دنیا کی تباہی
اقوام متحدہ کا قیام دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر عمل میں آیا
لاہور:
اقوام متحدہ کا قیام دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر عمل میں آیا۔ اقوام متحدہ تشکیل دیتے ہوئے اس کے چارٹر میں اس کا جو بنیادی مقصد بیان کیا گیا تھا وہ تھا ''آنے والی نسل کو جنگ کی لعنت سے محفوظ رکھنا '' لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام 24 اکتوبر 1945 سے لے کر اب تک گزشتہ تقریباً پون صدی کے دوران دنیا کے مختلف خطوں میں درجنوں جنگیں ہو چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ ان جنگوں کو روکنے میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین کی تعداد 15 ہے۔ ان میں پانچ مستقل ارکان ہیں جن میں چین، امریکا، روس، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں، اگرچہ سلامتی کونسل میں فیصلے اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں تاہم مستقل ارکان میں سے کوئی ایک بھی فیصلے کی مخالفت کر دے تو اسے ویٹو سمجھا جاتا ہے چاہے باقی تمام ارکان اس فیصلے کے حامی ہوں۔
اقوام متحدہ کا مرکزی کردار اور بنیادی مقصد بین الاقوامی امن و سلامتی قائم رکھنا، تنازعات کو پیدا ہونے سے روکنا اور ہونے کی صورت میں محدود کرنے کے اقدامات اٹھانا اور کسی بھی تنازع میں فریقین کو امن قائم کرنے اور اسے بہر صورت برقرار رکھنے کے لیے حالات کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنے کے اقدامات کرنا شامل ہے ، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ ادارہ دنیا میں جنم لینے والے کئی انسانی المیوں اور جنگوں کو روکنے میں کلی طور پر کامیاب نہیں ہو سکا بلکہ ناکامیاں اس کے عالمی امن کے دامن پر بدنما داغ کی طرح نظر آتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ اقوام متحدہ کی تشکیل اور اس کی ہیئت میں چند ایک بنیادی نقائص ہیں۔ مثلاً سلامتی کے معاملات میں حتمی فیصلہ سلامتی کونسل کرتی ہے، جہاں پانچ مستقل ارکان کے پاس ویٹو پاور ہے جو بعض اوقات عدل کے بجائے اپنے ریاستی مفادات کے لیے ویٹو کی طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔
''آور ورلڈ اِن ڈیٹا '' کے مطابق 1946یعنی اقوام متحدہ کے قیام کے ایک سال بعد سے ہونے والی جنگوں میں تین ایسی جنگیں ہیں جن میں بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے۔ 1950 کی دہائی کے اوائل میں جزیرہ نما کوریا کی جنگ ، 1960 کی دہائی میں ویت نام کی جنگ، 1980 کی دہائی میں عراق اور ایران کے درمیان طویل جنگ اور پھر 21 ویں صدی میں افغانستان، عراق اور لیبیا پر امریکی چڑھائی اور شام میں خانہ جنگی۔
ان ممالک میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ اقوام متحدہ کی بڑی ناکامیوں میں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا حل نہ ہونا بھی شامل ہے۔ کشمیر و فلسطین ہر دو تنازعات کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادیں آج بھی منتظر ہیں کہ ان پر عمل درآمد کروا کے ان دونوں تنازعات کا حل تلاش کر لیا جائے ، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عالمی امن کا ضامن ادارہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر و مسئلہ فلسطین کو حل کروانے کے حوالے بھارت اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنے میں بری طرح ناکام نظر آتا ہے۔
تازہ ترین مثال یوکرین پر روسی حملہ ہے۔ اقوام متحدہ اس حملے کو رکوانے میں ناکام رہا۔ سلامتی کونسل نے اس ضمن میں ایک موہوم سی کوشش کی اور جنگ رکوانے کے لیے قرارداد پیش کی لیکن روس نے اپنی ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ نتیجتاً روس یوکرین جنگ تادم تحریر جاری ہے اور اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق 1919 میں یوکرین روس میں شامل ہوا۔ پھر 1991 میں افغانستان میں شکست کے بعد سوویت یونین کے ٹکڑے ہوگئے۔ یوں یوکرین بھی روس سے جدا ہو کر ایک علیحدہ ملک بن گیا۔ سابقہ سوویت ریاستوں کے نیٹو اتحاد میں امکانی شمولیت سے روس اپنے لیے غیر محفوظ اور سلامتی کے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے۔ وہ پورا زور لگاتا رہا ہے کہ یوکرین کسی صورت نیٹو میں شامل نہ ہو جب کہ یوکرین نیٹو میں شمولیت کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔
اسی خطرے کے پیش نظر روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے یوکرین پر حملہ کیا تاکہ وہاں اپنی مرضی کی راجدھانی قائم کرکے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کا راستہ روک دیا جائے۔ روس نے عین اس روز یوکرین پر حملہ کیا جس دن وزیر اعظم عمران خان روس کے سرکاری دورے پر وہاں پہنچے۔ مبصرین اور تجزیہ کاروں نے روس کے اس طرز عمل کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی بحیثیت سرکاری مہمان وہاں موجودگی کا پیوتن کو لحاظ کرنا چاہیے تھا، لیکن روس نے اس بات کی پروا کیے بغیر یوکرین پر حملہ کرکے اپنے جارحانہ عزائم کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پوری دنیا کی معیشت اور اس کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ صدر پیوتن نے نیٹو ممالک کو دھمکی آمیز لہجے میں خبردار کیا ہے کہ اگر یوکرین کی جنگ میں مداخلت کی کوشش کی گئی تو روس کوئی بھی ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔ پیوتن کا بیان جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی اعلانیہ دھمکی قرار دیا جا رہا ہے جو تیسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کا جواز بن سکتا ہے۔
ردعمل میں امریکا، برطانیہ اور دیگر نیٹو ممالک نے روس پر سخت پابندیاں عائد کردی ہیں جس سے روسی معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ روسی بینکوں میں پیسوں کی قلت اور اے ٹی ایم مشینیں خالی ہوگئی ہیں۔ روسی کرنسی روبل کی قدر میں 30 فیصد کمی ہوگئی ہے۔ ادھر روس نے بھی مغربی ممالک اور امریکی پابندیوں کے جواب میں جرمنی اور برطانیہ سمیت 36 ممالک کے لیے اپنی فضائی حدود بند کردی ہے۔ چین نے کہا ہے وہ ماسکو پر مغربی پابندیوں کی حمایت نہیں کرتا۔ چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چین غیر قانونی پابندیوں کی مخالفت کرتا ہے، پابندیاں مسائل حل نہیں کرتیں صرف نئی مشکلات پیدا کرتی ہیں۔
صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر یورپ کی جانب سے چینی صدر کو یہ اپیل بھیجی گئی کہ وہ جنگ بندی میں اپنا کردار ادا کریں۔ چینی صدر شی جن پنگ نے صدر پیوتن کو فون کرکے یوکرین کے ساتھ اپنے تنازع کو جنگ کی بجائے مذاکرات سے حل کرنے کا مشورہ دیا جس پر صدر پیوتن نے آمادگی ظاہر کی تاہم روس نے مذاکرات کے لیے یہ شرط رکھی کہ یوکرین کو ہتھیار ڈالنا ہوں گے جب کہ یوکرین نے مطالبہ کیا ہے کہ روس اپنی افواج کو نکال لے۔ تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پہلا دور ختم ہو گیا ہے۔ 10نکاتی ایجنڈے پر بات چیت ہو رہی ہے۔
اس مرحلے پر اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ جس مقصد کے لیے یہ وجود میں آیا یعنی عالمی امن۔ جنگ کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتی۔ بڑی عسکری طاقتوں کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اور اس کے استعمال کی دھمکیاں تیسری عالمی جنگ اور دنیا کی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔