ایک نیا زارِ روس

2014میں روس نے کریمیا کو یوکرین سے جدا کر کے اپنا تسلط جما لیا


عبد الحمید February 25, 2022
[email protected]

ISLAMABAD: ایک جانب سے سخت ترین پابندیوں کی دھمکیاں اور دوسری جانب سے یوکرین کے مختلف چھوٹے بڑے علاقے ہڑپ کرتے جانا،یہ ہے یوکرین کہانی کی کل روداد۔یوکرین تنازعے کا پہلا راؤنڈ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے نام رہا ہے،سوویت یونین کے ٹوٹنے سے لے کر 2010 تک روس ایک بڑی قوت کے طور پر اپنا مقام کھو بیٹھا تھا لیکن 2010کے بعد پیوٹن نے مختلف چالیں چل کر روس کو ایک بڑی اور اہم قوت بنا دیا ہے۔ 2014میں روس نے کریمیا کو یوکرین سے جدا کر کے اپنا تسلط جما لیا۔

2015میں روسی صدر نے ایک تقریب میں کہا کہ یوکرین روسی تاج کا ایک قیمتی ہیرا ہے (Crown Jewel of Russia) صدر پیوٹن نے2021میں اس موضوع پر ایک آرٹیکل لکھا جس میں کہا کہ روسی اور یوکرینی باشندے ایک بڑی اکائی میں پروئے ہوئے ہیں۔

یہ بھی لکھا کہ یوکرین کو اپنی دھرتی ماں سے الگ ایک علیحدہ ملک نہیں ہونا چاہیے۔اصل میں ماڈرن ڈے روس کی بنیاد کیئف میں رکھی گئی تھی جو یوکرین کا دارالحکومت ہے۔اس حقیقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے صاف نظر آتا ہے کہ پیوٹن کس منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔پابندیاں چاہے کتنی ہی سخت کیوں نہ ہوں،ان کی قسمت میں ختم ہونا لکھا ہوتا ہے لیکن روس جیسے ملک کے پنجے سے غصب شدہ علاقوں کو چھڑانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔

کشیدگی کو کم کرنے کے لیے روس نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک تو مغربی افواج مشرقی یورپ کے پرانے وارسا پیکٹ میں شامل ممالک سے نکل جائیں اور دوسرا یہ واضح اعلان کیا جائے کہ یوکرین نیٹو بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مطلوبہ اقدامات تو نہیں اُٹھائے گئے البتہ 5ہزار امریکی فوجی دستے اور جنگی سازو سامان پولینڈ پہنچا دیا گیا ہے۔

ادھر روسی افواج جن کی تعداد ایک سے ڈیڑھ لاکھ بتائی جا رہی ہے، انھوں نے یوکرین کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ روس اور بیلاروس کی مشترکہ فوجی مشقیں بھی جاری ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں روس کے مستقل مندوب نے امریکی مندوب کی تقریر کے جواب میں کہا ہے کہ روس اب بھی سفارت کاری کو موقع دینا چاہتا ہے تاکہ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکل آئے۔روس بار بار کہہ رہا ہے کہ امریکا اور مغربی یورپی ممالک سیکیورٹی کے حوالے سے روس کے جائز خدشات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیدن نے اتوار 20فروری کو ایک بیان میں کہہ دیا تھا کہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے اور یہ حملہ اگلے چند دنوں میں ہو جائے گا۔ البتہ چند امریکی لا میکرز کا کہنا تھا کہ روس نے ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گوئٹرس نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈپلومیسی کا کوئی متبادل نہیں ہے، اس لیے مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھا جائے۔ ڈپلومیسی کو خیر باد کہنا گہری کھائی میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔

فرانس کے صدر میکرون نے ماسکو کادورہ کیا جہاں وہ صدر پیوٹن سے ملے اور یوکرین کی صورتحال پر تبادلہ خیالات کیا۔ جرمن چانسلر اولف شولز نے پہلے یوکرین کا دورہ کیا اور پھر ماسکو پہنچے۔جرمن چانسلر کا دورہ ماسکو بہت اہمیت رکھتاہے۔ جرمنی اور روس کے بہت وسیع تجارتی تعلقات ہیں۔دونوں ممالک تجارت کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں۔

جرمنی اپنی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے روس کی قدرتی گیس درآمد کرتا ہے۔ جرمن چانسلر نے یوکرین سے ماسکوروانہ ہوتے ہوئے کہا کہ روس مذاکرات کو موقع دے۔بہرحال ملاقاتیں ہو رہی ہیں لیکن ابھی تک کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

امریکی صدر جو بائیڈن مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔امریکا اگر یہ کہہ دے کہ یوکرین کو فی الحال نیٹو کی ممبر شپ نہیں دی جائے گی تو یکدم حالات سدھر سکتے ہیں۔امریکا دراصل یوکرین کو نیٹو کی ممبر شپ دینے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتا۔کسی ایک نیٹو ملک پر حملہ باقی تمام ممبر ممالک کو پابند کرتا ہے کہ وہ مل کر حملہ آور کے خلاف کارروائی کریں۔

نیٹو ممبر بننے سے یوکرین نیٹو کی soft bellyبن جائے گا۔روس نیٹو افواج کو انگیج کرنے کے لیے یوکرائن پر چند میزائل داغ دے تو نیٹو کو ہرحال میں جواب دینا پڑے گا اور یوں پورا یورپ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ یورپ کے لیے یہ کوئی اچھی بات نہیں ہو گی کہ پہلی دو عالمی جنگوں کے بعد ایک اور عالمی جنگ یورپ میں ہو۔ البتہ امریکا ہزاروں میل دور ہونے کی وجہ سے براہِ راست متاثر نہیں ہوگا۔اسی لیے صدر بائیڈن یہ چاہتے ہیں کہ روس یوکرین پر حملہ کرے۔امریکی لا میکرز کی ایک بڑی تعداد امریکی ڈیفنس انڈسٹری کے زیرِ اثر ہیں۔

جنگ کی صورت میں ڈیفنس انڈسٹری کا پہیہ بہت تیزی سے گھومنا شروع ہو جائے گا اور ان کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔صدر بائیڈن بھی چاہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں کوئی جواز آ جائے جس سے وہ روس پر پابندیاں لگا سکیں،بائیڈن روس چین تعلقات کی گرم جوشی سے بہت نالاں ہیں اور وہ اپنے تئیں روس کو سزا دینا چاہتے ہیں۔

21فروری کو صدر پیوٹن نے روسی نیشنل سیکیورٹی کونسل اجلاس کی صدارت کی۔اس اہم اجلاس کو براہِ روست ٹیلی کاسٹ کیا گیا،اس سے پہلے یہ کبھی نہیں ہوا۔اجلاس کے ایجنڈے میں یوکرین سے علیحدہ ہونے والے دو علاقوں دان باس اور لوہانسک کی خود مختاری تسلیم کرنا تھا۔

تمام ارکان نے اس فیصلے کی حمایت کی جس کے بعد روسی صدر نے اعلان کیا کہ وہ ان علاقوں کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کی منظوری دینے کے عمل کی اجازت دیتے ہیںRecognitionکے ساتھ ہی روس کے تازہ دم دستے دونوں علاقوں میں داخل ہو گئے۔یہ ایک انتہائی قدم ہے جس کے بعد یورپی لیڈران نے بہت غم و غصے کا اظہار کیا۔جرمن چانسلر نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ جرمنی نارڈ اسٹریم گیس پروجیکٹ 2کو تاحکمِ ثانی روک رہا ہے۔

برطانیہ اور امریکا نے بھی پابندیوں کا اعلان کیا۔یورپی یونین کی صدر اُرسلا نے چند دن پہلے ہی ممبران ممالک کو تجویز دی تھی کہ وہ روسی توانائی پر اپنا انحصار کم سے کم کر دیں۔ یوکرین نے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی درخواست کی ہے۔دونوں بریک اوے علاقوں کو خود مختار آزاد ریاستیں تسلیم کرنے کے بعد حالات بگڑ چکے ہیں۔

لگتا ہے کہ بات یورپ کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ صدر پیوٹن یوکرین کو واپس روس کے زیرِ اثر لانا چاہتے ہیں۔Recognitionکی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے پیوٹن نے ایک بار پھر یوکرین کوAncient Russian Landکہتے ہوئے لازمی حصہ قرار دیا۔ پیوٹن 22 سال سے برسرِ اقتدار ہیں اور وہ 2036 تک صدر رہ سکتے ہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ روس کے اردگرد ممالک روس کے حامی ہوں اور ان ممالک کے لیڈران اپنے معاملات طے کرنے اور مسائل کے حل کے لیے ماسکو آئیں۔اسی وجہ سے جب یوکرین نے نیٹو کی طرف دیکھنا شروع کیا تو صدر پیوٹن خاصے غصے میں آ گئے۔وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بعد روس اور علاقے کے لوگ انھیں ایک زار یا سابق سوویت یونین کے مضبوط سربراہ کے طور پر یاد رکھیں۔

موجودہ نازک صورتحال میں صدر پیوٹن کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آگے کیا ہو گا۔حالات پیوٹن کی مرضی پر ہیں اور کوئی پیوٹن کے دماغ کو نہیں پڑھ سکتا۔ بہر حال وقتی طور پر یورپ میں امن صدر پیوٹن کے ہاتھ میں دکھائی دیتا ہے۔امریکا ،یورپ اور دوسرے ممالک روس پر پابندیاں تو لگا سکتے ہیں لیکن حالات کس رخ پر جائیں گے یہ اب صدر پیوٹن کے ہاتھ میں ہے۔دنیا کو ایک نئے زارِ روس کا سامنا ہے۔روس پر پابندیاں لگ رہی ہیں اور روس پرواہ کیے بغیر علاقے ہڑپ کر رہا ہے۔

روس پر پابندیاں بے معنی ہو سکتی ہیں۔ جنگ تباہی لاتی ہے اس لیے جنگ کبھی ایک آپشن نہیں ہونی چاہیے لیکن اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو ایشیا اور افریقہ سے دور ہو گی۔ایشین افریقن لیڈران کو جنگ کا ایندھن بننے سے بچنا چاہیے۔اس موقع پر وزیرِ اعظم پاکستان کا دورہء روس خاصی اہمیت رکھتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں