عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں

ماضی کی نسبت خواتین کی حالت بہتر، مزید اقدامات کرنا ہونگے،خواتین کے حوالے سے موثر اور بہترین قانون سازی ہوئی


ماضی کی نسبت خواتین کی حالت بہتر، مزید اقدامات کرنا ہونگے،خواتین کے حوالے سے موثر اور بہترین قانون سازی ہوئی ۔ فوٹو : فائل

8 مار چ کو ہر سال خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں خواتین کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور ان کے حقوق و تحفظ کیلئے ہونے والے کام کا جائزہ لے کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔

اس اہم دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

کنیز فاطمہ چدھڑ
(چیئر پرسن وویمن پروٹیکشن اتھارٹی پنجاب)

2006ء سے پہلے خواتین کے حقوق کے حوالے سے صورتحال بہتر نہیں تھی اور نہ ہی اس طرح بات ہوتی تھی۔ پھر خواتین کیلئے قانون سازی ہوئی، مختلف ادارے بنے، میکنزم بنا، لوگوں کو آگاہی ملی اور اس طرح ملکی خواتین کی حالت بہتر ہونا شروع ہوگئی۔

یہی وجہ ہے کہ آج ہم خواتین کے مسائل کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں اور کام بھی کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ملک میں خواتین کے حوالے سے موثر قانون سازی ہوئی اور اس کے پیچھے خواتین کی بڑی جہدوجد شامل ہے۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں خواتین کی ایک بڑی تعداد اسمبلیوں میں آئی، میڈیا آزاد ہوا اور خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو آواز ملی۔ اب چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے سیاسی جماعتیں خواتین کو ٹکٹ دیتی ہیں ۔

جو خواتین الیکشن لڑ کر آسکتی ہیں سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ ان کی حوصلہ افزائی کریں، ان کے ساتھ تعاون کریں اور خواتین کو مین سٹریم میں لانے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔ تحریک پاکستان سے لے کر اب تک خواتین نے ملک کیلئے بہت کام کیا ہے، ان میں محترمہ فاطہ جناح ؒ کا عظیم کردار ہے۔

خود قائداعظمؒ نے بھی یہ اظہار کیا کہ خواتین کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ ہمیں خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں سازگار ماحول بھی دینا ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس حوالے سے اقدامات کر رہی ہے۔ ہمیں خواتین کے کردار کو تسلیم نہ کرنے کی سوچ کو ترک کرنا ہوگا، اداروں میں خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا ہوگا، انہیں ان کی قابلیت کے مطابق رول دینا ہوگا۔

ہماری حکومت اس حوالے سے جارحانہ انداز میں اقدامات کر رہی ہے۔ ایک بات اہم ہے کہ ہمیں خواتین کے لیے قانون سازی میں انہیں شامل کرنا چاہیے، خاص کر نچلی سطح پر کام کرنے والی خواتین کی آواز کوبھی سننا ہوگا، ان کے مسائل حل کرنے کیلئے ان سے رائے لازمی لینی چاہیے۔ حکومت احساس پروگرام کے تحت خواتین کو کاروبار کے لیے چھوٹے قرضے فراہم کر رہی ہے، کامیاب جوان پروگرام کے تحت نوجوان لڑکیوں کو مواقع دیے جا رہے ہیں۔

اسی طرح ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کے پلیٹ فارم اور مختلف اداروں کے تعاون سے دیہی و دور دراز علاقوں کی خواتین کو تربیت دی جا رہی ہے، انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے، سلائی کڑھائی کے علاوہ آئی ٹی و دیگر کورسز بھی کروائے جا رہے ہیں تاکہ وہ اپنا روزگار بہتر طریقے سے کما سکیں۔

خواتین کے شناختی کارڈ کا مسئلہ بھی اہم ہے، لاکھوں خواتین کے شناختی کارڈ نہیں ہیں، ہم نے احساس پروگرام جیسے منصوبوں کو شناختی کارڈ سے منسلک کیا ہے جس سے بہتری آرہی ہے۔ شناختی کارڈ کے اجراء کیلئے نادرا اور ہماری ٹیمیں بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہیں، گلی محلوں میں وینز بھیج کر لوگوں کا اندراج کیا جا رہاہے۔ زرعی شعبے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کام کرتی ہے، انہیں سوشل سکیورٹی دینے کے منصوبے پر کام جاری ہے، خواتین کی رجسٹریشن کا عمل تقریباََ مکمل ہوچکا، جلد اس میں پیشرفت ہوگی۔

بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)

پاکستان میں خواتین کے حقوق کی تحریک کو وقت کے ساتھ فروغ ملا۔اس میں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مزدور و دیگر تحریکوں نے یکجا ہوکر مسائل کو اجاگر کیا، لوگوں کو آگاہی دی کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور سوال اٹھایا کہ حقوق کو صلب کیوں کیا جا رہا ہے۔

معاشرے کے مختلف طبقات کی تحریکوں کے اکٹھا ہونے سے آواز زوردار ہوگئی اور اس میں سب کو ہی کامیابی ملی ۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اگرچہ مسائل بھی پیدا ہوئے مگر جدید دور میں اس کی وجہ سے خواتین کے حقوق کی آواز دور تک گونج رہی ہے، آگاہی میں تیزی آئی ہے اور اب معاملات اس طرح نہیں ہیں جیسے ماضی میں تھے،ا ب آواز کو دبانا خاصا مشکل ہے۔

پاکستانی خواتین نے انفرادی طور پر تعلیم، صحت، زراعت، کاروبار سمیت دیگر شعبوں میں مثالیں قائم کی ہیں اور اپنی جدوجہد سے ہر میدان میں آگے آئی ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ ہمارے پاس 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بہت اچھی مثالیں موجود ہیں جن پر خوشی منانی چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ ترقی کے ثمرات ہر پاکستانی عورت تک پہنچے ہیں یا نہیں۔ کیا ہماری لڑکیاں، محنت کش خواتین، گھریلو ملازمین، کسان و دیگر کیلئے بھی مواقع ایک جیسے ہیں؟ کیا ان کی حالت بہتر ہوئی ہے؟ میرے نزدیک ہم سفر میں آگے ضرور بڑھے ہیں تاہم ابھی بہت سارا کام باقی ہے۔

دنیا میں اب پیٹرن تبدیل ہورہا ہے، تعصب اور نفرت کی جگہ ختم ہوتی جارہی ہے اور ایک نئی روشنی پھیل رہی ہے لہٰذا ایسے حالات میں لوگوں کی حق تلفی کی گنجائش باقی نہیں رہے گی اور نہ ہی حق تلفی کرنے والے دنیا کے سامنے کھڑے ہوسکیں گے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں خواتین کو برابر حقوق حاصل نہیں ہیں مگر اس کے باوجود خواتین اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور آ گے بڑھ رہی ہیں۔ اپنے بلبوتے اورجدوجہد پر ہی خواتین آگے بڑھ رہی ہیں، انہیں تو کھیل اور سیاست سے بھی دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، افسوس ہے کہ اجتماعی طور پر ہماری عورت کو سہولیات میسر نہیں ہیں۔ خواتین کو تعلیم اور کام کے حصول کیلئے دوسرے شہروں میں جانا پڑتا ہے جہاں انہیں مختلف مسائل کا سامنا ہے۔

ہاسٹلز کے مسائل الگ ہیں لہٰذا دیہی و دور دراز علاقوں کی خواتین کیلئے ان کے علاقے میں مواقع فراہم کیے جائیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاست اور حکومت کی سطح پر خواتین کے حوالے سے سست روی ہے اور کہیں تعصب بھی موجود ہے۔ عورت مارچ کو روکنا غیر جمہوری رویہ ہے، یہ کسی بھی طور پاکستانی خواتین کو قبول نہیں، خواتین کو واپس اسی دور میں دھکیلا جا رہا ہے۔

جہاں سے جدوجہد کرکے وہ یہاں تک پہنچی ہیں۔ عورت ایک مکمل انسان ہے، وسائل، حقوق، ترقی و دیگر حوالے سے اسے پورا حق حاصل ہے، ہم اسے شہری، دیہی، ملازمت پیشہ، مزدور، گھریلو عورت و دیگر حوالے سے تقسیم در تقسیم نہیں کر سکتے، عورت کو تمام انسانی حقوق حاصل ہیں، حق تلفی کرنے والے رویوں کا تدارک کیا جائے۔ پاکستانی عورت بہادر ہے، وہ اپنے حقوق کیلئے لڑتی رہے گی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ صنفی اور جنسی خاتمے کے بغیر ملکی ترقی اور استحکام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔

ربیعہ باجوہ
(ایڈووکیٹ)

پاکستان میں اگر قانون سازی کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں بہت اچھے قوانین موجود ہیں۔ یہاں خواتین کیلئے کافی قانون سازی ہوئی ہے اور ہمارے قوانین خواتین کو سہولت فراہم کرتے ہیں۔ اس میں خود خواتین کا ہاتھ ہے جنہوں نے اپنے حقوق کی جدوجہد سے ریاست اور حکومتوں کو مجبور کیا کہ وہ خواتین کیلئے قانون سازی کریں اور مخالفت نہ کریں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور آمریت میں بھی جو قانون سازی ہوئی اس کے پیچھے بھی خواتین کی جدوجہد ہی ہے۔

اس میں صرف مقامی خواتین ہی نہیں بلکہ خواتین کی عالمی جدوجہد کا کردار بھی شامل ہے۔بیگم رعنا لیاقت علی خان کی آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) اور محترمہ فاطمہ جناح ؒ کی خواتین کیلئے جدوجہدقابل تعریف ہے۔

میرے نزدیک پاکستانی خواتین کی جدجہد میں طاہرہ مظہر کا کردار بہت اہم ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت میں خواتین کے مسائل میں اضافہ ہوا، اس وقت ویمن ایکشن فورم بنا، وہ اس کی روح رواں تھی، دیگر بڑے نام بھی ان کے ساتھ تھے، میں اور بشریٰ خالق اس جدوجہد کا حصہ اور عینی شاہد ہیں۔ خواتین کی بھرپور جدوجہد نے مخالف رویوں کو شکست دی۔ گزشتہ 20 برسوں کا جائزہ لیں تو بہت اچھی قانون سازی ہوئی ہے۔

کریمنل لاء، فیملی لاء، ہراسمنٹ ایکٹ، فیئر رپریزینٹیشن ایکٹ، وراثت کا قانون سمیت بے شمار قوانین سے خواتین کو فائدہ ہوا ہے۔ جبری شادیوں، قرآن سے شادی جیسی رسومات کی حوصلہ شکنی ہوئی، کام کی جگہ پر ہراسمنٹ میں کمی آئی، لوگوں کو آگاہی ملی، سزا کاخوف پیدا ہوا اور خواتین کو سازگار ماحول ملنے کا آغاز ہوا۔ فیئر رپریزینٹیشن ایکٹ کی وجہ سے خواتین کو بڑی کامیابی ملی، یہ اسی کا ثمر ہے کہ خواتین آج بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔

اسی طرح سیاست میں بھی خواتین کی خاصی تعداد نظر آتی ہے۔ کام کافی ہوا ہے مگر اس کے باوجود ہر عورت کو کسی نہ کسی صورت میں نفرت، تضحیک، ہراسمنٹ وغیرہ کا سامنا رہتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون سازی تو بہتر ہوئی مگر عملدرآمد کا میکنزم کمزور ہے۔ عورت کو کبھی کلچر، کبھی مذہب، کبھی سماج کے نام پر کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔

ہمارے ہاں طبقاتی سماج ہے اور طبقات میں تقسیم کرکے اشرافیہ اور خاص طبقات فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر ہم صنفی امتیاز و دیگر حوالے سے نچلے درجے اور آخری نمبروں پر ہیں۔

ہمارے نظام انصاف میں بھی مسائل ہیں۔خواتین ججز کی تعداد کم ہے جبکہ دور دراز شہروں میں خواتین ججز ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے مردانہ حاکمیت والی سوچ پیدا ہوتی ہے اور اس کا نقصان مقامی عورت کو ہوتا ہے۔ میرے نزدیک صنفی حوالے سے ججز کی تربیت کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام کی اوورہالنگ کرنا ہوگی۔

صاحب اسراء
(اتھلیٹ)

خواتین کیلئے کھیل کے میدان میں آنا کافی مشکل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں لوگ انہیں اچھا نہیں سمجھتے۔ مجھے بھی کچھ ایسے ہی رویوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ لوگوں کا اس سے بھی شدید ردعمل آیا کیونکہ میرا تعلق مذہبی گھرانے سے ہے اور میرے والد امام مسجد ہیں۔ انہیں میری وجہ سے طعنے ملے، لوگوں نے دباؤ ڈالا مگر وہ میرے ساتھ کھڑے رہے اور مجھے مکمل سپورٹ کیا۔

آج جب میں عالمی پلیٹ فارمز پر پاکستان کا نام روشن کر چکی ہوں، میڈلز لائی ہوں تو وہی لوگ مجھے قوم اور علاقے کا فخر قرار دیتے ہیں۔ میری وجہ سے بہت ساری لڑکیاں آگے آئی ہیں،جنہوں نے اس معاشرے سے لڑنے کی ہمت کی ہے اور اپنا راستہ خود بنا رہی ہیں۔

میرا تمام لڑکیوں کو یہ پیغام ہے کہ وہ ہمت نہ ہاریں، جدوجہد جاری رکھیں، کامیابی ضرور ملے گی۔ جو لڑکیاں سپورٹس میںآنا چاہتی ہیں انہیں اپنے حوصلے بلند رکھنے ہیں، معاشرے کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے، اپنے اندر صبر پیدا کرنا ہے کیونکہ کھیل میں کامیابی دنوں میں نہیں برسوں میں ملتی ہے، انہیں خود کو مشکل حالات کیلئے تیار کرنا ہے، محنت کرنی ہے، کامیابی خود ان کے پیچھے ہوگی۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں لڑکیوں کیلئے کھیل کے مواقع نہیں ہیں، کالج، یونیورسٹی کی سطح پر تو لڑکیوں کو مواقع مل جاتے ہیں مگر اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے، وہاں بھی انہیں بہت محنت کرنی پڑتی ہے، میرا مطالبہ ہے کہ کھیلوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کو یقینی بنایا جائے اور انہیں مختلف اداروں میں کھیل کی بنیاد پر ملازمت دی جائے جس طرح مرد کھلاڑیوں کو ملتی ہیں۔

ہمارے ہاں کوچنگ کے طریقے آج بھی پرانے ہیں، دنیا میں جدت آچکی ہیں، نئی گیمز بھی آئی ہیں لہٰذا ہمارے ہاں بھی کھیل کے شعبے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ یہ خوش آئند ہے کہ ماضی کی مقابلے میں ہمارے ہاں بہتری آئی ہے۔

اب لڑکیوں کیلئے تربیتی کیمپس لگائے جاتے ہیں، کھیل کے میدان میں لڑکیاں ترقی کر رہی ہیں، ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، والدین خود بھی اپنی بچیوں کو اس میدان میں بھیج رہے ہیں جو حوصلہ افزا ہے۔ ہمیں کھیل کے حوالے سے لڑکیوں کو مزید مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو آگاہی بھی دینی ہے، لوگوں کی سوچ اور رویوں میں تبدیلی کے بغیر خواتین کے مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں