ادب میں مزاح نگاری کی اہمیت

طنز و مزاح کے سوتے معاشرتی زندگی کے مختلف گوشوں اور کرداروں سے پھوٹتے ہیں


جبار قریشی March 06, 2022
[email protected]

LONDON: حسن، خیر اور حقیقت تینوں کو ایک آہنگ بنا کر پیش کرنے کا نام ادب ہے اور بڑا ادیب وہ ہے جو بیک وقت ہمارے ذوق حسن، ذوق فکر اور ذوق عمل کو نہ صرف آسودہ کرے بلکہ اسے حرکت میں بھی لائے۔

قدرت کے تخلیق کردہ تمام جانداروں میں واحد تخلیق انسان ہے جو اپنے آپ پر ہنس سکتا ہے اور یہی بات جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی زبان کے ادب میں طنز و مزاح کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ہنسی دراصل تصور اور حقیقت کے مابین ناہمواری کے وجود کو اچانک محسوس کرلینے سے جنم لیتی ہے یہ ناہمواری خلاف توقع جتنی شدید ہوگی اتنی شدید ہنسی نمودار ہوگی جہاں ہر شے موزوں اور مکمل ہوگی وہاں ہنسی کا گزر نہیں ہو سکتا۔ یہ عدم تکمیل اور بے ڈھنگے پن کے احساس کا نتیجہ ہوتی ہے۔

ایک اچھا مزاح نگار سماجی اقدار کے مابین تضادات کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ یہ ہر لکھنے والے کی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مطالعے اور مشاہدے کے زور پر ان ناہمواریوں کو ایک خوبصورت موڑ دے کر مزاح کا روپ دے اور قاری کو تصویرکا وہ رخ دکھائے جو عام نظروں سے اوجھل ہو اور مزاح میں لطیف طنزکی تلخی شامل کرکے اسے معنی خیز بنانے کے ساتھ بامقصد بھی بنا دے۔

مزاح نگاری دراصل ایسا فن ہے جس میں چیزکو ٹیڑھے زاویے سے دیکھا جاتا ہے اور اسے مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے جب ایک فنکار اس اصول کو اپناتا ہے تو تحریر طنز و مزاح کا پیرایہ اختیار کرلیتی ہے۔ تحریر میں یہ اسلوب گہرے عرفان ذات اور سماجی شعور سے پیدا ہوتا ہے۔ مزاح کی لازمی شرط مقصدیت ہے اس کی تہہ میں ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔

برناڈ شاہ نے کہا تھا جس طرح تیرنے کے لیے آدمی کا تیراک ہونا ضروری ہے اسی طرح حس مزاح کے بغیر مزاح نگاری ممکن نہیں۔ ایک مزاح نگار اپنی حس مزاح مطالعہ اور مشاہدے سے کام لے کر کسی بھی بات کو لطیف انداز میں بیان کرتا ہے وہ اس طرح کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اور درست ابلاغ بھی ہو جائے۔ لیکن یہ عمل اس طرح کیا جاتا ہے کہ بقول ڈاکٹر لارنس پیٹرکہ مزاح نگاری کسی کے جوتے پر اس طرح پاؤں رکھنے کے مترادف ہے کہ اس کی پالش خراب نہ ہو۔

اس بنیاد پر مزاح نگاری ادب کی دیگر اصناف کے مقابلے میں مشکل تصور کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کہانی کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو ، قاری کو اس کے انجام سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے لیکن مزاح میں ہر جملہ، ہر پیرا گراف اور ہر صفحہ کو پڑھنے کے بعد قاری یہ توقع رکھتا ہے کہ اس میں مزاحیہ اور شگفتہ بات کہی گئی ہو۔ یہ چیلنج ادب کی دوسری اصناف میں موجود نہیں۔

عام طور پر بعض مزاح نگار مطالعہ اور مشاہدے کی قلت کا شکار ہوتے ہیں جس بنا پر ان کے اظہار میں گہرائی پیدا نہیں ہوتی۔ ایسے مزاح کو لوگ تفریح طبع کے طور پر وقتی مسرت کی خاطر پڑھتے ہیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، ایسے ادب کو پھکڑ پن تو کہا جاسکتا ہے اسے طنز و مزاح کا نام ہرگز نہیں دیا جاسکتا۔

ایک اچھے مزاح نگار کا کام یہی ہے کہ وہ معاشرتی زندگی کے گرد و پیش (بالخصوص انفرادی اور معاشرتی رویہ) کے مسائل کو سمیٹ کر اپنی تکنیکی مہارت اور خیال کی وسعت کے ذریعے ان پر ہنسے اور دوسروں کو ہنسائے۔

عمومی طور پر مزاح نگار کو مسخرہ سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مزاح نگار مسخرہ ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طنز و مزاح کی سرحد وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سنجیدگی کی حد ختم ہوتی ہے۔ سنجیدہ ادیب دکھوں اور غموں پر نہ صرف خود روتا ہے بلکہ قارئین کو بھی رلاتا ہے اس کے برعکس مزاح نگار دکھوں اور غموں پر روتا نہیں بلکہ اپنے آنسو پی جاتا ہے اور پھر اپنے تاثرات کو ایسے پیرائے میں بیان کرتا ہے کہ قاری کے لبوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔

طنز اور مزاح دو الگ چیزیں ہیں طنز کا تعلق ہنگامی حالات اور مسائل سے ہے جب کہ مزاح کا تعلق آفاقی سچویشن سے ہے۔ طنز و مزاح اپنے مزاح میں جمہوری ہوتا ہے زندگی اور ماحول کی جتنی بروقت ترجمانی آپ کو مزاح نگاری میں ملے گی ویسی شاید آپ کو سنجیدہ ادب میں نہ ملے یا ملے بھی تو تاخیر سے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سنجیدہ ادب لکھنے والے واقعات یا سیاسی اور سماجی تبدیلیوں پر اس وقت تک کچھ نہیں لکھتے جب تک سماج پر ایسے واقعات کا اثر ان پر پوری طرح واضح نہیں ہو جاتا۔

طنز و مزاح کے سوتے معاشرتی زندگی کے مختلف گوشوں اور کرداروں سے پھوٹتے ہیں اس بنا پر اس کی اس صفت کو زندگی کی ترجمانی سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ ادب میں طنز و مزاح سلیقہ سے برتا جائے تو معاشرے کی بے اعتدالیوں کا شعور جس قدر طنز و مزاح سے ہوتا ہے دوسری اصناف سے شاید نہیں ہوتا۔ پھر اس کے فیم کا دائرہ بھی زیادہ وسیع ہوتا ہے اس کی کاٹ گہری ہونے کے باوجود مجموعی طور پر خوشگوار اثرات کی حامل ہوتی ہے۔

مزاحیہ ادب کا افادی پہلو یہ ہے کہ اس سے نہ صرف قاری لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ اسے زندگی زیادہ بامعنی محسوس ہونے لگتی ہے لہٰذا ادب میں مزاح نگاری کو انسانی زندگی اور رویوں کا بہترین ترجمان قرار دیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں