکے ہیں اور صحافیوں سے مارپیٹ معمول بن چکی ہے۔

اس قانون کے بعد دنیا میں آزادی صحافت کے معاملے میں پاکستان کی رہی سہی ساکھ بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ خاص طور پر انوسٹی گیٹو رپورٹنگ جو میڈیا کی جان ہوتی ہے، سرے سے ختم ہو جائے گی کیونکہ کسی کو بھی جعلی خبر کے الزام میں جیل بھیج دیا جائے گا، چاہے اس کے پاس کتنے ہی ٹھوس ثبوت کیوں نہ ہوں اور مقدمہ چلنے پر باعزت بری کیوں نہ ہو جائے۔ بقول شاعر وہ کہہ رہے ہیں کہ

انھیں نفرت ہوئی سارے جہاں سے

نئی دنیا کوئی لائے کہاں سے

جھوٹی ، جعلی یا فیک نیوز کی میڈیا پرسز اور صحافیوں اور ان کی تنظیموں نے کبھی حمایت نہیں کی، مین اسٹریم میڈیا میں سرے سے جھوٹی یا جعلی خبر چلانا یا شایع کرنا ممکن نہیںہے البتہ الیکٹرانک میڈیا کا چونکہ ڈھانچہ اور اسٹرکچر ایسا بنا جس میں ایسے لوگ بھی داخل ہو گئے جنھیں صحافتی آداب، روایات اور اقدار کا علم نہیں تھا، چند اینکر صحافی نہیں مگر وہ اینکر بنے ہوئے ہیں، کچھ لوگ تجزیہ کار نہیں مگر وہ تجزیہ کار بنے ہوئے ہیں، کچھ لوگ معاشی ایکسپرٹ نہیں مگر نام نہاد معاشی ایکسپرٹ بنے ہوئے ہیں۔ انھی نام نہاد لوگوں نے ''فیک یا یلوجرنلزم'' کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے ۔

ہم بھی ایک صحافی ہیں، ہم قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر کام کرتے رہے ہیں، ہم بھی انوسٹی گیٹو اسٹوریز کرتے رہے ہیں، ہم تو اُن ادوار میں اسٹوریز کرتے تھے جب چند ایک نیوز پیپرز ہوا کرتے تھے، اور قارئین اور حکومتی اداروں کی انھی نیوز پیپرز پر گہری نظر بھی ہوا کرتی تھی۔ لیکن اسٹوری حقائق پر مبنی ہوتی تھی جسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔

اب سوشل میڈیا کی سنیں! ایسے نان پروفیشنل اینکرز ، نیوز کاسٹرز جنھوں نے صحافت کی کہیں سے کوئی ٹریننگ نہیں لی ہوئی، انھوں نے اپنے اپنے یوٹیوب چینلز بھی بنا رکھے ہیں، اور پھر اُن پر ایسا ایسا بے لاگ تبصرہ فرماتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔پھر سیاسی جماعتوں، مذہبی اور انتہاپسند گروہوں نے بھی سوشل میڈیا کو استعمال کرنا شروع کردیا،جس کی وجہ مسائل پیدا ہوئے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت جرائم کا پردہ فاش ہوا ہے، لہٰذا ایسا نہیں کہ سوشل میڈیا مکمل طور پر جھوٹ ہے۔

مین اسٹریم میڈیا میں تو بیریئرز لگے ہیں جہاں آپ کا کالم، مضمون، پروگرام یا ڈاکومنٹری چیک ہو جاتی ہے، اور ''فیک معلومات'' پکڑی جاتی ہیں مگر سوشل میڈیا پر چیک نہیں تھا ، پھر سائبر کرائمز ایکٹ سامنے لایا گیا،جس کے تحت سوشل میڈیا پر بھی چیک آگیا، اتناکچھ کرنے بعد بھی حکومت نے نیا پنڈورا بکس نجانے کیوں کھول دیا ہے، اگر کچھ کرنا ہی تھا تو فیکٹ چیک اتھارٹی بنالی جاتی جس میں سابق جج، سینئر صحافی اور سابق بیوروکریٹ کو شامل کیا جاتا جو کسی خبر کے غلط یا جھوٹ ہونے تعین کرتی، اگر خبر غلط ہو تو صحافی کو وارننگ دیں، اُس کی کریڈیبلٹی خود بخود خراب ہو جائے گی اور حکومتی عزت بھی بچی رہے گی!لیکن آرڈیننس کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں