آزادی نسواں کے نام پر بے راہ روی

خواتین کی آزادی کے نام پر معاشرے میں بے راہ روی اور فحاشی و عریانی کو پھیلایا جارہا ہے


یہ ہمارے وطن کے پاکیزہ خاندانی نظام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کراچی: گزشتہ چند برس سے وطن عزیز میں عورتوں کے حقوق اور آزادی کے نام پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ مخصوص ایجنڈے کے پروردہ لوگ پاکستانی خواتین کو ان کے حقوق دلانے کے دعوے دار ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ خواتین کی آزادی کے نام پر معاشرے میں بے راہ روی اور فحاشی و عریانی کو پھیلانا چاہتے ہیں۔

ہر سال 8 مارچ کو مٹھی بھر خواتین جلوس نکالتی ہیں، جس میں انہوں نے انتہائی بے ہودہ پلے کارڈز اٹھائے ہوتے ہیں، جن پر ناگفتہ بہ نعرے درج ہوتے ہیں اور چند تصاویر جو ان کی بے حیائی کی عکاسی کرتی ہیں، بنی ہوتی ہیں۔

'میرا جسم، میری مرضی' کا نعرہ زبان زد عام ہوچکا ہے۔ اس نعرے کا مقصد بھی یہی ہے کہ معاشرے میں خواتین کچھ بھی کرتی پھریں انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ وہ کچھ بھی پہنیں، کہیں بھی جائیں، انہیں مکمل آزادی حاصل ہو۔ کوئی مرد چاہے ان کا باپ یا شوہر ہی کیوں نہ ہو، انہیں روکنے کی جرأت نہ کرے اور نہ ہی پوچھ سکے کہ یہ کیا پہن رکھا ہے؟ یا کہاں سے آئی ہو؟ اس بے ہودگی کو یہ خواتین آزادی کا نام دیتی ہیں۔ حالانکہ ہمارے معاشرے میں خواتین بالکل آزاد ہیں، انہیں تو کسی نے کبھی غلام بنایا ہی نہیں، وہ اپنے گھروں میں خوش و خرم ہیں، انہیں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ وہ ملازمتیں بھی کرتی ہیں، بازاروں میں بھی جاتی ہیں، شاپنگ کرتی ہیں، سیر گاہوں میں جاتی ہیں، اعزا و اقارب کے گھروں میں جاتی ہیں۔

ہمارے گھروں یا گلی محلوں میں تو کبھی کسی خاتون نے آزادی کا مطالبہ نہیں کیا۔ نہ ہی ہم نے کبھی سنا ہے کہ فلاں محلے میں فلاں خاتو ن ہے جو آزادی چاہتی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، کیونکہ یہی آزادی جو ہمارے معاشرے میں خواتین کو حاصل ہے یہ خواتین کےلیے کافی ہے جس پر خواتین خوش اور مطمئن ہیں۔ لیکن یہ چھوٹا سا ٹولہ جو فحاشی و عریانی کو معاشرے میں عام کرنے کا مقصد لے کر آیا ہے، یہ پردہ نشین عورتوں کو ورغلانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ جو خواتین ایسی آزادی کا مطالبہ کر رہی ہیں وہ سب تو پہلے ہی آزاد ہیں، انہیں کب کسی نے کچھ کہا ہے؟ اگر کچھ کہا ہوتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ جب وہ اتنی آزاد ہیں تو پھر کیسی آزادی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

یہ بات سمجھ لیجئے کہ دراصل وہ اپنی آزادی کا مطالبہ نہیں کرتیں بلکہ وہ تو گھریلو پردہ نشین خواتین کو آزادی کے سہانے سپنے دکھا کر اس طرف متوجہ کرنا چاہتی ہیں اور انہیں بھی باغی بنانا چاہتی ہیں۔

ان عورتوں کے مارچ نے مردوں کو ایک بھیانک شکل میں پیش کیا ہے، اور مرد کو عورت کے دشمن کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ مرد کے لفظ کو گالی بنا دیا ہے۔ پلے کارڈز پر جو نعرے درج ہوتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہمارے وطن کے پاکیزہ خاندانی نظام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے یہ نعرہ بھی ہے کہ 'اپنا کھانا خود گرم کرو' اور یہ بھی 'مجھے کیا معلوم تمہارے موزے کہاں ہیں' ۔ مطلب یہ کہ شوہر کو کھانا دینا یا اس کے گھر کے کام کاج کرنا خواتین کی ذمے داری نہیں ہے، وہ کیوں کریں۔ حالانکہ ہماری روایات یہ ہیں کہ خواتین گھر کے کام کاج سنبھالتی ہیں، مرد کی گھریلو ضروریات پوری کرتی ہیں جبکہ مرد باہر کے کام سر انجام دیتے ہیں، جیسے بیوی، بچوں کےلیے کمانا، ان کے کھانے پینے، رہائش، لباس اور دیگر ضروریات کا انتظام کرنا۔ یہ سب مردوں کی ذمے داریاں ہیں جبکہ گھروں میں کھانا بنانا، مرد کے کپڑے دھونا، بچوں کو سنبھالنا یہ سب خواتین کی ذمے داریاں ہیں۔

اگر خواتین کہتی ہیں کہ اپنا کھانا خود گرم کرو، اپنے موزے خود تلاش کرو۔ تو مرد بھی کہہ سکتے ہیں کہ تم اپنے لیے روزی کا انتظام خود کرو، باہر کے کام کاج بھی بجا لاؤ۔ یوں معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ نہ گھر چلے گا اور نہ ہی بچوں کی تربیت ہوسکے گی۔ نتیجتاً پورے معاشرے میں فساد اور بگاڑ آجائے گا۔ اسلام نے خواتین کو بھرپور آزادی دی ہے لیکن جیسے ہر جگہ آزادی کی کچھ حدود ہوتی ہیں ایسے ہی یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی حدود مقرر کی ہیں۔

اس کی مثال یوں لے لیجیے کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ پاکستان میرا ملک ہے، میں اس میں آزاد ہوں چاہے جہاں بھی چاہوں جاسکتا ہوں۔ اس بات کو حکومت بھی مانتی ہے لیکن کچھ حدود مقرر کر رکھی ہیں، جیسے کسی حساس ادارے میں داخل نہیں ہوسکتا، چاہے وہ آزاد ملک کا آزاد شہری ہے۔ اسی طرح یہاں بھی خواتین کو آزادی کے ساتھ پردے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ معاشرہ پاکیزہ ہو اور ہماری تہذیب، ثقافت اور مذہب کے مطابق یہاں مردوں اور خواتین کے درمیان محبت، الفت اور احترام کا رشتہ ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں