کمیون کیا ہے
درحقیقت عبوری دورکا شوشہ چھوڑ کر کمیون نظام کو روک دیا گیا
اکثر ہمارے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ دنیا بھر میں سیکڑوں ، ہزاروں علاقوں اور خطوں میں کمیون نظام خوش اسلوبی سے چلا آ رہا ہے ، تو پھر یہ کمیون نظام ہے کیا ؟ تقریباً 8/7 ہزار سال قبل جب ریاست کا وجود نہیں تھا اس وقت دنیا بھر کے عوام قدیم کمیون نظام میں زندگی بسر کرتے تھے۔
موئن جو دڑو، ہڑپہ اور مہر گڑھ کی کھدائی کے بعد یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قدیم دور کا جدید کمیون نظام رائج تھا۔ یہاں سے کوئی اسلحہ، مندر، محل یا انفرادی جائیداد کا ثبوت نہیں ملا۔ جب نجی ملکیت وجود میں آئی تو دولت کی زائد پیداوار یا یوں کہہ لیں کہ وسائل کی لوٹ مار کو تحفظ دینے کے لیے ریاست وجود میں آئی۔ ریاست کے وجود سے قبل جو کمیون (مشترکہ ملکیت) قائم تھی وہ قدیم کمیون کہلاتی ہے اور آج جدید سرمایہ دارانہ دور میں عوام نے دنیا بھر میں جو کمیون قائم کر رکھا ہے وہ جدید کمیون ہے۔
اس وقت دنیا میں قدیم اور جدید دونوں اقسام کے کمیون قائم ہیں۔ کمیون کا اول و آخر مطلب یہ ہے کہ وسائل کی مشترکہ ملکیت کا قیام۔ یعنی نجی ملکیت اور ذاتی جائیداد کا خاتمہ کرکے اسے عوام الناس کی ملکیت میں تبدیل کرنا ہے۔ قدیم کمیون زراعت اور غلہ بانی پر انحصار کرتا ہے اور آج بھی اس کی باقیات موجود ہیں۔ اس شکل میں زراعت مل کرکرتے تھے اور پیداوار کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کردیتے تھے۔
کوئی امیر وغریب نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح جانوروں کے غول کو چرانے کے لیے کچھ غلہ بانوں کے حوالے کر دیا جاتا تھا لیکن اس کا گوشت ، دودھ اور اون سب کی ملکیت ہوتی تھی۔ سماج میں اگر کوئی بدنظمی یا جھگڑے وغیرہ ہوگئے تو کچھ لوگ (جوکہ سردار، خان، وڈیرے یا چوہدری نہیں) مل بیٹھ کر فیصلہ کرلیتے تھے اور اسے ایسی سزا دیتے تھے کہ وہ مجرم کچھ عرصے میں خود کو سنبھال لیتا تھا۔
آج کے جدید دور میں یورپ، امریکا، ایشیا، آسٹریلیا میں جو جدید کمیون نظام رائج ہیں، مثال کے طور پر اگر ایک فیکٹری میں 1000 لوگ کام کرتے ہیں اور صرف 8/10 آدمی کینٹین چلاتے ہیں، جسے فیکٹری مالکان تنخواہیں دیتے ہیں۔
تو پھر یہ کام گلی، محلے، گاؤں اور دیہات میں کیوں نہیں ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کے اجتماعی دھوبی گھاٹ اور کچن دنیا بھر کے کمیون نظام نے قائم کیا ہوا ہے جس کے نتیجے میں خواتین کو کچن اور دھوبی گھاٹ سے نجات مل گئی ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے ان دھوبی گھاٹ اور مشترکہ کچن کو چلانے والوں کے اخراجات کون اٹھائے گا۔
یہ اخراجات کمیون کی کمیٹی اٹھائے گی۔ اس طرح سے کہ ہر شخص اپنی پیداوار یا کمائی کمیون کے حوالے کرے گا۔ خواہ کسی کی آمدنی ایک لاکھ رائج السکہ ہو یا دس ہزار۔ اب پھر ایک سوال اٹھے گا کہ جو زیادہ کمائے گا وہ کمیون کو اپنی کمائی کیوں حوالے کرے گا؟ جو حوالے نہیں کرنا چاہتا یا یوں کہہ لیں کہ وہ کمیون کا رکن نہیں بن سکتا ہے ، اگر کمیون کوئی فیکٹری یا کارخانے بحیثیت اجتماعی چلاتا ہے تو اس کے سارے کام محنت کش خود کریں گے۔
ہاں حساب کتاب کا کام لکھے پڑھے مزدور کریں گے۔ اس کی پیداوار اور ترسیلات کا کام بھی کمیون کرے گا اور فیکٹری کسی فرد کی نہیں بلکہ اجتماعی ملکیت ہوگی۔ علاج معالجے کے لیے کمیون اپنا اسپتال قائم کرسکتا ہے یا پھر کمیون کی رقم سے کسی اسپتال میں اپنا پینل بنا سکتا ہے ، مگر علاج سب کا مفت، معقول اور بروقت ہوگا۔ تعلیم کے حصول کے لیے کمیون کا اپنا اسکول ہوگا اور اگرکہیں پڑھانا ہے تو ایک ہی معیار کے اسکول میں سارے کمیون کے بچے بڑھیں گے۔
دور جدید میں بہت سے علاقے جیساکہ ناروے، اٹلی، امریکا، میکسیکو، ایمازون، ہندوستان، فرانس، جرمنی اور بہت سے ملکوں میں کمیون کے ذریعے کارہائے زندگی کو رواں دواں رکھا ہوا ہے۔ یہاں 100فیصد لوگ لکھے پڑھے ہیں۔ کوئی بے روزگار ہے اور نہ بے گھر۔ سب مل کر کام کرتے ہیں اور پیداوار کو مل کر بانٹ لیتے ہیں۔ قدیم کمیونزم کے باقیات اب بھی بہت سے علاقوں میں موجود ہیں۔
جیساکہ جنوبی مشرقی ایشیا (میسف) ، زومیا کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے اتحاد کو زومیا کہتے ہیں۔ یہ لوگ لگ بھگ 1000 فٹ کی بلندی کے پہاڑوں پر رہتے ہیں۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہاں کی قدیم مقامی آبادی صدیوں سے یہاں آباد ہے جو کسی قومی ریاست میں نہیں ہے اور اسٹیٹ لیس سوسائٹی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ لوگ ویتنام کے پہاڑوں سے لے کر افغانستان کے پہاڑوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ اپنے تسلسل میں ویتنام، تھائی لینڈ، برما، کمبوڈیا، لاؤس، ملائیشیا، تائیوان، پاکستان، ہندوستان اور افغانستان کے پہاڑوں پر آباد ہیں۔
یہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں میگھالائے، مینرورام، منی پور، ناگا لینڈ اور اروناچل کے پہاڑوں پر رہتے ہیں۔ زوم لوگوں کا علاقہ ویتنام ، چین تا ہندوستان تک ڈھائی لاکھ اسکوائر کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ یہاں کے بسنے والے لوگ زیادہ تر بدھ مت سے منسلک ہیں، باقی کنفیوشین، تاؤیسٹ، کچھ عیسائی اور مسلمان ہیں جب کہ غیر مذہبی لوگوں کی بڑی تعداد ہے۔
ان کی بڑی آبادی جنوب مشرقی چین، ہندو چین، تبت اور ہندوستان میں بستی ہے۔ ان کا زیادہ تر پیشہ زراعت اور غلہ بانی ہے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے علاقے بھی ہیں (ہزاروں میں) جہاں جمہوریت، آمریت اور سوشلزم نافذ کیا ہے۔ مگر آبادی کا 80 فیصد حصہ زراعت اور غلہ بانی پر انحصار کرتا ہے ، مگر یہ دونوں کام اجتماعی طور پر کیے جاتے ہیں۔ مل کر پیداوار کرتے ہیں اور زرعی پیداوار، جانوروں کا گوشت، پرندوں کے انڈے، جانوروں کی کھال اور دودھ اجتماعی ملکیت ہوتے ہیں۔ جو سب آپس میں برابری کی بنیاد پر بانٹ لیتے ہیں ، اگر ان کے وسائل اور علاقوں پر کوئی قبضہ کرنے آئے تو وہ ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور لڑ کر انھیں بھگا دیتے ہیں۔
ان میں خواندہ لوگ 40 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ پوری آبادی اب تک کسی بھی قومی ریاست کا حصہ نہیں ہے۔ وہ کسی اقتدار اور حکومت کو نہیں مانتے۔ خود ہی سارے کارہائے زندگی کو مل کر انجام دیتے ہیں اور مل کر غذا بانٹ لیتے ہیں۔ کوئی گداگر ہے اور نہ کوئی ارب پتی۔ یہ علاج معالجے زیادہ تر جڑی بوٹیوں سے کرتے ہیں۔ دریاؤں کی مچھلیاں، سبزیاں اور پھل وغیرہ کا بھی زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ طویل عمریں پاتے ہیں۔ اکثر یہ کسی پر حملہ کرتے ہیں اور نہ ان پر کوئی حملہ کرتا ہے۔
کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جنھیں حکومتیں مدد کرتی ہیں جسے کچھ لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔ انھیں اکثریت اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ خود محنت کرو اور خود کھاؤ۔ کسی پر انحصار نہ کرو۔ جب کہ جدید کمیون نظام ناروے، انڈیپنڈنٹ انارکسٹ ٹیروٹوری آف اٹلی، میکسیکو، فرانس اور کیٹالونیہ وغیرہ ان کی اولین مثالیں ہیں۔
ان مثالوں اور تشریحات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست کے وجود سے قبل لوگ اسٹیٹ لیس سوسائٹی میں لاکھوں برس سے رہتے آ رہے ہیں اور آج ایسا نہ صرف ممکن ہے بلکہ تشکیل پاتا جا رہا ہے۔
درحقیقت عبوری دورکا شوشہ چھوڑ کر کمیون نظام کو روک دیا گیا۔ بارٹر سسٹم کے تحت دنیا میں ایسے قدیم کمیون کے جزیروں میں رہنے والے جو صرف مچھلی کا شکار کرتے ہیں اور کوئی اور جزیرے کے لوگ آلو کی پیداوار کرتے ہیں وہ آپس میں مال کے بدلے مال دے کر اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایک گاؤں ہے جہاں سب ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، 100 فیصد لوگ خواندہ ہیں، کوئی بے روزگار ہے اور نہ بے گھر۔