بلوچ یوم ثقافت

بلوچ قوم کو اپنی قدیم اور نایاب ثقافت کو اہمیت دینی ہوگی


Shabbir Ahmed Arman March 06, 2022
[email protected]

دو مارچ کو بلوچ یوم ثقافت ( بلوچ کلچر ڈے ) روایت کے تحت منایا گیا۔ بلوچ قوم کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے، جس پر بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔

بلوچ یوم ثقافت منانا، اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ اپنے آباؤ اجداد کی روایتوں کو برقرار رکھتے ہوئے، قوم کو بلندیوں کی اس سطح پر پہنچا سکیں جہاں دیگر اقوام ان کو رشک کی نگاہوں سے دیکھ سکیں۔ بلوچ قوم کو اپنی قدیم اور نایاب ثقافت کو اہمیت دینی ہوگی ، اپنی ذمے داریوں سے پہلو تہی کریں گے تو تاریخ انھیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔ کیا صرف بلوچ کلچر ڈے کو منانے سے قوم اپنی ذمے داریوں سے مبرا ہوجاتی ہے ؟

ہرگز نہیں ! بلکہ ان کی ذمے داریوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ بلوچ قوم اپنی زبان ، رہن سہن اور ثقافت کے دیگر پہلوؤں کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے اور کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے ؟ اس بارے میں انھیں سوچنا ہوگا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی قوم دنیا میں زبان ، رہن سہن اور اپنی ثقافت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ، اس لیے بلوچ قوم کو ہر حال میں اپنی زبان ، اپنے رہن سہن اور اپنی ثقافت کے دیگر پہلوؤں کی حفاظت کرنی ہوگی اور انھیں فروغ دینا ہوگا۔

بدقسمتی سے جس طرح اردو زبان میں بدیسی زبان انگلش در آئی ہے ، بالکل اسی طرح بلوچی زبان میں بھی اردو اور انگلش زبانوں کی آمیزش کا تڑکا لگانا رواج بنتا جا رہا ہے۔ یہ فیشن خاص طور پر شہری علاقوں میں آباد تعلیم یافتہ بلوچ نسل نو میں پایا جاتا ہے جو کہ بلوچی زبان کے لیے زہر قاتل ہے۔

اسی طرح شہری علاقوں میں آباد بلوچ نسل نو میں شادی بیاہ میں کی جانے والی رسمیں بھی بلوچ ثقافت سے ہٹ کر کی جا رہی ہیں ان میں بھارتی ہندوانہ رسمیں بھی در آتی دکھائی دیتی ہیں ، مثلا ڈانڈیا کرنا ، بلوچی ثقافت کی روایت کے بجائے ہندوانہ طرز پر مہندی کی رسمیں کرنا ، دلہن کے جوڑے کا رنگ مخصوص بلوچ رنگ لال کے بجائے پیلا ، سنہری رنگ استعمال کرنا ، جل ( مایوں) بلوچ ثقافت کے بجائے جدید ڈولی کی شکل میں کرنا۔ بلوچی شادی بیاہ کے گانوں کے بجائے بھارتی گانوں کی ریکارڈنگ لگانا ، اسی طرح دلہا کے لیے رسمیں بھی بلوچی ثقافت سے ہٹ کرکی جا رہی ہیں ، لے دے کر شادی بیاہ میں چند بلوچی ثقافتی روایات باقی بچی ہیں ، وہ بھی خطرے میں دکھائی دیتی ہیں۔

ایسا سب کچھ کرنے والوں کا ذہن یہ بنا ہوا ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے ، یہ ارتقائی زمانہ ہے ، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ زمانہ بدلتا نہیں ہے بلکہ انسان بدل جاتے ہیں ، کیونکہ زمانہ ہم سے ہے ، ہم زمانے سے نہیں ہیں۔ اسی طرح شہری علاقوں میں قیام پذیر بلوچ نسل نو کے کھیل کود روایتی بلوچی کھیل نہیں رہے ، وہ جدیدیت کا شکار ہوکر اپنی روایتی بلوچی کھیلوں کو جانتے تک نہیں ہیں۔ ایسے میں بلوچ قوم کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنی نسل نو میں بلوچی کھیل کود کو منتقل کرنے کے اقدامات کریں۔

ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض پڑھے لکھے بلوچ گھرانوں میں اپنے بچوں سے اپنی مادری زبان کے بجائے انگلش ملی اردو میں بات چیت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی سوچ یہ ہوتی ہے بچہ بڑا ہوکر بہتر انداز میں اردو اور انگلش بول سکتا ہے۔ اس طرح یہ امر بھی بلوچ ثقافت کے لیے المیہ ہے جس پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔

یہاں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دوسری زبانیں سیکھنے اور بولنے میں کوئی حرج نہیں لیکن چونکہ بچے کی پہلی درسگاہ، ماں کی گود ہے اور ماں کی گود سے مادری زبان کو نکالنا اپنی ثقافت کو ختم کردینے کے مترادف عمل ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اسکولوں میں بھی پرائمری سطح پر مادری زبان میں تعلیم دینی چاہیے کیونکہ جدید تاریخ یہ ہے کہ جن اقوام نے اپنے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دی ہے ، آج وہ قومیں ترقی یافتہ کہلاتی ہیں ، لہٰذا بلوچی زبان میں اپنے بچوں کی تربیت کریں، اسی میں بلوچ ثقافت کی بہتری ہے۔

گزشتہ12سالوں سے بلوچ ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے '' بلوچ کلچر ڈے'' منایا جارہا ہے ، بلوچ ثقافت دن منانا اچھی بات ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ بلوچ کلچر ڈے انگلش الفاظ ہیں جو بلوچی زبان سے متصادم زبان ہے ، اس طرح بلوچی زبان کے بجائے انگریزی زبان کو فروغ دینے کی ایک کوشش، اس نام پر نظرثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ بلوچ ثقافت کو بلوچی زبان میں (بلوچی دود و ربیدگ) کہتے ہیں ، اگر مقصد غیر بلوچوں کو سمجھانا ہے تو بہتر متبادل زبان ہماری قومی زبان اردو ہے جسے استعمال کرتے ہوئے اس دن کو ( بلوچ یوم ثقافت ) کا نام دینا زیادہ بہتر ہوگا۔ خوامخوا اسے بدیسی زبان میں یاد رکھنا بلوچ ثقافت کے برخلاف ہے ، جو ذہنی غلامی کی عکاس ہے۔ بلوچی موسیقی اپنا جداگانہ مقام رکھتی ہے ، اس کی مسحور کن دھنیں دنیا بھر میں سنی جاتی ہے اور بلاشبہ کسی قوم کی زبان و ثقافت کو دوام بخشنے میں اس کی موسیقی خاص اہمیت رکھتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر بلوچ یوم ثقافت کے موقع پر بلوچی موسیقی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے اس روز بلوچ فنکار اپنے فن کے ذریعے ثقافت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جنھیں نہ صرف بلوچ قوم داد دیتی ہے بلکہ غیر بلوچ اقوام بھی اسے سراہتے ہوئے جھوم اٹھتے ہیں۔

یہاں میری صرف اتنی سی گزارش ہے کہ بلوچ یوم ثقافت کے موقع پر ثقافت کے دیگر پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا جائے کہیں ایسا نہ ہوکہ غیر بلوچ اقوام کے ذہنوں میں صرف یہ بات سرایت کرجائے کہ بلوچ ثقافت صرف ناچ و گانے تک محدود ہے، جس طرح بلوچوں نے اپنی شادی بیاہ کی تقاریب میں شیدی برادری کے لیوا ناچ کو فروغ دیا ، جو آگے چل کر بلوچ ثقافت کا ایک حصہ سمجھا جارہا ہے جب کہ لیوا بلوچ ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔

اسی طرح گدھا گاڑی کی ریس بلوچ ثقافت کا حصہ نہیں ہے بلکہ چند شوقین افراد نے گدھا گاڑی ریس کی ابتدا کی تھی ، جو اب بلوچ ثقافت کا ایک حصہ سمجھی جا رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بلوچی موسیقی کے ساتھ ساتھ بلوچ ثقافت کے دیگر پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا جائے جس کی فہرست خاصی طویل ہے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لفظ ( بلوچی ثقافت ) غلط ہے درست لفظ ( بلوچ ثقافت ) ہے۔

اسی طرح بلوچ ، صرف بلوچ ہیں ، مکرانی کوئی قوم نہیں ہے ، غیر بلوچ اقوام سمجھ بیٹھی ہے کہ بلوچوں میں جس کا رنگ و صورت حبشیوں جیسی ہے وہ مکرانی ہے اور جو گورا یا گندمی رنگ کا ہے وہ بلوچ ہیں، یہ سوچ غلط ہے جسے فروغ دیا گیا ہے۔ بلوچ صرف بلوچ ہیں، مکرانی ہونے کی اصطلاح غلط ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔