افغانستان سے پاکستان کا تجارتی حجم کم ہوکر ڈیڑھ ارب ڈالر تک پہنچ گیا
بیکنگ سیکٹر کی عدم موجودگی کے باعث افغانستان نے ایران اور دیگر ممالک سے کام شروع کردیا ہے
افغانستان میں مربوط کوششوں اور توجہ کے فقدان کے باعث پاکستان اپنا تجارتی حصہ کھو رہا ہے جس کی وجہ سے افغانستان کے لیے پاکستان کا تجارتی حجم 2.5 ارب ڈالر سے گھٹ کر ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہوگیا ہے جبکہ ایران سمیت دیگر ممالک کے لیے افغان مارکیٹ میں اپنی کاروباری سرگرمیاں بڑھانے کے مواقع پیدا ہوگئے۔
یہ بات پاکستان افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اسپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں قائم افغانستان سے متعلق کمیٹی کو ارسال کردہ ایک تفصیلی رپورٹ میں بتائی۔
رپورٹ بنیادی طور پر کاروباری غیر دوستانہ SBP کی پالیسیوں، مناسب بارٹر ٹریڈ میکانزم کی عدم موجودگی، سرمایہ کاری اور جوائنٹ وینچر کی پالیسیوں، ایف آئی اے اور ایف بی آر کے غیر ضروری دباؤ اور اقدامات پر مبنی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں آپریشنل بینکنگ ڈھانچے کی عدم موجودگی میں تیسرے فریق کی ادائیگیوں پر کارروائی کرنے سے بینکوں کا انکار، ڈیوٹی، مالیاتی اصلاحات، دہرا ٹیکس، دونوں میں سے کسی ایک حکومت کی یکطرفہ طور پر ڈیوٹی و ٹیکسوں کے نفاذ، دونوں ممالک میں سامان کی گاڑیوں کی آزادانہ نقل و حرکت، غیر ضروری دستاویزات اور سیکیورٹی چیک اور ٹرانزٹ سہولیات تک رسائی کے باعث تجارتی حجم میں کمی ہوئی۔
رپورٹ میں کاروبار دوست ویزا پالیسی کی عدم موجودگی اور دونوں ممالک کے تاجروں کے لیے سہولتوں، ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کو حتمی شکل دینے جیسے معاملات کا احاطہ کیاگیاہے۔ جوائنٹ چیمبر کے چئیرمین زبیرموتی والا نے ایکسپریس کو بتایا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت کا حجم 5ارب ڈالر ہے لیکن افغانستان میں بینکاری نظام کی عدم دستیابی کی صورت حال میں تیسرے ملک کے ذریعے ادائیگیوں کی سہولت دینا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے تاحال افغانستان کے ساتھ روپے میں تجارت کی سہولت نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی بارٹر ٹریڈ کی اجازت ہے۔