پرتھوی راج نے کہا تم مسلمان نہ ہوتے تو ممبئی لے جاتا ممتاز براڈ کاسٹر بدر رضوان کی کتھا

ذوالفقار بخاری نے وزیراعظم کو فون کرنا چاہا، تو فوجی اہل کار نے ان کا ہاتھ کھینچ لیا


Rizwan Tahir Mubeen January 11, 2018
’نظام دکن‘ کے خلاف نظم لکھنے پر جوش ملیح آبادی کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا

وہ 1945 میں انٹر کے طالب علم تھے، جب حیدرآباد ریڈیو سے بطور اناﺅنسر وابستہ ہوئے وہی حیدرآباد ریڈیو، جس کے لیے کراچی ریڈیو کے خبرنامے میں شکیل احمد کہتے تھے کہ "آج دکن ریڈیو دن بھر برسرپیکار رہا"

یہ بٹوارے کے اگلے برس کا واقعہ ہے، جب 'ریاست حیدرآباد' اور آزاد ہندوستان کے درمیان چپقلش عروج پر تھی وہ کہتے ہیں "جنگ کے زمانے میں باقاعدہ اسکرپٹ لکھے جاتے تھے، دکن ریڈیو نے آخر تک اپنی لڑائی لڑی!"

سقوط حیدرآباد کے بعد دکن ریڈیو "آل انڈیا ریڈیو، دکن" ہو گیا۔ تقسیم سے پہلے دکن ریڈیو پر ملی جلی زبان چلتی تھی، جب کہ اب معمول کی نشریات کو 'ہندی' قرار دے کر انگریزی، عربی اور فارسی کی طرح 'اردو سروس' بھی الگ کر دی گئی۔ حیدرآباد کے سرنگوں ہونے کا باقاعدہ "جشن فتح" منایا گیا، جس میں شرکت کے لیے آنے والے آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل نے اُن کا تبادلہ 'اردو سروس' دلی میں کرنے کا مژدہ سنایا۔ انہوں نے اپنے امتحانات کے نتائج کا عذر کیا اور پھر سقوط کے تین ماہ بعد کراچی آگئے۔ یہ ممتاز براڈ کاسٹر بدر رضوان ہیں، جو بتاتے ہیں کہ "مسلم اقتدار ختم ہو گیا، ہماری تو زبان اور ذریعہ

تعلیم تک الگ تھا، کلینڈر بھی ایرانی مستعمل تھا، سقوط حیدرآباد کے بعد مسلمانوں کی ہجرت بہت تیزی سے ہوئی، 50 فی صد تعلیم یافتہ مسلمان 'جشن' سے پہلے ہی ہجرت کر گئے۔"

بدر رضوان کہتے ہیںکہ ہندو اکثریت کے باوجود بٹوارے سے پہلے حیدرآباد (دکن) میں کوئی مذہبی لڑائی نہ تھی، سب مل جل کر رہتے اور ہماری طرح اردو بولتے۔ 1947ءکے بعد اکثر مسلمان 'اتحاد المسلمین' کے حامی تھے، جو وہاں مسلم لیگ کا حصہ تصور کی جاتی، جب کہ ہندو کانگریس کے ہم نوا۔

بدر رضوان تحریک پاکستان کے راہ نما اور شعلہ بیاں مقرر نواب بہادر یار جنگ سے کئی بار ملے، کہتے ہیں کہ میں نے عطااللہ شاہ بخاری اور دیگر اعلیٰ پائے کے خطیبوں کو بھی سنا، لیکن بہادر یار جنگ جیسا مقرر نہیں دیکھا۔ یہ مشہور تھا کہ انہیں مبینہ طور پر کسی بڑے مسلم لیگی راہ نما نے حقے میں زہر دے کر قتل کیا۔

دکن ریڈیو سے وابستگی کے زمانے میں بدر رضوان نے "فلمی کہانی" شروع کی، جس میں وہ سینیما سے فلم کے دل چسپ حصے ریکارڈ کر لاتے اور پھر فلم کے خلاصے ساتھ سناتے۔ اس کے لگ بھگ 50 پروگرام کیے ہوں گے۔ یہ مقبول ترین پروگراموں میں سے ایک تھا۔ ان کے ذہن میں یہ تصور ایک انجینئر کے پاس کیسٹ ریکاڈر دیکھ کر آیا۔ ہجرت کے واسطے جب حیدرآباد سے ممبئی گئے، تو پروڈیوسر محبوب خان سے ملے، اُن دنوں وہ پہلی رنگین فلم 'آن' بنا رہے تھے، جس میں دلیپ کمار ہیرو تھے۔ وہاں پرتھوی راج کا اسٹیج ڈراما 'دیوار' دیکھا، جو ہندو مسلم مسئلے پر تھا، اس طویل ڈرامے کو بھی انہوں نے 'فلمی کہانی' کی طرز پر مختصر ریکارڈ کیا، جس پر پرتھوی راج خوش ہوکر بولے، کہ تم مسلمان نہ ہوتے، تو تمہیں ممبئی لے جاتا۔

دکن ریڈیو میں 'نظامِ دکن میر عثمان علی خان' پر تنقید کا موضوع چھِڑا تو انہوں نے کہا یہ ممکن نہ تھا'نظام' روزانہ شام کو اپنی سواری پر سیر کو نکلتے تھے، جوش ملیح آبادی نے اس پر ایک نظم کہہ دی کہ 'بادشاہ' لوگوں کو تکلیف دیتے ہوئے جاتے ہیں، جس کی پاداش میں 'نظام' کی جانب سے انہیں 'دارالترجمے' کی نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ بدر رضوان کے الفاظ میں انہیں کبھی 'نظامِ دکن' سے ملنے کی ہمت نہ ہوئی، ایک مرتبہ دکن ریڈیو کی طرف سے وہاں گئے، تو نظام سے گفتگو کے لیے مائیکروفون بھی انجینئر کو تھما دیا کہ مبادا کوئی غلطی نہ ہو جائے۔ اُن کے ساتھ مرزا ظفر الحسن اور عمر مہاجر بھی تھے۔

بدر رضوان براستہ کھوکھراپار کراچی پہنچے اور فوراً عبدالرشید ترابی سے ملے، جہاں تابش دہلوی، غلام عباس اور محشر لدھیانوی موجود تھے۔ یہ اشخاص ریڈیو سے منسلک تھے اور شام کو عبدالرشید ترابی کے پرچے کے لیے کام کرتے۔ عبدالرشید ترابی نے ذوالفقار علی بخاری کو فون کیا اور بدر رضوان کا تعارف کرا کے بتایا کہ یہ آپ کے لیے اثاثہ ثابت ہوں گے۔

بدر رضوان بتاتے ہیں کہ اُن دنوں بندر روڈ پر ریڈیو کی عمارت سج رہی تھی، یہ دکن ریڈیو سے وسیع جگہ تھی، یہاں اُس وقت کے صف اول کے لوگ جمع ہوتے تھے۔ وہ ذوالفقار بخاری سے ملے، وہاں کرار حسین و دیگر لوگ بھی بیٹھے تھے، کہنے لگے تم حیدرآبادیوں نے مشکل ارود اصطلاحات سے زبان کا بیڑہ غرق کردیا۔ پھر انہوں نے دکن ریڈیو کے کام سے متعلق پوچھا اور اُن کی 'کمنٹری' سننے کے لیے ڈیوٹی روم کی کھڑکی کھول دی کہ بتائیے، وہاں کیا دیکھ رہے ہیں، انہیں بس سڑک کا نام پتا چلا کہ اسے بندر روڈ کہتے ہیں، اس کا احوال کہا اور پھر کچھ ایرانی ہوٹل کی چہل پہل بیان کی، یوں وہ تقریباً آٹھ منٹ بولے، انہیں کام یاب قرار دیا گیا اور بتایا کہ ہمارے پاس اناﺅنسر 150 روپے ماہانہ پر تھے، اب 170 روپے دیتے ہیں، آپ چوں کہ اسکرپٹ بھی لکھ لیتے ہیں، اس لیے ہم 170 روپے سے شروع کرتے ہیں۔ دکن ریڈیو میں تنخواہ 210 روپے تھی، مگر وہاںکا روپیا یہاں سے کم تھا۔

تنخواہ طے ہونے کے بعد انہوں نے کہا کل جواب دوں گا، اس کے بعد سوچا کہ شاید بینک میں اس سے زیادہ تنخواہ مل جائے، مگر وہاں 150 روپے کی پیش کش ہوئی، یوں وہ بطور اناﺅنسر ریڈیو پاکستان سے جڑ گئے۔ یہاں نئے پینل پر کام کرناسیکھا، پھر جلد ہی کنٹریکٹ پروڈیوسر ہوگئے، 1951ءمیں خبرنگار (نیوز ریڈر) بن گئے۔ شکیل احمد اور تابش دہلوی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ کہتے ہیں کہ جب مختلف تقاریب اور سرگرمیوں کے 'رواںتبصرہ' شروع کیا، تو اس سے وقعت بڑھ گئی۔ کھیلوں پر رواں تبصرے کا کبھی موقع نہ ملا۔ اس کے علاوہ ریڈیو پر روزانہ مسائل پر مبنی پروگرام 'ہمیں شکایت ہے' کرتے۔

کراچی دارالحکومت تھا، اس لیے قومی دنوں پر سربراہان مملکت خصوصی تقاریب میں شرکت کرتے، پولو گراﺅنڈ میں پریڈ ہوتی، پھر فوجی دستے ہتھیاروں کے ساتھ شہر میں گشت کرتے۔ آئے روز مختلف ممالک کے سربراہان کی آمدورفت ہوتی، جس کے سبب بدر رضوان اکثر ائیرپورٹ سے آنکھوں دیکھا حال سامعین کے گوش گزار کراتے۔ انہوں نے پرنس کریم آغا خان کی ڈائمنڈ جوبلی کی تقریب کی کمنٹری بھی کی، کہتے ہیں کہ ایسا شان دار فنکشن نہیں دیکھا، یہاں ان کے لیے بطور خاص شیشے کا اسٹوڈیو بنایا گیا تھا۔

1958ءکا مارشل لا لگا، تو بدر رضوان مارٹن روڈ پر رہتے تھے، علی الصبح ریڈیو اسٹیشن پہنچے، تو باہر فوجی کھڑے تھے اور اندر بھی باوردی جوان تھے، کہتے ہیں کہ بڑی خاموشی سے یہ سارا قبضہ ہو گیا۔ اسٹیشن ڈائریکٹر ذوالفقار علی بخاری نے وزیراعظم سے رابطے کے لیے فون کرنا چاہا، تو ایک فوجی اہل کار نے ان کا ہاتھ کھینچ لیا۔

بدر رضوان کی ریڈیو کی نوکری مستقل نہ تھی، چناں چہ 1950ءمیں یہ ترک کی اور کنٹریکٹ پر بہ یک وقت ریڈیو پاکستان اور نجی پیمانے پر بھی کام کرنے لگے۔ اپنا اسٹوڈیو 'محمدی ہاﺅس' بنایا، جہاں دستاویزی پروگرام ریکارڈ کرتے، ریڈیو پر آدھے گھنٹے کے مکمل پروگرام کے دو، ڈھائی سو روپے مل جاتے۔ ہر ہفتہ، پندرہ دن میں ایک پروگرام بناتے، بعض پروگراموں میں زیادہ وقت بھی صرف ہوتا، کیوں کہ دستاویزی پروگرام کے لیے مکمل اعدادوشمار اور معلومات درکار ہوتی ہیں۔ بدر رضوان کہتے ہیں کہ آدھے گھنٹے یا پندرہ منٹ کا پروگرام بنانا آسان ہے، لیکن تین منٹ میں بہت سی باتیں سمونا مشکل ہے۔ اس دوران انہوں نے امریکی سفارت خانے کے پروگرام 'ہینڈز اکروس دی سی' بنایا، جس کے معقول پیسے ملے، وائس آف امریکا کے لیے بھی کام کیا۔

ہم نے دستاویزی پروگراموں کا شمار جاننا چاہا، تو انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس کوئی مستند ریکارڈ نہیں، لیکن لگ بھگ 100 کے قریب دستاویزی پروگرام بنائے ہوں گے۔ ریڈیو کے 'آرکائیو' میں بہت سے پروگرام محفوظ ہیں، 2007ءمیں ریڈیو پاکستان (کراچی) کی پرانی عمارت میں آتش زدگی کے سبب ان کے بہت سے ریکارڈ خاکستر اور بہت سے خراب ہوگئے۔

بدر رضوان نے پی ٹی وی کے لیے بھی ایک دستاویزی پروگرام تیار کیا، جو 'جذام' سے متعلق تھا۔ کہتے ہیں کہ میں اس پروگرام میں ہاتھ اور پیروں کی کارکردگی پر مرکوز ہوئے، کیوں کہ یہ مرض سب سے زیادہ ہاتھ پیروں کو متاثر کرتا ہے اور مریض کی زندگی کس قدر متاثر ہو جاتی ہے۔ اس میں متاثرہ افراد سے بات کی گئی۔ پی ٹی وی پر اس دستاویزی فلم کو نشر کرنے پر اعتراضات کیے گئے کہ کیا اب ٹی وی پر جذام زدہ ہاتھ دکھائے جائیں گے۔ جس کے بعد بیگم اصفہانی نے بالائی سطح پر بات کی اور یوں یہ فلم نشر ہو سکی۔

بدر رضوان نے قائد ملت لیاقت علی خان سے نواز شریف تک تمام وزرائے اعظم کو کور کیا، سوائے بے نظیر بھٹو کے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ بے نظیر کو برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا تھا، کیوں کہ ایک صحافی اُن کے بولتے ہوئے مائیک منہ کے بالکل قریب لے آیا تھا، اس کے بعد پھر کبھی میری ہمت نہ ہو سکی۔ لیاقت علی خان کے قریب رہے اور ایک بار ضیا الحق نے اپنی گاڑی میں بھی بٹھالیا۔ 'مہاجر قومی موومنٹ' کے اوائل میں الطاف حسین سے بھی گفتگو کی، ہم نے پوچھا کس حیثیت میں؟ تو بتایا کہ مقامی راہ نما کے طور پر، جب شاید 1987ءکا بلدیاتی چناﺅ بھی نہ ہوا تھا اور انہوں نے مہاجروں کی نمائندگی کے حوالے سے بات کی تھی۔

بدر رضوان نے اپنی کتب بہادیارجنگ لائبریری اور غالب لائبریری کو عطیہ کردیں۔ سیاحتی مقام میں انہیں اسپین پسند ہے۔ کہتے ہیں کہ دکن میں امجد حیدر آبادی سے اچھا شاعر نہیں دیکھا، اُن کا کلام سناتے ہیں

گرمی میں غمِ لبادہ نازیبا ہے
مستی میں خیالِ بادہ نازیبا ہے

کافی ہے ضرورت کے موافق دنیا
جامہ قد سے زیادہ نازیبا ہے

بدر رضوان کو نثر میں اشفاق حسین زیادہ پسند ہیں۔ ہندوستانی فلموں کا معیار بلند مانتے ہیں، نور جہاں کی گائیکی اور دلیپ کمار اور پرتھوی راج کی کلا بہت بھاتی ہے۔ دستاویزی پروگراموں کو اپنی بڑی کام یابی تصور کرتے ہیں۔ 'ریڈیو پاکستان' پر ساری زندگی 'کنٹریکٹ' پر رہے، بقول بدر رضوان اگر مستقل ملازم ہوتا تو نجی کام نہیں کر سکتا تھا۔ امریکی سفارت خانے کے چار ہزار کمانا آسان بات تو نہ تھی۔ 2007ءتک فعال رہے، اب بھی کبھی ریڈیو والے بلاتے ہیں تو چلا جاتا ہوں۔

بدر رضوان کو چار مرتبہ مختلف زمروں میں نگار ایوارڈ ملے، جن میں اناﺅنسمنٹ، نیوز اور دستاویزی پروگرام شامل ہیں۔ ان دنوں 'ایف ایم' چینلز کی بہتات کی بات ہوئی، تو وہ معیار سے مطمئن دکھائی نہیں دیے اور بتایا کہ وہ ریڈیو زیادہ نہیں سنتے، ٹی وی بھی بس کبھی کبھی دیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اب میرا حافظہ ضعیف ہو رہا ہے، بہت سی باتیں ذہن سے محو ہو چکی ہیں، بینائی بھی ختم ہو رہی ہے۔

جب قائد اعظم حیدرآباد آئے

1946ءمیں قائد اعظم حیدرآباد میں دو سگریٹ کمپنیوں کے درمیان مقدمے میں ایک فریق کی طرف سے وکیل مقرر ہوئے۔ وہاں وہ 'نظامِ دکن' کے مہمان خانے میں ٹھیرے، جہاں انہیں دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ اُمڈ آئے، بدر رضوان نے بھی یہاں پہلی اور آخری بار قائداعظم کو دیکھا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ یہ مقدمہ تین دن چلے گا، اس حساب سے انہوں نے اپنے موکل سے تین ہزار روپے فیس لی، لیکن جب دوسرے روز ہی مقدمہ ختم ہوگیا، تو انہوں نے ایک ہزار روپے واپس کر دیے۔ وہاں قیام کے دوران قائداعظم نے 'نظامِ دکن' سے بھی ملاقات کی، کہتے ہیں کہ اس دوران قائداعظم نے سگریٹ جلا لیا، تو 'نظام' نے شدید خفگی کا اظہار کیا، جس پر قائداعظم نے سگریٹ بجھا دیا۔ کہتے ہیں کہ نظام اِسے بدتمیزی تصور کرتے تھے، وہ اُس وقت دنیا کے رئیس ترین آدمیوں میں سے ایک تھے۔ میں نے اُن کے سونے سے لدے ہوئے وہ ٹرک بھی دیکھے ہیں، جس کے پہیے بوجھ کی وجہ سے دھنس گئے تھے۔

سقوط حیدرآباد کا "جشن فتح"

17ستمبر 1948ءکو 'دکن' کی آزاد حیثیت ختم ہونے کے بعد ہندوستان کی جانب سے ہفت روزہ "جشن فتح" منایا گیا۔ جس میں بدر رضوان کا دل مغموم تھا، مگر ریڈیو پر پیشہ ورانہ ذمے داریاں ادا کرنا پڑیں۔ اس سلسلے میں کانگریسی راہ نما ولبھ بھائی پٹیل ایئر پورٹ سے وہاں کے مشہور 'فتح میدان' پہنچے، تو ریڈیو پر آنکھوں دیکھا حال سنانے کے واسطے بدر رضوان متعین تھے، انہوں نے کہا 'یہ وہی میدان ہے، جس میں حیدرآباد کی شکست کے بعد حضرت اورنگ زیب نے خطاب کیا تھا، جس کے سبب اس میدان کا نام 'فتح میدان' پڑا، اور آج یہاں سردار پٹیل خطاب کرنے آرہے ہیں۔" کہتے ہیں کہ 'وہاں کے مسلمانوں نے اس کا بہت برا منایا کہ بھلا یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔' جب کہ ہماری دانست میں اسے پٹیل کو ایک حملہ آور سے تشبیہہ دینا بھی سمجھا جا سکتا تھا۔

بدر ضوان بتاتے ہیں کہ اس جشن میں حکومتی عمائدین کے ساتھ شمالی ہندوستان کی کئی نامی گرامی شخصیات حیدرآباد آئیں، اور انہیں اس کے بعد کبھی بہ یک وقت اتنی ساری بڑی شخصیات کو قریب سے دیکھنے کا موقع نہ ملا۔ مولانا ابوالکلام آزاد تو بہادریار جنگ سے تعلقات کی بنا پر پہلے بھی آتے رہے تھے اور سقوط حیدرآباد تک دیگر لیگی راہ نماﺅں کی بھی آزادانہ آمدورفت تھی۔ جوش ملیح آبادی نے اس جشن کے مشاعرے کی صدارت کی اور کیفی اعظمی، علی سردار جعفری، پریم دھون، امجد حیدرآبادی و دیگر شعرا شریک ہوئے۔

"بنگال کی محرومی کا ذکر کرتا، تو ملک کے خلاف سمجھا جاتا"

جنرل ایوب خان کے اقتدار کے 10 برس پورے ہونے پر بدر رضوان نے ریڈیو پاکستان کے لیے سلسلہ وار پروگرام 'ڈیکیڈز آف ریفارمز' (Decade of Reforms) بنایا، جسے ایوب خان نے بہت سراہا۔ اس سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں گئے، مشرقی پاکستان میں حالت یہ تھی کہ ڈاک خانے میں ڈائریکٹر جنرل سندھ یا پنجاب کے تھے، جب کہ پوسٹ ماسٹر بنگالی تھا، کہتے ہیں کہ مشرقی بازو میں تو ترقی نہ ہوئی تھی، لیکن اگر وہ وہاں کی حالت زار کا تذکرہ کر دیتے، تو یہ ملک کے خلاف سمجھا جاتا۔ کہتے ہیں کہ جب اسلام آباد تعمیر ہو رہا تھا تو شیخ مجیب نے زیر تعمیر سڑک پر ہاتھ لگا کر ذوالفقار بھٹو سے کہا تھا کہ یہ سب مشرقی پاکستان کا ہے، جس سے یہ شہر تعمیر کیا جا رہا ہے۔'

'رشتے داروں سے دوری کا قلق ہے'

بدر رضوان نے 1930ءمیں حیدرآباد، دکن میں آنکھ کھولی، تین بھائی اور چار بہنوں میں ان کا درجہ چوتھا تھا، والد پولیس میں ایس پی تھے، جس کے سبب گھر میں نظم وضبط کی بہت پابندی کی جاتی تھی۔ والد کتے پالنے کے شوقین تھے، بچوں کی تعلیم کے معاملے میں سخت تھے، گھر میں "پھول" اور "پیام تعلیم" کی باقاعدہ جلدیں بنی ہوئی تھیں۔ گھر میں ہی سرسید احمد خان کی 'آثار الصنادید' کی تمام جلدیں بھی پڑھی۔ سرکاری مدرسے کے بعد ہائی اسکول اور کالج میں زیر تعلیم رہے، اسکول کے زمانے سے ہی تقریری مقابلوں میں کام یابیاں حاصل کیں، کالج میں طلبہ یونین کے نائب صدر بھی ہوئے۔ انگریزی میڈیم 'نظام کالج' میںانگریزی مباحثے کا بھی حصہ بنے، جس کی صدارت پدم جا نائیڈو (سروجنی نائیڈو کی بیٹی) کر رہی تھیں۔ حیدرآباد کے شکست کے سال بدر رضوان نے بی کام کا امتحان دیا۔ بڑے بھائی شرف الدین احمد بیورکریسی میں تھے، یہاں نہ آئے اور وہیں جج ہو کر ریٹائر ہوئے۔

بدر رضوان ہجرت سے پہلے پھوپھی کی بیٹی سے رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے، یہ رشتہ بہن کی طرف سے طے کیا گیا۔ شادی کے وقت شریک حیات نے میٹرک کیا تھا، کراچی آنے کے بعد اردو ادب میں ایم اے کیا۔ اُن کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، ایک بیٹا اب حیات نہیں۔ بہت سے بچوں کے بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ بدر رضوان کے والد حیدرآباد میں ہی فوت ہو چکے تھے، جب کہ والدہ یہاں آئیں۔ وہ دوبارہ حیدرآباد نہ جا سکے، بہت سے رشتے دار وہیں رہ گئے، جن سے دوری کا انہیں بہت قلق ہے۔

 

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں