خوشی دولت سے حاصل نہیں ہوتی
کیا تم میں سے کوئی ڈالروں میں ارب پتی ہونے کے باوجود خود کشی کرنا پسند کریگا
''کیا تم میں سے کوئی ڈالروں میں ارب پتی ہونے کے باوجود خود کشی کرنا پسند کریگا '' جب کامیابی کی سائنس کے بادشاہ ٹونی رابنز نے لندن ایکسل کے بڑے ہال میں بیٹھے ہوئے بارہ ہزار سے زیادہ سامعین سے یہ سوال پوچھا تو تقریباً ہر چہر ہ ایک سوالیہ نشان بن گیا ہال میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔
اس نے کہنا شروع کیا '' اگر آپ دنیا کے 100امیر ترین ارب پتیوں میں شامل ہوں جرمنی کے پہلے 10امرا اور موثر لوگوں میں گنے جاتے ہوں اور کروڑوں افراد آپ کی طرف سر اٹھا کر دیکھتے ہوں تو ان کی ٹوپی گر جاتی ہو پھر 2009 میں بین الاقوامی مالی بحران کی وجہ سے آپ کی ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کی کمپنی کو گھاٹا ہو اور مارکیٹ میں شیئر دھڑام سے گر پڑیں، آپ کو ہر روز معلوم ہو کہ آپ کے اثاثوں کی قیمت میں کمی واقع ہورہی ہے آپ کو محسوس ہو کہ آپ جلد ہی ٹکے ٹوکری ہوجائیں گے پھر ایک صبح اپنی بیوی کو آفس جانے کا بتا کر آپ گھر سے نکلیں اور قریب واقع ٹرین کی پٹڑی پر جاکر لیٹ جائیں کیونکہ اس زندگی کا کوئی فائدہ نہیں جو کہ آپ کو روز بروز غریب بناتی جارہی ہے۔
اڈولٹ مرکل نے جب 2009 میں غربت کے خوف کے باعث خود کشی کی تو اس وقت بھی اس کے اثاثے اربوں ڈالر مالیت کے تھے جنھیں خر چ کرنے کے لیے ایک سو برس سے زیادہ کا وقت درکار تھا ، گویا کہ اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے نام پر کتنا نقد اور کتنا سونا بینکوں میں بند ہے ، کتنے ایکڑوں کے فارم پر آپ کے نام کی تختی لگی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو کتنا ''ویلیو ایبل '' محسوس کرتے ہیں اور جب آپ کے اندر مکالمہ چلتا ہے تو آپ اپنے ساتھ کسی لہجے میں بات کرتے ہیں اور کتنی زندگیاں آپ کی زندگی کے ساتھ نتھی ہیں۔'' ٹونی رابنز نے جب اپنی بات کو ختم کیا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا، تمتماتے ہوئے چہروں والے سامعین اپنے لب دانتوں میں دبائے بے اختیار تالیاں پیٹتے جا رہے تھے۔
یاد رکھیں پیسہ بنانا اور زندگی بنانا دونوں الگ الگ چیزیں ہیں پیسہ بنانے سے زندگی نہیں بنتی مگر زندگی بنانے سے پیسہ خود بخود بن جاتا ہے اگر آپ پیسہ بنانے کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں تو آپ سے زیادہ بدنصیب کوئی اور نہیں ہے اور جلد یا بدیر آپ کا انجام اڈولٹ مرکل سے مختلف نہیں ہوسکتا۔
زندگی کا مقصد خوشی حاصل کرنا ہے۔ ماہر نفسیات مارک ایپیئن کا کہنا ہے کہ '' ہمیں خوشی حاصل کرنے میں اس لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ دراصل ہم جانتے ہی نہیں کہ خوشی کہتے کسے ہیں۔ '' خوشی نام ہے زندگی کی خوش گوار باتوں کو بغیر ہچکچاہٹ کے قبول کرنے اور نا خوش گوار باتوں کو تنقید کے بغیر قبول کرنے کا۔ روپے پیسوں سے آپ چیزیں تو خرید سکتے ہیں لیکن خوشی نہیں کیونکہ خوشی چیز نہیں ہوتی۔ بازار میں بکنے والی کوئی شے نہیں ہے کہ آپ اسے جاکر خرید لیں۔
خوشی باہر نہیں بلکہ آپ کے اندر ہوتی ہے اس کا تعلق آپ کی اندرونی کیفیت سے ہے اس کا تعلق آپ کے جسم سے نہیں بلکہ روح سے ہے۔ 2010 میں امریکا کی پرنسٹن یونیورسٹی نے ایک انتہائی اہم ریسرچ کی جس میں مسرت اور آمدنی کا باہمی رشتہ کھوجنے کی کوشش کی گئی پتہ چلا کہ ایک خاص حد تک آمدنی اور مسرت میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے یعنی آمدنی جتنا بڑھی اسی حساب سے خوشی میں اضافہ پایا گیا، تاہم حیران کن حد تک آمدنی کی ایک خاص حد یعنی 75 ہزار ڈالر کو پہنچ کر مسرت کا پیمانہ ایک نقطے پر پہنچ کر رک گیا۔ اس رقم سے اوپر جتنی بھی بلندیاں سر کی گئیں مسرت میں قطعا کوئی اضافہ نہیں پایا گیا۔
اس ریسرچ نے یہ بات ثابت کی کہ بینک بیلنس اور خوشی کا تعلق ایک خاص حد تک تو رہتا ہے لیکن پھر ساتھ چھوڑ دیتا ہے تب ہی تو دولت کے پجاریوں میں السر ، شو گر، بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں اور بے سکون ہونے کی شرح عام لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ پائی جاتی ہے آپ اگر اپنے ملک میں یا ارد گرد دولت کے سوداگران کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو احساس ہوجائے گا کہ وہ کتنی بے مزہ ، بے لطف ، اداس و غمگین زندگی گذار رہے ہیں خود بھی مصیبتوں سے دو چار ہیں اور دوسروں کو بھی مصیبتوں سے دوچار کر رہے ہیں۔
حال ہی میں برطانیہ کا ولی عہد اپنی اور اپنی اہلیہ کی خوشی کی خاطر تخت و تاج سے دستبردار ہوگیا۔ دنیا کے طاقتور ترین سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اعتراف کیا تھا کہ اگر آج میرے ہاتھ میں ہوکہ میں تیس سال کا ہو جاؤں اور بدلے میں مجھے امریکا کی صدارت کی قربانی دینی پڑے تو میں اس سودے کے لیے راضی ہوں۔ میرے ملک کے نوجوانوں تم سب صدرکلنٹن سے بہتر ہو کیونکہ تم لگ بھگ اس وقت تیس سال کے ہو۔ جس حال میں ہو جیو اس وقت کو ضایع مت کرو یہ وقت کبھی نہیں آئے گا۔ خدا نے ہمیں زندگی خوش رہنے کے لیے دی ہے ۔
آئیں ! آپ کو بچپن میں سنی ایک کہانی سناتا ہوں جس میں ایک شہزادہ خوشی کے لازوال چشمے کی تلاش میں نکلتا ہے اسے ایک جوتشی بتاتا ہے کہ اگر وہ ایک مخصوص کیفیت کے حامل شخص کی قمیض پہن لے تو ہمیشہ خوش رہے گا وہ ملک ملک کی خاک چھانتا ہے اور بھانت بھانت کے لوگوں سے ملتا ہے لیکن اسے ہر خوش نظر آنے والے انسان کے دل کے ایک کونے میں غم کی آکاس بیل چھت کو چڑھتے ہوئے نظر آجاتی تھی اسے برسوں مطلوبہ شخص نہ مل سکا، بالاخر وہ ایسے شخص تک پہنچ گیا جس کی تار یکی میں اسے صرف آواز ہی سنائی دے رہی تھی اس کا کہنا تھا کہ زندگی تو بس خوشی، گیت ، سنگیت ہے اور بس ، شہزادے کو اپنی کھوج میں بس یہ ہی شخص ایسا ملا جو شکوہ نہیں کر رہا تھا اور اپنے نصیب پر بہت خوش تھا۔ شہزادہ اس کی قمیض پہننے کی حسرت لیے رات آنکھوں میں کاٹ دیتا ہے۔ صبح سورج کی کرن پڑتی ہے اور وہ اپنی حسرت دل میںہی لیے رہ جاتا ہے ، کیونکہ دنیا کے سب سے خوش شخص کے جسم پر قمیض ہی نہیں تھی۔