مادری زبان کا عالمی دن غور طلب حقائق
جن معاشروں میں شہریوں کے ساتھ امتیاز کیا جاتا ہے وہ بحران اور انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں
ISLAMABAD:
جس طرح کرہ ارض پر زندگی کے لیے حیاتیاتی تنوع ناگزیر ہے۔ اسی طرح سماجی زندگی میں امن ، اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ مختلف رنگ ، نسل ، مذہب ، صنف ، ثقافت ، اقدار اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان کوئی امتیاز نہ روا رکھا جائے بلکہ سب کو منصفانہ اور مساوی حقوق دیے جائیں۔ معاشرتی تنوع اور رنگا رنگی کو عذاب نہیں بلکہ رحمت تصور کیا جانا چاہیے۔
جن معاشروں میں شہریوں کے ساتھ امتیاز کیا جاتا ہے وہ بحران اور انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آج یہ خیال اس لیے ذہن میں آیا کہ ابھی چند دن پہلے پوری دنیا میں مادری زبان کا عالمی دن منایا گیا۔ اس حوالے سے پاکستان میں بھی کئی تقریبات منعقد کی گئیں جن میں اس امر پر زور دیا گیا کہ تمام مادری زبانوں کو مساوی حقوق دیے جائیں تاکہ عوام کے کسی بھی حصے میں احساس محرومی شدید تر ہوکر بحران کی شکل نہ اختیار کر لے۔
اس وقت دنیا میں سیکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ اتنی زیادہ زبانوں کی موجودگی سے دنیا کتنی رنگا رنگ اور خوبصورت بن گئی ہے۔ سب سے زیادہ بولی جانیوالی زبانوں میں انگریزی سرفہرست ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد ایک ارب تیرہ کروڑ ہے۔ اس زبان کی منفرد خوبی یہ ہے کہ اسے آسمان کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے کیونکہ جہاز اڑانے والے پائلٹ اس زبان میں اپنی شناخت کراتے ہیں۔
انگریزی کے بعد چینی زبان سب سے زیادہ بولی جاتی ہے، یہ ایک ارب گیارہ کروڑ لوگوں کی زبان ہے۔ ان دو زبانوں کے بعد ہندی، اسپینی، فرانسیسی، عربی، بنگالی اور روسی، زیادہ بولی جانیوالی زبانوں میں نمایاں ہیں۔ اردو گیارہویں درجے پر ہے جسکے بولنے والے سترہ کروڑ ہیں۔ دنیا میں کئی ملک ایسے ہیں جہاں شہریوں کی اکثریت ایک زبان بولتی ہے لیکن ایسے ممالک کی تعداد بہت زیادہ ہے جہاں ایک دو نہیں بلکہ درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔
زبان کا مسئلہ چونکہ بہت حساس ہے اس لیے زیادہ تر کثیر لسانی ملکوں میں ایک سے زیادہ زبانوں کو سرکاری درجہ دیا جاتا ہے۔ حکومت کی تمام سرکاری کارروائیوں کا ریکارڈ سرکاری زبانوں میں رکھا جاتا ہے، عدالتوں، تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں سرکاری زبانوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک سے زیادہ زبانوں کو سرکاری یا قومی زبان کا درجہ دینے سے کسی بھی ملک میں لسانی اور نسلی محاذ آرائی پیدا نہیں ہوتی بلکہ قومیتوں اور گروہوں میں اپنے وطن سے محبت اور وابستگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ زبانیں تہذیب اور ثقافت کا لازمی جزو ہوتی ہیں۔ ریاست شہریوں کی مادری زبانوں کو مساوی حیثیت دے کر ملک میں موجود ثقافتوں سے اپنے احترام کا اظہار کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے متعدد کثیر لسانی ممالک نے کئی زبانوں کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا ہے اور اسے باقاعدہ اپنے آئین کا حصہ بنا لیا ہے۔
اس عمل میں افریقا کا ملک زمبابوے دوسروں سے بہت آگے ہے۔ زمبابوے میں قومی سطح پر 16 زبانوں کو سرکاری زبان مانا گیا ہے۔ اس کے بعد ہندوستان آتا ہے جہاں 18 زبانوں کو آئینی درجہ دیتے ہوئے انھیں مختلف ریاستوں کی سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ زمبابوے ، ہندوستان سے اس طرح آگے ہے کہ اس نے اپنی 10 زبانوں کو علاقائی نہیں بلکہ قومی سطح پر سرکاری حیثیت دی ہے۔ جنوبی افریقا دنیا کے لیے کئی حوالوں سے دوسرے ملکوں کے لیے ایک مثال ہے۔
سفید فام نسل پرست اقلیتی حکومت کے بدترین دورسے گزرنے کے بعد جب اس ملک کو آزادی ملی تو اس ملک کی جمہوری حکومت نے ماضی کے بھیانک مظالم فراموش کر دیے اور انتقام کے بجائے نسلی اور لسانی ہم آہنگی کی شاندار مثالیں قائم کیں۔ جنوبی افریقا میں بھی 10 مقامی زبانوں کو آئینی طور پر سرکاری زبانوں کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کے بعد بولیویا کی باری آتی ہے جہاں آئینی طور پر 37 زبانوں کو علاقائی سطح پر سرکاری زبان تسلیم کیا جاتا ہے ، یہ تو محض چند مثالیں ہیں ورنہ ایسے ملکوں کی فہرست بہت طویل ہے۔
21 فروری کو مادری زبان کا بین الاقوامی دن منانے کا فیصلہ یونیسکو نے 1999 میں کیا تھا جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2002 میں ایک قرارداد کے ذریعے رسمی منظوری عطا کی تھی۔ اس مرحلے پر ذہنوں میں یقینی طور پر یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اس دن کو منانے کے لیے 21 فروری کے دن کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا تھا۔ یہ ایک دکھ بھری داستان ہے جسے میں یہاں ضرور بیان کرنا چاہوں گی کیونکہ زیادہ تر قارئین اس بارے میں یقینا کم ہی جانتے ہوں گے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان کے مغربی اور مشرقی دو بازو ہوا کرتے تھے ۔ مشرقی بازو کو مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا۔ ان دونوں حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔
ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں بنگال اور پنجاب بھی تقسیم ہوگیا۔ مشرقی بنگال جہاں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی اکثریت تھی پاکستان کا حصہ بن گیا۔ تحریک پاکستان میں مشرقی بنگال کے مسلمان سب سے آگے تھے لہٰذا جب انھوں نے پاکستان حاصل کرلیا تو انھیں یہ یقین تھا کہ جس ملک کو بنانے میں وہ پیش پیش تھے اس میں ان کی زبان، ثقافت اور معاشی و سیاسی مفادات کا احترام کیا جائے گا۔ ان کی امنگیں اور آرزوئیں بے پناہ تھیں جو پوری نہ ہوسکیں۔
1948 میں یہ اعلان کیا گیا کہ اردو ملک کی واحد قومی زبان ہوگی جب کہ پاکستانیوں کی اکثریت بنگلہ زبان بولتی تھی۔ اس اعلان نے مشرقی پاکستان میں رہنے والوں کو شدید صدمے سے دوچار کردیا۔ دستور ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان کے ارکان کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ بنگلہ زبان چونکہ مشرقی پاکستانیوں کی مادری زبان ہے لہٰذا اسے بھی دوسری قومی زبان کے طور پر قبول کیا جائے۔ ان کا مطالبہ اردو کی قومی حیثیت ختم کرنے کا نہیں بلکہ بنگلہ زبان کو بھی قومی زبان کا درجہ دینے کا تھا۔
یہ پاکستانیوں کی اکثریت کا مطالبہ تھا جسے اسے قبول کرلینا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا جس کے بعد مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان کی حمایت میں ایک زبردست تحریک کا آغاز ہوگیا۔ مارچ 1948 میں اس احتجاج کا آغاز ہوا جس کا مرکز ڈھاکا یونیورسٹی تھی۔ 21 فروری 1952 کو یہ تحریک اپنے نقطہ عروج پر پہنچتی ہے کہ جب ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبا کے احتجاجی جلوس پر پولیس کی جانب سے فائر کھول دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں چار نوجوان موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں یہ پہلی مثال تھی کہ لوگوں نے مادری زبان کی خاطر اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ زبردست عوامی تحریک سے مجبور ہو کر بنگلہ کو 1956 کے آئین میں قومی زبان تسلیم کرلیا گیا لیکن ملک کی بدقسمتی تھی کہ اس آئین کے نفاذ کا وقت ہی نہیں آیا۔ آئین کے تحت 1958 میں ہونے والے پہلے عام انتخابات کو روکنے کے لیے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔
جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی 1956 کا آئین منسوخ کردیا۔ بنگالی بولنے والے پاکستانیوں کی مادری زبان کو مساوی حق نہ دینے اور ملک پر فوجی آمریت مسلط کرنے کے بعد مشرقی پاکستان کے عوام میں محرومی کے شدید احساس کا جو نتیجہ نکلا وہ بنگلہ دیش کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔
انگریزوں کے دور میں صوبہ سندھ کی سرکاری زبان اور ذریعہ تعلیم سندھی تھی۔ آزادی کے بعد صورت حال بدل گئی۔ جس صوبے کی اسمبلی نے سب سے پہلے پاکستان کی تخلیق کے لیے ووٹ دیے تھے اب اس کے عوام وہ حقوق مانگ رہے تھے جو انھیں انگریزوں کے زمانے میں حاصل تھے۔ طویل جدوجہد کے بعد ون یونٹ کا خاتمہ ہوا جس کے کچھ ثمرات ملے لیکن بہت کچھ ابھی باقی ہے۔
بنگلہ دیش کے عوام ہر سال 21 فروری کو ''شہید مینار'' پر آکر اپنے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ دن سرکاری طور پر منایا جاتا ہے اور ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ یہاں یہ بھی ذکر کرتی چلوں کہ کینیڈا میں رہنے والے رفیق السلام اور عبدالصمد نامی دو بنگالی افراد کی جانب سے 1998 میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کوفی عنان کو ایک درخواست روانہ کی گئی جس میں یہ استدعا کی گئی تھی کہ دنیا میں مادری زبانوں کو معدومیت سے بچانے کی غرض سے 21 فروری کو مادری زبان کے بین الاقوامی دن کے طور پر منایا جائے۔
اس درخواست کو پہلے یونیسکو کی جانب سے نومبر 1999 میں متفقہ طور پر قبول کیا گیا۔ بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی2002میں 21فروری کو مادری زبان کا بین الاقوامی دن قرار دینے کا اعلان کردیا۔
یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ ثقافتی، لسانی، صنفی اور قومیتی تنوع کو قبول کرنے سے ہم آہنگی کی فضا پیدا ہوتی ہے، معاشرہ تقسیم نہیں بلکہ زیادہ مربوط اور مضبوط ہوجا تا ہے۔ یہ کلیہ سمجھ لیا گیا ہوتا تو بہت سے المیے اور بحران ہمارا مقدر نہ ہوتے۔