چار کتابیں اور میں آخری حصہ
اول الذکر شعری مجموعہ ہے جب کہ ثانی الذکر تبصروں اور تذکروں پر مشتمل ہے
ABBOTTABAD:
گزشتہ کالم میں دوکتابوں کا تجزیاتی مطالعہ نذر قارئین کیا تھا اور اب '' بازگشت '' اور '' شہر ادب کے معمار'' پر بات کرنے کی کوشش کروں گی۔
اول الذکر شعری مجموعہ ہے جب کہ ثانی الذکر تبصروں اور تذکروں پر مشتمل ہے۔ دونوں کتابیں ممتاز و معتبر شاعر و ادیب سلمان صدیقی کی کاوشوں کا ثمر ہیں تو پھر ہم پہلے قارئین کو '' شہر ادب کے معماروں '' سے ملواتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مصنف کے مضمون سے چند سطریں لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تاکہ مطمع نظر سامنے آ سکے کہ انھوں نے ان شخصیات کا انتخاب کیوں کیا؟ ان کی ہی زبانی سنتے ہیں۔
'' اردو ادب میں شاعروں اور نثر نگاروں کی ایک کہکشاں موجود ہے جس نے اس زبان کے منظر نامے کو روشن رکھا ہے ، ان میں سے متعدد شعرا اور ادیبوں نے اپنی پوری زندگی ادب کی نذر کردی ، ان اہم لکھنے والوں پر لکھا بھی خوب گیا۔ یہ امکان کم رہ گیا ہے کہ ان مشاہیر ادب کی تحریروں کی کوئی نئی جہت سامنے لائی جاسکے مگر وقت کے بہتے دھارے اور نئے زمانوں میں پیدا ہوتی نئی حسیات کے پیش نظر آج کی نسل خصوصاً ادب دوست قارئین کو ان اکابرین کی تحریروں اور تخلیقی فن پاروں سے متعارف کرانے کی ایک کوشش میں نے کی ہے، میرا مقصد مستند و معتبر تخلیق کاروں کی تحریروں میں کسی نئی جہت کی نشان دہی اور نئے زمانے کی حسیت کے تناظر میں ان کی تفہیم ہے۔ میں نے اپنے مطالعے میں آنے والے چند شعرا اور نثر نگاروں کے بارے میں جو مضامین اس کتاب میں شامل کیے ہیں ، اس کا مقصد اپنے خیالات کو قارئین تک پہنچانا ، ان کے کام کی نئی نسل میں آگاہی پیدا کرنا اور سب سے بڑھ کر اکابرین ادب کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔''
کتاب میں علم و ادب سے تعلق رکھنے والی 23 شخصیات اور ان کے شعری و ادبی امورکا جائزہ لیا گیا ہے۔ میر تقی میر سے ابتدا ہوئی ہے اور اختتام شاعر صدیقی کے مضمون پر ہوا ہے۔ میں نے کئی مضامین پڑھے سلمان صدیقی نے اہم قلم کاروں کے فن کا نہایت موثر انداز میں محاکمہ کیا ہے اور بہت سی معلومات ادب کے قاری کو پہنچائی ہیں۔ میر تقی میرکی زندگی کے مصائب، مہاجرت ، ذاتی غم ، معاشی اور معاشرتی حالات کا نوحہ لکھنے کے ساتھ ساتھ میرکی شاعری اور وجہ نزول بھی بیان کی ہے۔
سلمان صدیقی اپنے تحقیقی مضمون میں لکھتے ہیں '' میرکے حالات کی خرابی اور ان کے گھرکی بدحالی کے بیان میں ان کی ایک مثنوی 'مثنوی در ہجو خانہ خود '' بہت اہم ہے، میر نے خارجی تباہیوں کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا تھا۔ یہ وہ تباہیاں ہیں جن کی گواہی تاریخ کے اوراق ہیں ، انھوں نے اپنے خاص طرز بیان اور پردرد انداز سے ان واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
یہ بھی زمانے کی ریت ہے تخلیق کار کی زندگی میں داد و تحسین سے نوازا نہیں جاتا ہے بعد از مرگ مرحوم کی قصیدہ خوانی کا اہتمام کرنا گویا فرض کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ '' غالب اور اکیسویں صدی کا قاری'' اس عنوان سے مصنف نے وقیع مضمون قلم بند کیا ہے ، انھوں نے غالب کے جذبات و احساسات کی وضاحت اس طرح کی ہے۔'' غالب نے عرفان کی باریکیوں کو نئے انداز سے ذرا پیچیدگی کے ساتھ بیان کرنا شروع کیا تو لوگوں کو ان کی شاعری پر ابہام اور مہمل گوئی کا شائبہ گزرا ، اسی لیے اس دور میں مرزا کی ستائش بہت کم لوگ کرتے تھے، جب غالب کو اس تازہ نوائی کی داد نہ ملی تو اس دقیانوسی شعری فضا کے خلاف ان کے دل میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہوا اور اس اضطراب میں انھوں نے کہا۔
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ
نہ سہی گر میرے اشعار میں معنی نہ سہی
سلمان صدیقی نے '' بہزاد لکھنوی ، فن اور شخصیت '' کے عنوان سے جو مضمون تحریرکیا ہے ، اس میں بہزاد لکھنوی کی شخصیت اور ان کے شعر و سخن کے حوالے سے معلومات کے کئی در وا ہوئے ہیں ، سلمان کی تحقیقی و تخلیقی صلاحیتوں نے مضمون کو قابل توجہ بنادیا ہے، بہزاد لکھنوی کی پیدائش ، ملازمت ، ریڈیو دہلی سے وابستگی ، گیت نگاری اور جذب کی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ مصنف نے ان کی شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ 1946میں گیت نگارکی حیثیت سے بمبئی کی ایک کمپنی میں ملازم ہوئے، کم و بیش 45 فلموں کے گانے لکھے ، ان کے ہاں گیت ، غزل ، نظم کا بہت سا کلام موجود ہے ، مگر انھیں خصوصی شہرت نعتیہ کلام سے ملی۔ بہزاد لکھنوی کی غزلوں اور نعتیہ مجموعوں کی تعداد 60 سے اوپر ہے۔ ان کی نعت کا ایک شعر۔
پلا ساقیا جامِ عشقِ محمدؐ
کر ہر وقت اک بے خودی چاہتا ہوں
احمد ندیم قاسمی کی شاعری اور افسانوں کے تذکرے کے حوالے سے سلمان صدیقی نے بھرپور مضمون لکھا اور ان ایام کا بھی ذکر کیا ہے جو وقت آخر تھے۔ احمد ندیم قاسمی کی صاحبزادی ناہید قاسمی کے تاثرات سے مضمون شروع ہوا ہے جو ناہید نے اپنے والد صاحب کی وفات کے 7 دن بعد تعزیتی ریفرنس کے موقع پر پڑھا تھا ، قاسمی صاحب کے افسانوں کے 16 مجموعے شایع ہوئے۔ سلمان صدیقی نے افسانوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ احمد ندیم قاسمی پریم چند کی روایت کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہیں اور باکمال شاعر کی حیثیت سے ان کی پہچان اردو ادب میں ان کا دوسرا مضبوط حوالہ ہے۔'' قاسمی صاحب کا ایک یادگار شعر جس میں انھوں نے اپنی زندگی کی ترجمانی کی ہے:
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
بجھ جاؤں تو گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
احمد ندیم قاسمی کا عزم و حوصلہ ادب سے بے پناہ محبت اور لگن نے انھیں ساری عمر تخلیقی کاموں میں مصروف رکھا۔ بے شک احمد ندیم قاسمی اردو ادب کا وہ اہم اور بڑا نام ہے جو تاقیامت کتابوں اور دلوں میں امر رہے گا۔ 242 صفحات پر شہر ادب کے معماروں کا فن سلمان صدیقی کی جدت پسندی اور قدردانی کے نتیجے میں جگ مگ کر رہا ہے۔ وزیر آغا کی نظم نگاری، ابن انشا کا ادبی سفرنامہ، احمد صغیر صدیقی کی نثری اور شعری تخلیقات کو اس طرح قلم بند کیا ہے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ اس کے علاوہ شاعر صدیقی، احمد ہمیش،
سعید اظفر صدیقی، خالد علیگ اور دوسرے کئی فنکاروں کے شعر و سخن پر منصفانہ انداز میں قلم کا حق ادا کیا ہے۔
شعری مجموعہ ''بازگشت'' کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ، اس کا پہلا ایڈیشن 2006 میں اور دوسرا 2022 میں شایع ہوا۔ فلیپ پر ڈاکٹر شاداب احسانی کی رائے درج ہے، جاذب قریشی کا مضمون شامل کتاب ہے اور کئی اہل قلم کی آرا درج ہیں۔ سلمان صدیقی اپنی عادات و اطوار کے اعتبار سے تہذیب آشنا ہیں۔ یہی جذبے ان کی شاعری کے باطن میں در آئے ہیں، ان کی شاعری کا خمیر سچائی سے اٹھا ہے۔ شعری مجموعہ غزلوں اور نظموں سے مرصع ہے، معنویت اور ندرت خیال نے ان کے کلام کو موثر بنادیا ہے۔ غزل کا ایک دل کو چھوتا ہوا شعر:
یوں گفتگو نہ ہو جو سبھی کی سمجھ میں آئے
شعر اس طرح کہو اسی کی سمجھ میں آئے
سلمان صدیقی رمز و کنایہ کو اپنے کلام میں ایک حسن ادا کے ساتھ برتتے ہیں۔ ایک اور شعر جس میں تجربے کی تپش اور محبت کے کئی رنگ واضح طور پر نمایاں ہیں:
ایک لمحے میں ان کو ہار گئے
جیتنے میں جن کو زمانے لگے
سلمان کی شاعری جدائی کے غم اور محبت کی ہلکی آنچ سے روشن ہے:
دوستی میں سوال کیا کرتا
دشمنی بے مثال کیا کرتا
جس کو پائے بغیر کھو بیٹھا
اس خوشی کا ملال کیا کرتا
جس نے سلمان خود نہیں پوچھا
اس سے میں عرض حال کیا کرتا
ایک اور شعر جو اظہار ذات اور صداقتوں کے امتزاج سے تخلیقیت کے عمل سے گزرا ہے۔
جذبوں کی شدتوں کے تماشے کچھ اور تھے
ایک عمر تھی اور اس کے تقاضے کچھ اور تھے
افلاس اور تعلیم سے محرومی کا ذکر اس طرح کیا ہے۔
بند کتابیں کوری کاپی خواب ادھورے رہ گئے ہیں
بچے گئے مزدوری کرنے گھر میں بستے رہ گئے ہیں