بہت مشکل فیصلوں کا مرحلہ
موجودہ صورتحال میں سب سے بڑا ڈر یہ ہے کہ یہ لڑائی کہیں یوکرینی سرحدوں سے باہر نہ پھیل جائے
ویسے تو چند صدیوں سے مسلمان مار کھاتے آ رہے ہیں لیکن پچاس ساٹھ سال سے تباہی اور بربادی صرف مسلمانوں کا مقدر رہی ہے۔ اس دور میں جتنے بھی تنازعے پیدا ہوئے ان کا ایک فریق ضرور مسلمان رہا ہے۔
Irony یہ ہے کہ غیروں کی ایما پر مسلمان ہی مسلمانوں کو مار رہے ہیں۔ فلسطین، لیبیا، تیونس،لبنان،شام،عراق اور سب سے بڑھ کر یمن میں لاکھوں مسلمان مارے جا چکے ہیں۔افغانستان میں پہلے روس اور پھر امریکا اور اس کے اتحادی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے اور تباہی مچاتے رہے۔موجودہ دور میں یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ایسے تنازعے نے جنم لیا ہے جس کے دونوں فریقوں میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔
تنازعے میں شامل یوکرین کی کل آبادی کا 96فیصد عیسائی ہیں۔ روس میں مذہب ایک لمبے عرصے تک پابندیوں اور دباؤ کا شکار رہا ہے لیکن اب مذہب آزاد ہو چکا ہے۔ روس اور یوکرین دونوں ممالک کی اکثریت عیسائیت کو ماننے والی ہے اس لیے روس،یوکرین تنازعے میںیہ کہا جا سکتا ہے کہ عیسائیت کے ماننے والے آپس میں دست و گریباں ہیں۔
جنگ تباہی کا دوسرا نام ہے۔جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتا۔جنگ کے بعد بھی معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پڑتے ہیں۔روس رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔اس ملک کے وسائل بے شمار ہیں۔روس نے اپنی بہترین جنگی حکمتِ عملی سے ہاری ہوئی جنگوں کا پانسہ اپنے حق میں پلٹا ہے۔
نیپولین جیسا بڑا لیڈر اور سپہ سالار سارے یورپ کو روندتے ہوئے روس میں داخل ہوا تو روسیوں نے اپنے شدید ترین ٹھنڈے موسم کو کام میں لاتے ہوئے نیپولیانی دستوں کو نہ صرف پیچھے دھکیل دیا بلکہ فرانس کی بہت ہی چھوٹی سی فوج واپس فرانس پہنچ سکی۔ہٹلر کی یلغار کے آگے بھی سارا یورپ سہم کر کھڑا ہو گیا۔
پھرہٹلر نے بھی وہی غلطی کی جو اس سے پہلے نپولین کر بیٹھا تھا۔ہٹلر کی جرمن فوج اگر اپنے آپ کو بہت زیادہ پھیلا کر روس نہ پہنچ جاتی اور اس کے لاجسٹکس کمزور نہ پڑ جاتے تو شاید دوسری عالمی جنگ کا نتیجہ وہ نہ ہوتا جو1945میں نکلا۔کوئی بھی فاتح یا سپہ سالار پے در پے فتوحات کے زعم میں یہ اندازہ لگانے میں چُوک جاتا ہے کہ اسے کہاں تک رہنا چاہیے۔ نیپولین اور ہٹلر دونوں سے یہ غلطی ہوئی۔کیا اب روس بھی ویسی ہی غلطی کر رہا ہے یا سارا مغرب مل کر یوکرین کو تباہی سے دوچار کر رہا ہے۔
روس اور یوکرین تنازعے میں دنیا تمام خبریں مغربی میڈیا سے حاصل کر رہی ہے۔روس کے صدر پیوٹن نے یہ ادراک نہیں کیا کہ تنازعے کی صورت میں مغربی میڈیا،روس کا موئقف تو سامنے لائے گا نہیں،تو پھر یہ کیونکر ہو کہ دنیا روس کی آواز بھی سن سکے۔
ہم پاکستان میں پاکستانی چینلوں کے علاوہ سی این این،بی بی سی،فاکس نیوز،ڈی ڈبلیو،الجزیرہ اور دوسرے کئی چینلوں کے ذریعے خبر حاصل کرتے ہیں لیکن روس کے کسی ایک چینل سے بھی واقفیت نہیں رکھتے۔روس خلائی دوڑ میں بہت آگے رہا ہے۔روس کے پاس ایسے سٹیلائٹ موجود ہیں جن کے ذریعے روس کے میڈیا کو ساری دنیا میں دکھایا جا سکے ۔نہ جانے کیوں صدر پیوٹن اور ان کی میڈیا ٹیم نے اس زاویے سے کام نہیں کیا۔میڈیا کی جنگ بہت حد تک روس ہار چکا ہے۔
ہم چونکہ محاذ کو صرف مغرب کی عینک سے دیکھ رہے ہیں اس لیے کوئی سچی اور بامعنی بات تو نہیں ہو سکتی لیکن بظاہر ایسے لگتا ہے کہ لڑائی ایسے نہیں جا رہی جیسی روسی صدر پیوٹن نے پلان کی تھی۔
پہلے روز ایسے لگ رہا تھا کہ یوکرین اگلے دو دنوں میں ڈھیر ہو جائے گا لیکن ایسا ہوا نہیں۔روس کی کل زمینی افواج کی تعداد 15لاکھ کے قریب ہے جب کہ یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روسی فوج حرکت میںآئی۔یوکرین کی زمینی افواج 3لاکھ اور 40ہزار نفوس پر مشتمل ہے ،گویا ڈیڑھ لاکھ روسی فوج کو روکنے کے لیے ساڑھے تین لاکھ یوکرینی فوج تیار کھڑی تھی۔روس کی فائر پاور بہت زیادہ ہے لیکن یوکرینی فوج بھی پتھروں اور ڈنڈوں سے لیس نہیں ہے اس فوج کے پاس بھی جدید ترین اسلحہ ہے اور انھیں اِس وقت بھی امریکا اور یورپ کا جدید ترین اسلحہ مل رہا ہے۔
امید ہے روسی صدر نے حملہ کرنے سے پہلے ہر پہلو کا ضرور جائزہ لیا ہو گا۔یوکرینی صدر زیلنسکی بہت سخت یہودی ہیں۔اسرائیل ہر شعبے خاص کر جنگی سازو سامان بنانے میں بہت آگے ہے۔اسرائیل کی ہمدردیاں یوکرینی صدر کے ساتھ ہوں گی اس لیے اسرائیل بھی در پردہ یوکرین کا ہاتھ بٹائے گا۔روس دنیا کا ایک بہت بڑا تیل اور گندم پیدا کرنے والا ملک ہے۔
روس کے پاس قدرتی گیس کے بے شمار ذخائر ہیں۔ روس کو خوراک اور توانائی درآمد کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔روس لڑائی شروع ہوتے وقت 630ارب ڈالر کا فارن ایکسچینج رکھتا تھا جس کا صرف سولہ فیصد ڈالر کی شکل میں تھا۔روس نے لڑائی کے لیے کہیں باہر سے ہتھیار نہیں خریدنے۔روس میں اسلحے کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن باقی دنیا کے ساتھ معاشی ٹرانزکشن کرنے کی قوت کھو دینا بہت سی مشکلات کو جنم دے دیتا ہے اسی لیے روسی کرنسی رو بہ زوال ہے البتہ یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ روس جیسا بڑا اور طاقتور ملک ان پابندیوں کو خاطر میں لائے بغیر لڑائی جاری رکھ سکتا ہے۔
جنگ شروع کرنا آسان ہوتا ہے لیکن ذہین، شاطر اور دور اندیش لیڈر وہ ہوتا ہے جو جھگڑے کو اپنی مرضی سے سمیٹنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔روس پچھلے بیس سالوں سے امریکا اور مغرب کو اپنے سیکیورٹی خدشات سے آگاہ کر رہا تھا اور یہ بھی بتا رہا تھا کہ نیٹو کو مشرق میں روس کی سرحدوں کے قریب آنے سے گریز کرنا چاہیے۔صحیح بات تو یہ ہے کہ روس کے ان جائز خدشات پر کان نہیں دھرے گئے۔روس کے خدشات کو جب بے معنی ٹھہرایا گیا تو روس نے اپنا آخری آپشن استعمال کر لیا۔جس طرح امریکا اپنی سرحدوں کے قریب کسی مخالف فوج کی تعیناتی پسند نہیں کرتا، اسی طرح روس بھی اپنی سرحدوں کے قریب نیٹو افواج کو گوارا نہیں کر سکتا۔
امریکا اور مغرب ہمیشہ دہرے معیار کے حامل رہے ہیں لیکن امریکا نے ہمیشہ ہمیشہ قوت اور طاقت والی سپر پاور نہیں رہنا۔یورپ کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ باور کر سکے کہ مغربی یورپی ممالک کو اسی برِ اعظم پر روس کے پڑوس میں رہنا ہے۔بہر حال دیکھنا یہ ہے کہ روس اس لڑائی کو کیسے ختم کر تا ہے البتہ روس،یوکرین اور یورپ سب گھاٹے میں رہیں گے۔
وزیرِ خارجہ پاکستان نے یوکرینی وزیر کو فون کر کے روس کے کہے پر کان دھرنے کی تجویز دی۔شاہ محمود کے فون کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی 19ممالک کے سفیروں نے ہماری وزارتِ خارجہ کو ایک پٹیشن کی ہے جس میں پاکستان سے یوکرین کی حمایت کرنے اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کی شدید ترین الفاظ میں مذمتی قرارداد کی حمایت کرنے کا کہا گیا ہے۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد پر رائے شماری ہو چکی ہے۔
سیکیورٹی کونسل میں روس نے ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے امریکی قرارداد نا منظور کر وا دی تھی۔ چین نے روس کے حق میں ووٹ دینے کے بجائے غیر حاضر رہنا پسند کیا۔بھارت بھی غیر حاضر رہا۔ سیکیورٹی کونسل میں ناکامی کے بعد امریکا قرار داد زیادہ سخت بنا کر جنرل اسمبلی لے گیا جہاں امریکی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہو گئی۔پاکستان کے لیے یہ ایک بہت ہی مشکل مرحلہ تھا۔
پاکستان رائے شماری سے غیر حاضر رہا۔پاکستان جہاں امریکا اور یورپ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے پر مجبور ہے وہیں ایک عرصے سے روس کی جانب بھی دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے۔یوکرین کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات ضروری ہیں۔ پاکستان اپنے ٹینک کے انجن یوکرین سے ہی بنواتا ہے۔دنیا کے ملکوں کی اکثریت یوکرین کے ساتھ ہے ایسے میں پاکستان کو انتہائی مشکل فیصلوں کا سامنا ہے۔
موجودہ صورتحال میں سب سے بڑا ڈر یہ ہے کہ یہ لڑائی کہیں یوکرینی سرحدوں سے باہر نہ پھیل جائے۔ اگر یہ ہوا تو تباہی کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ تیسری عالمی جنگ کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی مگر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ چوتھی عالمی جنگ ڈنڈوں اور پتھروں سے لڑی جائے گی۔