اتحادی جماعتوں کی سیاست اور چوہدری برادران

مسلم لیگ ق حکومت کی اہم اتحادی جماعت ہے


سلمان عابد March 04, 2022
[email protected]

ایسی حکومت جو اتحادی جماعتوں کی بنیاد پر کھڑی ہو یا اس کی عددی برتری کا براہ راست تعلق اتحادی جماعتوں کے ووٹوں پر ہو تو اسے یقینی طور پر سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پارلیمانی جمہوری سیاست میں حکومت اور اتحادی جماعتوں کی سیاست میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اقتدار کے کھیل کی آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے۔ اتحادی جماعتیں بھی وقتا فوقتا مختلف حکومت مخالف بیانات یا حکومتی حمایت کے برعکس ایسے بیانات دیتی رہتی ہیں جو خود حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔اس وقت ''تحریک اعتماد '' کو لے کر کر سیاسی تبدیلی پر بات ہو رہی ہے۔

حزب اختلاف کے دونوں سیاسی دھڑے جس میں پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی شامل ہیں کے بقول ان کا لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتماد عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرنے کا سبب بنے گی۔

اس وقت حکومتی اتحادی جماعتیں جن میں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی سمیت سندھ ڈیموکریٹک الائنس عملا حکومت کی حمایت میں کھڑی ہیں ۔ لیکن حزب اختلاف حکومتی اتحادی جماعتوں میں شگاف ڈال کر انھیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کررہی ہیں۔ اس وقت اتحادی جماعتوں کی حکومت اورحزب اختلاف دونوں کی طرف سے آو بھگت ہورہی ہے۔

مسلم لیگ ق حکومت کی اہم اتحادی جماعت ہے اورپنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بننے اور اس کے قائم رہنے میں مسلم لیگ ق اور چوہدری برادران کا بڑا کردار ہے۔ کافی عرصہ سے یہ خبریں عام تھیں کہ مسلم لیگ ق اور حکومت کے درمیان بداعتمادی موجود ہے۔ حالیہ دنوں میں چوہدری برادران اور حزب اختلاف کے درمیان باہمی رابطوں نے ایسی باتوں کو تقویت دی۔

مسلم لیگ ق اور حکومت کے درمیان کئی مواقع ایسے آئے جب یہ لگتا تھا کہ چوہدری برادران حکومت سے نالاں ہیں ۔لیکن چوہدری برادران کو یہ داد دینی ہوگی کہ انھوں نے اپنے تمام تر اختلافات اور حکومت کی جانب سے نظر انداز کرنے کی پالیسی کے باوجود ہر اس محاذ پر حکومت کی حمایت کی جہاں حکومت کو اس کی ضرورت تھی۔ حزب اختلاف کی سیاست کی گرم جوشی نے حکومت کی اتحادی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ق کی اہمیت بڑھادی۔

یہ تجویز بھی پیپلزپارٹی اور فضل الرحمن کی طرف سے سامنے آئی کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے میں چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر بھی قبول کیا جاسکتا ہے ۔خود مسلم لیگ ن کے راہنما رانا ثنا اللہ کے بقول عمران خان کی حکومت کے خاتمہ میں چوہدری پرویز الہی کو بطور وزیر اعلیٰ قبول کیا جاسکتا ہے ۔لیکن مسلم لیگ ن کے لوگوں نے رانا ثنا اللہ کی بات سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ ایسی کوئی تجویز پارٹی میں زیر غور نہیں ۔

چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی ایک اچھی اتحادی ہیں ۔ وہ سیاسی مخالفین کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اچھی صلاحیت بھی رکھتی ہے ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سیاست کو بند دروازے کی طرف نہ لے جایا جائے۔تحریک انصاف کے ساتھ ا ن کا بنیادی جھگڑا حکومت اہم فیصلہ سازی میں انھیں شامل نہیں کرتی۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ خود وزیر اعظم بھی لاہور آمد پر ان سے ملنے سے گریز کرتے تھے ۔

لیکن وزیر اعظم عمران خان پر جب حزب اختلاف کا سیاسی دباو بڑھا اور تحریک عدم اعتماد کی سیاست کا کھیل غالب ہوا تو وزیر اعظم کو بھی اپنی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی کرنا پڑی۔ وزیر اعظم عمران خان اور چوہدری برادران میں ہونے والی لاہو رمیں حالیہ ملاقات نے یقینی طور پر چوہدریوں اور وزیر اعظم دونوں کے ایک دوسرے کے بارے میں اعتماد کو بحال کیا ہوگا۔

وزیر اعظم عمران خان او رچوہدری برادران کی لاہور میں ہونے والی ملاقات اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے بیانات نے حزب اختلاف کی پریشانی میں اضافہ کیا ہے ۔اصولی طور پر چوہدری برادران سمجھتے ہیں کہ اگر انھوں نے پنجاب میں اپنی سیاسی قوت کو بڑھانا ہے تو ان کے پاس تحریک انصاف کے علاوہ کوئی اور بڑی سیاسی چوائس نہیں۔ چوہدری برادران جانتے ہیں کہ پنجاب کی بڑی سیاسی طاقت مسلم لیگ ن اول تو ان کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گی او رنہ ہی وہ ان کو کسی بڑے کردارمیں دیکھنا چاہتی ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ق خود کو مسلم لیگ ن میں ضم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں او راپنی علیحدہ سیاسی شناخت کو ہی آگے لے کر چلنا چاہتی ہے ۔ مسلم لیگ ق کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ حالیہ دنوں میں مسلم لیگ ن کی محبت ان کے بارے میں جاگنے کی واحد وجہ عمران خان دشمنی ہے اوروقت گزرنے پر مسلم لیگ ن کی سیاست ان کے بارے میںوہی ہوگی جو ماضی میں رہی ہے ۔

مسلم لیگ ق کے سامنے ایک بڑا ہد ف پنجاب کے مقامی حکومتوں کے انتخابات او ربعد میں 2023 کے عام انتخابات ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف کے ساتھ ان کے سیاسی معاملات اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ بہتر انداز میں ہوئی تو اس کا سیاسی فائدہ ان کی اپنی جماعت کو بھی ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ اگرچہ مسلم لیگ ق کے تعلقات بہتر ہیں مگر وہ جانتے ہیں کہ پنجاب کی سیاسی حقیقت مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی ہی ہیں ۔

اس لیے چوہدری برادران کو پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد ہی فائدہ مند لگتا ہے ۔ خود تحریک انصاف کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ واقعی مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنے موجودہ طرز عمل پر بھی نظرثانی کرنی چاہیے ۔ مسلم لیگ ق کی قیادت کو ساتھ لے کر چلنا اور اہم فیصلہ سازی میں ان کی مشاورت کو یقینی بنا کر ہی دو طرفہ اتحاد آگے بڑھ سکتا ہے ۔

پہلا سیاسی معرکہ متوقع مئی میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہیں او ران انتخابات میں اگر دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ آگے بڑھیں تو زیادہ بہتر نتائج مل سکتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پنجاب کی دیہی سیاست میں مسلم لیگ ق اپنی بہتر سیاسی پوزیشن رکھتی ہے اور دونوں مل کر شہری اور دیہی سیاست میں براہ راست ہونے والے مضبوط سیاسی امیدواروں کو میدان میں اتار سکتی ہے ۔

وزیر اعظم عمران خان نے موجودہ سیاسی دباو میں اتحادی جماعتوں او ربالخصوص مسلم لیگ ق کے ساتھ جو پرجوشیت دکھائی ہے اس حکمت عملی کو محض وقتی طو رپر یا بحران کے تناظر میں نہیں لینا چاہیے ۔ یہ حکمت عملی مستقل بنیادوں پر اختیار کی جانی چاہیے اور دیگر اتحادی جماعتوں کو بھی جو تحفظات ہیں ان کو دور کرکے 2023 کے انتخابات میں حکومتی جماعت کو نئی سیاسی صف بندی کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔

اسی طرح اتحادی جماعتوں او رمسلم لیگ ق کو بھی اس تاثر کی نفی کرنی چاہیے کہ مشکل وقت میں وہ حکومت پر دباو ڈال کر اپنی قد بڑھانا چاہتی ہے یا اپنی سیاسی ڈیمانڈ رکھ کر حکومت کو مشکل میں ڈالتی ہے ۔

تحریک انصاف کا یہ گلہ بھی کافی حد تک بجا ہے کہ اتحادی جماعتیں اچھے کاموں میں تو حکومت کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن حکومت کی مشکل میں اپنا کردار کو علیحدہ کرکے دیکھ کر سارا بوجھ حکومت پر ڈالتی ہے ۔اس لیے مستقبل میں اگر دونوں جماعتوں پی ٹی آئی او رمسلم لیگ ق نے مل کر آگے بڑھنا ہے تو دونوں اطراف سے جو بھی بداعتمادی ہے اسے ختم کرکے مشبوط تعلقات کی بنیاد پر سیاسی معاملات، اتحاد اور تعلقات کو آگے بڑھانا چاہیے او راسی میں دونوں جماعتوں کا سیاسی مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں