ٹریفک جام میں پھنسے افراد کی مدد کرنے والا ’’راجا پاکستانی‘‘

برسوں سے یہ کام کر رہا ہوں، 2017 میں رٹائرمنٹ کے بعد سے یہی کام روز کا معمول بن گیا


حفیظ تنیو March 01, 2022
ٹی وی پر ٹریفک جام کی خبر دیکھتے ہی فوراً لوگوں کی مدد کیلیے پہنچ جاتا ہوں، راجا ارشد ۔ فوٹو : ایکسپریس

ایک ایسا شہر جہاں اکثر ٹریفک جام رہتا ہے، راجا پاکستانی اکثر ایسی ہی سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں جو ٹریفک جام میں پھنسی گاڑیوں کی جانب سے تحاشا ہارن بجانے پر ان کیلیے راستہ بنانے میں ٹریفک پولیس کی مدد کرتے ہیں۔

کبھی کبھی یہ سب سے پیچیدہ معمے کو حل کرنے جیسا ہوتا ہے، بزرگ شخص جن کا اصل نام راجا ارشد علی ہے کا کہنا تھا کہ ''میں برسوں سے یہ کام کر رہا ہوں لیکن جب میں 2017 میں رٹائر ہوا، یہ میرے لیے روز کا معمول بن گیا ہے، میں ٹیلی وژن کی اسکرین پر چپکا رہتا ہوں، کسی بھی بڑے ٹریفک جام کی خبر کیلیے ٹکرز دیکھتا ہوں۔

اگر مجھے کوئی نظر آتا ہے تو میں اپنی ٹریفک کٹ پہنتا، اپنی موٹرسائیکل کو اسٹارٹ کرتا اور جتنی جلدی ہو سکتا مدد کرنے کے لیے سائٹ پر پہنچ جاتا ہوں، 65 سالہ شخص جسے ضلع جنوبی میں راجہ پاکستانی کے نام سے جانا جاتا ہے وہ شہر کی سب سے زیادہ ٹریفک والی سڑکوں بشمول کالا پل، ڈیفنس موڑ، قیوم آباد، تین تلوار، بوٹ بیسن اور قریبی علاقوں میں روزانہ 6 سے 8 گھنٹے وقت گزارتا ہے۔

بڑے واقعات کو یاد کرتے ہوئے جنھوں نے گھنٹوں ٹریفک جام کیے رکھا راجہ نے ایک بم کے بارے میں بتایا جو کچھ سال قبل جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کے گیٹ کے باہر نصب کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ انھوں نے کالا پل کے قریب دھماکے اور ڈی ایچ اے فیز ٹو میں الٹنے والے آئل ٹینکر کا بھی ذکر کیا، ان تمام حالات میںٹریفک کے بہاؤ کو برقرار رکھنے کیلیے 12 گھنٹے سے زیادہ لوگوں اور ٹریفک عملے کی مدد کرتا رہا۔

1957 میں جہلم میں ایک نیول پولیس آفیسر کے ہاں پیدا ہوئے راجہ کا خیال ہے کہ وہ اپنے والد کی طرح اپنے ملک کی مدد کرنا چاہتا ہے جبکہ کراچی جہاں ان کی جوانی گزری انھوں نے اپنی تعلیم حاصل کی یہ شہر ان کیلیے ایک خاص مقام رکھتا ہے۔

مجھے وہ دن اب بھی یاد ہے جب 2003 میں اسلام آباد میں ایک MNA مولانا اعظم طارق کو قتل کر دیا گیا تھا اور کراچی میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جس سے شدید ٹریفک جام ہوا تھا، لوگ گھنٹوں پھنسے رہے، میں آئل ریفائنری سے واپس آ رہا تھا جہاں میں کام کرتا تھا جب میں نے یہ منظر دیکھا تو اپنی موٹرسائیکل فٹ پاتھ پر کھڑی کرکے قیوم آباد چورنگی پر پولیس کے ساتھ مل کر ٹریفک کا انتظام کرنا شروع کر دیا، ہم نے اس وقت تک کام جاری رکھا جب تک کہ سڑکیں ہموار نہ ہوگئیں پھر ہم گھر کے لیے روانہ ہو گئے، مزید بات کرتے ہوئے راجہ نے کہا کہ پچھلے 30 سال میں ٹریفک قوانین کی بڑھتی ہوئی لاپرواہی دیکھی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں