عمران خان اور چوہدری برادران میں ملاقات
ملاقات میں عمران خان اور ان کی ٹیم نے عدم اعتماد اور چوہدری برادران کی اپوزیشن سے ملاقاتوں پر کوئی بات ہی نہیں کی
ISLAMABAD:
سیاست دانش اور عقل و حکمت کا کھیل ہے۔ اس میں آپ ٹھیک کام غلط انداز میں کریں تو اچھا خاصا کام بھی خراب ہو جاتا ہے، جب کہ اگر آپ غلط کام بھی درست انداز میں کریں تو اس پر بھی واہ واہ ہونے لگ جاتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان دورہ لاہور کے دوران چوہدری شجاعت کی خیریت دریافت کرنے چوہدری برادران کے گھر تشریف لے گئے۔ ایک ایسے موقعے پر جب اپوزیشن ق لیگ اور چوہدری برادران کو ساتھ ملانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ عمران خان کی جانب سے صحیح ٹائمنگ پر یہ صحیح چال تھی۔ انھیں تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے اپنے اتحادیوں کے پاس جانا چاہیے۔
عمران خان کا چوہدری برادران کے گھر جانا صحیح کام غلط انداز میں کرنے کی ایک کلاسک مثال ہے۔ اگر عمران خان نے چوہدری برادران کے گھر جانا ہی تھا تو انھیں پوری تیاری سے جانا چاہیے تھا۔ صبح سے میڈیا میں خبریں چل رہی تھیں کہ آج دورہ لاہور کے موقعے پر وزیر اعظم عمران خان چوہدری برادران کے گھر جائیں گے۔ لیکن کہیں سے بھی اس کی کوئی تصدیق نہیں ہو رہی تھی۔
چوہدریوں کو بھی اس کا کوئی علم نہیں تھا۔ اسی لیے شام کو جب عمران خان کے اسٹاف نے چوہدری مونس الٰہی سے رابطہ کیا تو وہ اپنے حلقہ انتخاب گجرات میں تھے۔ اگر چوہدری مونس الہیٰ کو علم ہوتا کہ عمران خان نے ان کے گھر آنا ہے تو وہ کبھی گجرات نہیں جاتے۔ وہ وفاقی وزیر بھی ہیں اور ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ ق لیگ میں اس وقت چوہدری مونس الہیٰ ہی عمران خان کا سب سے مضبوط ووٹ ہیں۔ اس لیے مونس الہیٰ کا موجود نہ ہونا عمران خان کے لیے نقصان کا باعث ہوا۔ اگر جانا ہی تھا تو چوہدریوں کو بروقت اطلاع کی جانی چاہیے تھی تا کہ وہ سب موجود ہوتے۔
اسی طرح جب عمران خان کے دفتر سے چوہدری پرویز الہیٰ کو اطلاع دی گئی کہ وزیر اعظم عمران خان ان کے گھر چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کرنے کے لیے آرہے ہیں تو چوہدری پرویز الہیٰ اپنے ایک دوست کے والد کی وفات پر تعزیت کے لیے ڈیفنس گئے ہوئے تھے۔ڈیفنس اور چوہدری برادران کے گھر کے درمیان آدھے گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ بہرحال وزیر اعظم ہاؤس کو بھی جلدی تھی اور چوہدری پرویز الہیٰ جلدی جلدی واپس گھر پہنچے۔ لیکن مونس الہیٰ کا گجرات سے پہنچنے کا کوئی چانس ہی نہیں تھا۔ لگتا ہے چوہدری برادران کے گھر جانے کے حوالے سے عمران خان کے کیمپ میں کافی کنفیوژن تھی۔
اسی لیے وہاں شام تک فیصلہ نہیں ہو سکا کہ جانا بھی ہے کہ نہیں۔ اب جب عمران خان اپنے ساتھ وفاقی وزراء کی ایک فوج ظفر موج لے کر چوہدری برادران کے گھر پہنچ ہی گئے تو انھیں وہاں کھل کر بات کرنی چاہیے تھی۔ ان سے پوچھنا چاہیے تھا کہ آپ کو مجھ سے کیا شکایات ہیں۔ آپ کیوں اپوزیشن کے ساتھ مل رہے ہیں۔ کیوں آپ اپوزیشن کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ آدھے گھنٹے کی ملاقات میں عمران خان اور ان کی ٹیم نے عدم اعتماد اور چوہدری برادران کی اپوزیشن سے ملاقاتوں پر کوئی بات ہی نہیں کی۔ عمران خان نے بس ایک فقرہ کہا کہ اب تو لوگ چودہ چودہ سال بعد آپ کی عیادت کرنے آرہے ہیں۔
اس پر سب نے قہقہہ لگایا۔ لیکن اس کے بعد خود عمران خان نے ہی بات موڑ دی اور اپنے دورہ روس کے بارے میں بات کرنی شروع کر دی۔ مہنگائی کم کرنے کے لیے جو ریلیف پیکیج دیا ہے اس پر بات کرنی شروع کر دی۔ جس پر چوہدری پرویز الہیٰ نے بھی انھیں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے تجاویز دیں۔ اس کے بعد یہ ملاقات ختم ہو گئی۔ اس طرح اس ملاقات میں اصل مدعے پر کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔
ویسے بھی میں سمجھتا ہوں عمران خان کو اکیلے چوہدریوں کے گھر جانا چاہیے تھا اور اتنی بڑی وزرا کی فوج ظفر موج کی موجودگی میں کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔ اور اگر سب کو لے بھی گئے تھے تو پھر چوہدری پرویز الہیٰ سے علیحدگی میں بات کرنی چاہیے تھی جس کی سیاسی روایت بھی موجود ہے تا کہ بات طے ہو سکتی۔ کیونکہ جب تک آپ بات نہیں کریں گے بات طے نہیں ہو سکتی۔
میری خیال میں چوہدری سوچتے ہی رہ گئے ہونگے کہ اب عمران خان اصل ایجنڈے پر بات کریں گے لیکن عمران خان نے انھیں سرپرائز دیتے ہوئے اصل ایجنڈے پر بات ہی نہیں کی۔ میرے لیے عمران خان کی یہ حکمت عملی نا قابل فہم ہے۔
اب جب عمران خان چوہدریوں کے گھر پہنچ ہی گئے تھے تو ان کی کوشش ہونی چاہیے تھی کہ چوہدری پرویز الہیٰ ان کے ساتھ باہر کھڑے میڈیا کے سامنے کہہ دیں کہ ہم عمران خان کے ساتھ ہیں اور ہم نے عدم اعتماد کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم عمران خان کے ساتھ ہیں۔ اگر ایسا ہو جاتا تو اپوزیشن کے غبارے سے کافی حد تک ہوا نکل جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے عدم اعتماد ابھی بھی زندہ ہے۔
اسی طرح اس ملاقات کے بعد وزیر اعظم ہاؤس نے میڈیا کو ٹکر جاری کر دیے جس میں عمران خان کی حمایت اور عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ نہ دینے کا اعلان شامل تھا۔ لیکن جواب میں چوہدری برادران نے اپنے گھر سے جو پریس ریلیز جاری کی اس میں ایسی کوئی بات نہیں۔ ایک ہی ملاقات کے دوواضح موقف میڈیا کے سامنے آگئے۔
اس حوالے سے جب چوہدری برادران کے قریبی ذرائع سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا ملاقات میں عدم اعتماد پر بات ہی نہیں ہوئی ہم کیسے اپنی پریس ریلیز میں اس کا ذکر کر دیں۔ اسی طرح ق لیگ کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے بھی میڈیا میں آکر کہہ دیا کہ ملاقات میں عدم اعتماد پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ اور ابھی ہم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ ہم عدم اعتماد کی حمایت کریں گے کہ نہیں۔ یعنی ق لیگ نے وزیر اعظم ہاؤس کے موقف کی نفی کر دی۔