اسلامی فلاحی مملکت کے تقاضے

اقتدار اعلیٰ کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے جو سب کا خالق و مالک ہے۔ مُلک اسی کا اور حق حکم رانی بھی اسی کو حاصل ہے


اقتدار اعلیٰ کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے جو سب کا خالق و مالک ہے۔ مُلک اسی کا اور حق حکم رانی بھی اسی کو حاصل ہے ۔ فوٹو : فائل

لاہور: دنیا میں کوئی مہذّب قوم کسی حکومت کے قیام کے بغیر اجتماعی وجود بر قرار نہیں رکھ سکتی۔ چناں چہ بساط ِارض پر مختلف ممالک و اقوام میں ان کے مزاج، مذہبی افکار یا خود ساختہ اصول و ضوابط کے تحت حکومتیں قائم ہیں اور وہ اپنے فرائض منصبی اپنے قومی و ملی مفادات کے تحفّظ، تہذیب و ثقافت کی بقاء و فروغ اور مادی، سیاسی اور معاشی پروگراموں کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کرتی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ انسان اپنی دنیاوی آسودگی و اخروی فلاح و نجات کیوں کر حاصل کر سکتا ہے۔۔۔۔ ؟

یقین جانیے! دنیا میں واحد فلسفۂ حیات اسلام ہی ہے جو انفرادی و اجتماعی فلاح و بہبود کا نظام عطا کر تا ہے جس میں حکم ران و عوام سب کے سب اپنے خالق و مالک کے بندے ہیں اور سب ہی اﷲ تعالی اور خاتم النبیین رسول کریم ﷺ کے احکامات کے پابند ہیں۔ اسلام میں اقتدار اعلیٰ کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے جو سب کا خالق و مالک ہے۔ مُلک اسی کا اور حق حکم رانی بھی اسی کو حاصل ہے۔

اہل ایمان میں سے جو صاحبان اختیار ہوں وہ اﷲ کی نیابت کر تے ہیں، عوام اہل ایمان کو کتاب و سنّت کے مطابق چلانے کے پابند اور سب سے پہلے خود عملی طور پر اس نظام کے مظہر ہونے چاہییں۔ جیسا کہ اوپر درج کر دہ آیت کریمہ کے مفہوم کی روشنی میں اﷲ تعالیٰ واضح طور پر ارشاد فرما تا ہے کہ پوری کائنات کی بادشاہی صرف اﷲ تعالی ہی کی ہے وہ جسے چاہے بہ طور اپنے نائب یا خلیفہ کے عطا فرما دے اور جسے چاہے محروم کر دے۔ یعنی یہ سب اسی کے اختیار میں ہے۔ اسی کے اختیار میں تمام تر بھلائی ہے یعنی جو قومیں اس کے قرآن اور پیغمبر اسلام ﷺ کی اطاعت کر تی ہیں، انہیں دنیا کی سر فرازی اور آخرت کی فلاح و کام رانی عطا فرما دیتا ہے، جب کہ رُوگردانی کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے اس لیے کہ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔

آج اگر ہم امن، چین، سکون، عدل، انصاف حقوق انسانی اور تعمیر و ترقی کے خواہش مند ہیں تو پھر ہمیں اسی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ جس کا حکم اﷲ تعالی نے اپنی کتاب قرآن حکیم میں دیا۔

ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کر تے رہے، ان سے اﷲ کا وعدہ ہے کہ (وہ) ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا، جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے (بہ طور نظام حیات) پسند کیا ہے مستحکم و پائیدار کر دے گا اور خوف کے بعد امن عطا کرے گا۔ وہ (اہل اقتدار و عوام) میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی شے (یعنی نظام، نظریہ، ہستی وغیرہ) کو شریک نہیں بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد (یعنی قرآن و حدیث کے احکام واضح ہوجانے کے بعد) کفر کرے (یعنی ز بانی یا عملی انکار کرے) تو ایسے لوگ بد کردار ہیں۔'' (النور)

اس سے معلوم ہوا حکومت و اقتدار اﷲ تعالیٰ کی امانت اور مسلم حکم ران اس کے نائبین ہیں۔ جو خود بھی شریعت کے پابند اور عوام کو بھی کتاب و سنّت کے مطابق چلانے کے پابند ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے سرچشمۂ ہدایت ہے۔ آپ ﷺ کا ہر ایک لمحہ لائق اطاعت ہے۔ کائنات کے امام ﷺ چٹائی پر سوتے ہیں تو نشان پڑ جاتے ہیں، صحابہ کرامؓؓ یہ کیفیت دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں کہ کافروں کے حکم ران تو نرم و گداز بستروں پر آرام کریں اور اﷲ کے محبوب ﷺ اس کیفیت سے دوچار ہوں۔

سرور عالم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم دنیا میں عیش کر نے نہیں آئے۔ سیّدنا ابُوبکر صدیقؓ جب خلیفہ بنے تو ارشاد فرمایا کہ لوگو! میں تمہیں شریعت کے مطابق حکم دوں تو میری فرماں برداری کرنا اور اگر مجھے خلاف شریعت پائو تو ہاتھ پکڑ کر میری راہ نمائی کرنا۔ خلفائے راشدینؓ کے اس سنہرے دور کو خلافت راشدہ کے پاکیزہ عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس میں بیت الخلاء جانے اور آنے سے لے کر دنیا کی امامت و قیادت تک کے اسلوب و آداب تفصیل سے سکھائے گئے ہیں۔ بدقسمتی سے آج اسلام کو بازیچۂ اطفال بنا لیا گیا ہے۔ اس نام پر سیاست بھی ہو تی ہے اور کسی حد تک اقتدار کے مزے بھی لوٹے جاتے ہیں، تاہم الاماشاء اﷲ دین کے ساتھ اخلاص دکھائی نہیں دیتا جو انتہائی افسوس ناک ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''بے شک! اﷲ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے حوالے کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو۔ اﷲ تمہیں بہت خوب نصیحت کر تا ہے۔ بے شک! اﷲ سنتا (اور) دیکھتا ہے۔'' (سورۃ النساء)
حق حکومت ایک انتہائی حساس ترین امانت ہے جسے انتہائی سوچ و بچار اور ہر طرح کی نسلی، لسانی، علاقائی عصبیت اور تعصبات سے آزاد ہو کر اہل افراد کے حوالے کیا جانا چاہیے، تاکہ دین و دنیا کی بھلائیوں کا سبب بنے۔ اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تب ہی ممکن ہے، جب اﷲ تعالی اور اس کے آخری پیغمبر رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل کیا جائے۔

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''یہ (اہل ایمان) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں ملک میں دست رس دیں تو نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور بُرے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔'' (سورۃ الحج)

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے حکم ران خوفِ خدا اور اطاعتِ رسول ﷺ سے سرشار ہوں، خود بھی دین پر عمل کرنے والے اور عوام الناس کو بھی دین پر چلانے والے ہوں۔ یقیناً امت کے دکھوں کا مداوا اس کے سوا کچھ نہیں۔ آمین یا رب العالمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں