سیاسی کھیل میں جماعت کا مقام
عوامی فلاح وبہبودکے تمام نظریات اورپروجیکٹس جب تک صرف منشوراور کاغذوں تک محدودہوں تواس کافائدہ عوام تک ہرگزنہیں پہنچتا
1970 کا زمانہ تھا۔ تیر ہ سالا آمریت کے بعد ملک بھر میں پہلے عام انتخابات کروائے جارہے تھے، 7 دسمبر کو پولنگ کا دن تھا۔ صبح سویرے جب قومی اخبارات نے اس دن کی مناسبت سے اپنے اسپیشل ایڈیشن شایع کیے تو مغربی پاکستان کے تمام اخبارات میں سرورق پر صرف دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان مقابلے کا خیال ظاہر کیا گیا۔
اس میں ایک تھی پاکستان پیپلزپارٹی اور دوسری جماعت اسلامی۔ جماعت اسلامی اپنی ساری انتخابی مہم اور مقبولیت کے نتیجے میں دوسری بڑی سیاسی جماعت سمجھی جارہی تھی۔ ملک کے ایک مشہور اخبار نے تو اپنے پہلے صفحہ پر دو بڑے سیاسی لیڈروں کی پورٹریٹ سجا رکھی تھی اس میں سے ایک تھے ذوالفقار علی بھٹو اور دوسرے تھے مولانا ابو الاعلی مودودی۔
بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ چونکہ پاکستان ایک اسلامی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا تو اس ملک میں بہت سارے لوگ آج بھی بھٹو صاحب کے سوشلزم اور کمیونزم جیسے نظریات کے مقابلے جماعت اسلامی کے فیور میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے لیکن جب اس الیکشن کا نتیجہ آیا تو پیپلزپارٹی نے 81 نشستیں اور جماعت اسلامی نے صرف 4 نشستیں حاصل کیں۔
جماعت کے کرتا دھرتاؤں اور اس کے چاہنے والوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن جماعت عددی اعتبار سے اس سے زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے۔
تقریباً پچاس سالوں کی اس جدوجہد میں صرف ایک بار اسے کچھ زیادہ نشستیں مل پائی ہیں جب وہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے 2002 کے الیکشن میں حصہ لے رہی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے وہ اچھی خاصی مقبولیت رکھتی ہے لیکن پارلیمانی جمہوریت میں جہاں اقتدار حاصل کرنے کے لیے نشستوں کے حصول کی ضرورت ہوتی ہے وہ پیچھے جاتی ہے۔
سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ لوگ اُسے دوسری جماعتوں کی نسبت ایک اخلاقی، جمہوری اور پاک صاف جماعت تو ضرور سمجھتے ہیں لیکن اُسے حق حکمرانی دیتے ہوئے بخل سے کام لیتے ہیں۔ ملک میں جب جب الیکشن ہوئے جماعت اسلامی نے اس میں شرکت بھی کی اور باقاعدہ سیاسی انتخابی مہم بھی چلائی ، لیکن جب بیلٹ باکس کھولے گئے تو اس کے حق میں ووٹ بہت کم نکلے۔
میاں محمد طفیل کے زمانے سے لے کر موجودہ امیر سراج الحق تک جماعت اپنے اُصولوں پر مضبوطی سے ڈٹی رہی۔ اس کا خیال ہے ایک دن اُسے اسی طرز عمل اور انداز سیاست پر ضرور کامیابی نصیب ہوگی۔ مولانا مودودی کے بعد میاں طفیل آئے، قاضی حسین آئے ، پھر منور حسن اور اب موجودہ امیر سراج الحق لیکن جماعت نے اپنی پالیسی نہیں بدلی۔ اکیلے اور تنہا سولو فلائٹ کی وہ بہت قائل ہے ۔
حالانکہ جب جب اس نے کسی دوسری ہم خیال سیاسی پارٹی یا گروپ کے ساتھ ملکر الیکشن لڑا اُسے اپنے حق سے زیادہ کامیابیاں ملیں۔ IJI کے ساتھ 1990 اور پھر 2002 میں MMA کے ساتھ ملکر انتخاب لڑنے کا اُسے یقینا اضافی فائدہ حاصل ہوا ، مگر سمجھ نہیں آتا کہ وہ پھر بھی سولو فلائٹ کی اتنی کیوں قائل ہے۔ موجود دور میں بھی وہ ابھی تک کسی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر پائی ہے نہ عمران خان کے ساتھ ، نہ پیپلزپارٹی کے ساتھ اور نہ PDM کے ساتھ۔ وہ 2014 میں خان صاحب کے دھرنوں کے دنوں میں بھی کنفیوژن کا شکار تھی۔
عمران خان اور حکومت دونوں ان کے اس رویے سے ابہام اور شکوک کا شکار تھے۔ آج بھی وہ کبھی مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف تحریک شروع کرنے کا اعلان کرتی ہے اور کبھی جلسہ اور جلوس بھی نکال کر اپنے وجود کا یقین تو دلاتی رہتی ہے لیکن اس کی تحریک میں وہ حرارت اور جذبہ دیکھا نہیں جاتا جسے حکومت مخالف کسی تحریک کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ہلکے پھلکے احتجاج کرکے وہ سمجھتی ہے کہ عوام اُس کے اس تحریک سے مطمئن ہوکر اُسے اگلے الیکشن میں کسی بڑی کامیابی سے ہمکنار کردیں گے ۔
کراچی والوں نے اُسے ہمیشہ بہت نوازا ہے اور اس شہر کے باسیوں کی ایک بہت بڑی تعداد آج بھی اس سے لگاؤ اور محبت رکھتی ہے۔ ملک بھر میں اسے کسی شہر کی میئر شپ نصیب ہوئی ہے تو بھی صرف اسی شہر کی۔ ایک سے زائد مرتبہ میئر شپ حاصل کرنے کا اعزاز بھی جماعت کو اسی شہر نے مرحمت فرمایا ہے۔ پاکستان میں آج تک جتنے بھی قومی الیکشن ہوئے ہیں جماعت کو ملنے والی کل نشستوں میں سے نصف نشستیں اس شہر نے ہی عطا کی ہیں، مگر دیکھا یہ گیا ہے جماعت کی امارت دینے میں اس شہر کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا ہے جو باقی سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے کرتی آئی ہیں۔
کراچی شہر کے امیر نے بلاشبہ جماعت کے لیے تن من دھن سب کچھ نثارکر دیا ہے لیکن جب پارٹی کی ملکی سطح پر امارت دینے کا وقت آتا ہے تو پتا نہیں اس کے حق میں ووٹ کہاں چلے جاتے ہیں۔ جماعت کی مقبولیت میں نصف وزن صرف اس شہر کے لوگوں کی وجہ سے ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے اس شہر کو اس کا حق دلوانے کے لیے جتنی جدوجہد کی ہے شاید ہی کسی اور جماعتی رہنما نے کی ہو ، مگر کیا صرف ایک شخص کی ذاتی کوششوں سے جماعت کو اس شہر کی میئر شپ مل جائے گی یا پھر سارے ملک میں جماعت اگلے انتخابات میں کوئی بھرپور کامیابی حاصل کر پائے گی ۔
اس کے بعد معرض وجود میں آنے والی بہت سی سیاسی جماعتیں عوامی پذیرائی اور مقبولیت کے مطلوبہ درجہ پر پہنچ گئیں اور اقتدار کے ثمرات سے لطف اندوز بھی ہوگئیں لیکن جماعت آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں یوم تاسیس کے دن کھڑی تھی۔
عوامی فلاح و بہبود کے تمام نظریات اور پروجیکٹس جب تک صرف منشور اور کاغذوں تک محدود ہوں تو اس کا فائدہ عوام تک ہرگز نہیں پہنچ پاتا۔ بند کمروں میں بیٹھ کر خود کو پاک صاف اور نیک سیرت سمجھ کریہ سوچ لینا کہ اس طرح عوام اُسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچادیں گے ہرگز نہیں۔ ایسا ہونا دنیا کے کسی ملک میں بھی ممکن نہیں ہے۔ جب سیاسی میدان میں کودا گیا ہو اورخود کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر عوام کے سامنے پیش بھی کیا ہوتو عوامی سیاست کو بھی اپنانا ضروری ہوتا ہے۔
جماعت نے بلاشبہ بہت سے اچھے کارکنان پیدا کیے اور تربیت دیکر انھیں سنوارا بھی لیکن کیا وہ اس سے مایوس ہو کر اُسے چھوڑ نہیں گئے۔