ایل ڈبلیو ایم سی غیرملکی صفائی کمپنی نے بغیرتصدیق بینک گارنٹی نکلوالی

تحقیقات شروع ،اوزپاک نے معاہدہ سے قبل بطور گارنٹی27کروڑ نجی بینک میں جمع کرائے


افضال طالب March 06, 2022
تحقیقات شروع ،اوزپاک نے معاہدہ سے قبل بطور گارنٹی27کروڑ نجی بینک میں جمع کرائے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ایل ڈبلیو ایم سی میں بڑے اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے جب کہ فارن کمپنی نے شہرمیں صفائی کا کنٹریکٹ لینے کے عوض کروڑوں روپے بینک گارنٹی ایل ڈبلیو ایم سی کی ملی بھگت سے بغیر تصدیق کے بینک سے نکلوا لی۔

ایل ڈبلیو ایم سی کمپنی شہر میں صفائی کے عوض اربوں روپے وصول کرچکی اوراب کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد کمپنی مالکان نے خود کو مظلوم ثابت کرنے کیلئے عالمی عدالت میں اثاثہ جات اورجرمانہ وصولی کیلئے کیس دائر کررکھاہے۔

سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے دور حکومت میں میٹروپولیٹین کارپوریشن لاہور سے صفائی کاکام نجی کمپنیوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا اور کوڑا ڈمپنگ پوائنٹ تک لے جانے اورکام کمپنیوں کو سونپنے کیلئے لاہورکو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا اور پھربین الاقوامی کمپنیوں کو لانے کیلئے ٹینڈرز جاری ہوئے اورباہرکی دو کمپنیوں البراک اوراوزبک سے صفائی سے لیکر کوڑا ڈمپنگ پوائنٹ تک لے جانے کاکام 19ڈالر فی ٹن کے حساب سے تین نومبر2011 معاہدہ کیا گیا جو 31 جنوری2020 تک رہا۔

اوزپاک نے معاہدہ سے قبل ایل ڈبلیو ایم سی کی شرط کے مطابق بنک گاڑنٹی کے طور پر 1.5ملین ڈالر(27 کروڑ روپے نجی بنک میں جمع کروائے اور 2011سے لیکر2020تک صفائی اورکوڑاکرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے عوض اربوں روپے کمائے۔

معاہدہ کے مطابق مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد جو گاڑیاں کوڑا اٹھانے کیلئے پاکستان لائی جارہی وہ ایل ڈبلیو ایم سی کی ملکیت ہونگی اسی شرط پرایم سی کی پانچ سو سے زائد گاڑیوں کو نیلام کیا گیا اورجونہی مقررہ مدت ختم ہونے لگی اوزپک ،البراک اورایل ڈبلیو ایم سی کے درمیان لین دین کا تنازعہ شروع ہوگیا،دونوں طرف موجود مافیا نے معاہدے میں موجود شق کہ گاڑیاں ایل ڈبلیو ایم سی کی ملکیت ہونگی کی جگہ یہ لکھوا دیا گیا کہ گاڑیاں کمپنیوں کی ملکیت رہیں گی۔

اس جعلسازی کے زمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے کئی افسروں و اہلکاروں کے انٹرویوز کئے گئے تاہم ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکا،جس کے بعد معاملہ ایف آئی اے کو بھجوا دیا گیا جس نے ابتدائی انکوائری شروع کر دی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں