آزادیٔ نسواں اور ہماری تہذیبی اقدار
مسلمانوں کویہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ عورت مارچ جیسی سرگرمیاں دراصل مغربی اوراسلامی تہذیب کے مابین جاری جنگ کاحصہ ہیں
لاہور:
آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے، حقیقت میں یہ دن منانے کا کلچر مغرب سے آیا ہے۔ اِس دن کو منانے کا طریقہ اور اس کی آڑ میں جو ایجنڈا آگے بڑھانا ہوتا ہے وہ بھی مغرب ہی کی جانب سے مسلط کیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو چند ڈالروں کے عوض اپنی خودی اور شناخت گروی رکھ دیتے ہیں اور دینی تعلیمات کا تمسخر اڑانے اور مشرقی روایات کو پامال کرنے پر تل جاتے ہیں۔ کسی کو میری بات سے اختلاف ہو تو گزشتہ چند برسوں کے دوران ہرسال آٹھ مارچ کو ہونے والے عورت مارچ کی وڈیوز نکال کے دیکھ لیں۔ جن میں چند مرد و خواتین نے ایسے پلے کارڈز تھام رکھے ہوتے ہیں جن پر درج نعرے اور سلوگن کوئی شریف باپ اپنی بیٹی اور کوئی شریف بھائی اپنی بہن کے سامنے نہیں دہرا سکتا۔ ایک عورت نے کہا کہ ''اگر دوپٹہ پہننا اتنا ہی پسند ہے تو اپنی آنکھوں پر باندھ لو۔''
ان میں سے ایک سلوگن''میرا جسم میری مرضی'' پر ہم کالم لکھ چکے ہیں، جس میں ہم نے اس حقیقت کا کھل کر ذکر کیا تھا کہ جسم بھی اللہ کا اور مرضی بھی اللہ کی۔ جو آنٹیاں اور انکل ایسے قابل اعتراض نعروں والے پلے کارڈز اٹھا کر اللہ کو ناراض اور اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کر رہے تھے۔
ان میں سے کسی ایک کو اپنے جسم پر اتنااختیار نہیں کہ اگر دو لقمے زیادہ کھانا کھانے سے پیٹ میں گیس ہوجائے وہ اس سے نجات حاصل کر سکیں لیکن مادر پدر آزادی کے یہ علمبردار کہاں باز آئیں گے، ان کی عقل پر پردے پڑ چکے ہیں، ہم بھی حق پرست ہیں اعلائے کلمۃ الحق بلند کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
اس سال بھی آٹھ مارچ کے موقعے پر ملک کے مختلف شہروں میں عورت مارچ کا اہتمام کیا گیا ہے اور ہماری اطلاع کے مطابق اس بار اس مارچ کے منتظمین عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی حجاب پہنائیں گے، چاہے وہ حجاب ماسک کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔
اگر ایسا کوئی کام ہوا تو یہ جہاں ہماری مشرقی اقدارکی نفی ہوگی وہاں ہندوستان کی مسلم خواتین کی حوصلہ شکنی اور جنونی ہندوؤں کی ہمنوائی ہوگی محسنجنھوں نے حجاب پہننے والی بھارتی مسلمان خواتین کا جینا حرام کررکھا ہے۔ اس موم بتی گروپ کو ان غیر شائستہ سرگرمیوں سے باز رہنا چاہیے اور حکومت کو بھی اس حوالے سے کوئی ضابطہ اخلاق طے کرنا چاہیے۔ کوئی کپتان کو بتائے کہ کیا ریاست مدینہ میں یہ سب کچھ ہوتا تھا۔ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کو مغربی کلچر کی دلدل میں پھنسایا جا رہا ہے۔
اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں ان کی مثال آج تک دنیا کا کوئی مذہب پیش نہیں کرسکا، اسلام کی آمد سے قبل عورت المناک صورت حال سے دوچار تھی، جسے اسلام نے آزادی عطا کی۔ عورت کے حقوق کا تحفظ اسلام کے عطا کردہ ضابطوں سے ہی ہوسکتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اسلام نے عورت کو بے انتہا عزت سے نوازا ہے۔ قرآن کریم، احادیث رسول اور فقہِ اسلامی میں عورتوں کے حقوق کے متعلق مستقل احکام موجود ہیں۔
اسلام کسبِ معاش کی خاطر عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے کو ان کی توہین وتذلیل سمجھتا ہے، اس لیے شریعت نے باپ، خاوند، بیٹے، بھائی وغیرہ محرموں پر بالترتیب لازم کیا ہے کہ وہ عورت کی کفالت کریں۔
اگر بالفرض ان میں سے کوئی موجود نہ ہو تواسلام حکومتِ وقت پر یہ فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ اس کے مصارف برداشت کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میں خاندان جڑے ہوئے ہیں، جہاں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کو بڑی قدرومنزلت اور عزت کا مرتبہ حاصل ہے۔ لیکن ''حقوقِ نسواں'' کی آڑ میں جو آزادی مانگی جا رہی' اس سے عورت کی تکریم میں اضافہ نہیں ہو گا۔ گویا آج مسلم عورت جس کو ''ملکہ'' اور ''شہزادی'' کا مرتبہ حاصل ہے، وہ قرونِ اولیٰ کی مظلوم ومقہور عورتوں کی صف میں کھڑا ہونا چاہتی ہے۔
اسلام نے عورت کو بیجا غلامی، ذلت، اور ہتک آمیز رویوں سے نجات دلائی، اسلام صنف نازک کے لیے نوید صبح مسرت بن کر آیا اور عورت کے لیے احترام کا پیامبر ثابت ہوا۔ اب اگر عورت ماں بن جائے تو اس کے قدموں میں جنت کو رکھ دیا۔ بیٹی ہو تو نعمت عظمیٰ قرار دیا گیا، اگر بہن ہو تو احترام کا پیکر اور اہلیہ ہو تو اس کو خوشگوار گھریلو زندگی کا ضامن قرار دیا گیا۔
اسلام عورت کو حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ پر امن، خوشگوار، پرسکون اور اطمینان والی زندگی گزارنے کی ضمانت دیتا ہے جس کی بدولت اس کی عزت و آبرو، عفت و حیا اور پاکدامنی محفوظ رہتی ہے۔ نبی رحمتﷺ نے عورت کے سماجی، تمدنی، معاشی، تعلیمی اور سب سے بڑھ کر انسانی حقوق کو اپنے عملی رویوں سے ایسا واضح کیا ہے کہ قیامت کی صبح تک وہ ہدایت کے روشن چراغ بن کر رہنمائی کرتے رہیں گے۔
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں خواتین کے لیے تفصیلی احکام نازل فرمائے بلکہ مستقل طور پر ایک سورۃ کا نام''نساء''رکھا۔ جس کے اندر زمانہ جاہلیت میں خواتین کے ساتھ معاشرتی جبری تشدد کی نشاندہی کرکے ان کے خاتمے کی ہدایات دی ہیں۔ ایک مسلمان عورت کے لیے اسلام کی یہ تعلیمات ہی کافی ہیں، میں گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں کہ انھیں ان تعلیمات نے جو حقوق دیے ہیں کوئی نہیں دے سکتا۔
سورہ النساء حقوق نسواں کا آسمانی چارٹر ہے، اللہ رب العزت نے اس ایک سورت میں عورتوں کے تمام حقوق کو جمع کردیا اور بتا دیا کہ ایک مسلم معاشرے میں عورت کسی بھی روپ میں ہو، چاہے وہ بیٹی ہو، بہن ہو، بیوی ہو یا ماں ہو، اس کی کفالت کی ذمے داری مرد پر ہے۔
اسے باہر جاکر کمانے کی ضرورت ہے نہ کوئی اسے مجبور کرسکتا ہے البتہ جب وراثت کی تقسیم کا وقت آئے گا تو وہ حقدار ہوگی، ماں کو بھی وراثت میں حق ملے گا، بیوی کوبھی ملے گا، بہن کو بھی ملے گا اور بیٹی کو بھی ملے گا۔ قرآن کریم میں کسی کا حق کھانے والوں کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہیں۔
اسلام عورت کو زندگی کا حق دیتا ہے، اسے پرورش کا حق دیتا ہے، اسے تعلیم کا حق دیتا ہے، اسے معاشی حق دیتا ہے، اسے تمدنی حق دیتا ہے، اظہار رائے کا حق دیتاہے۔ اہل مغرب اور ان کے پروردہ عورت کے لیے ایک دن مناتا ہے، اسلام نے ان کے حقوق و تعظیم کے لیے سال میں 365دن مقرر کیے ہیں، ان 365دنوں میں سے ایک لمحے کے لیے بھی عورت کو بھولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اسی طرح اہل مغرب سال میں ایک بار ماں کا دن مناتے ہیں اور ایک دن باپ کا منا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے والدین پر بہت بڑا احسان کردیا ہے ہے۔ اسلام کہتا ہے 365دنوں میں سے ایک لمحے کے لیے اپنے والدین کو بھولنے کی اجازت نہیں، ماں کے قدموں تلے جنت رکھ کر بچوں کو پابند بنا دیا کہ ماں کی خدمت کرو، بوڑھے ہونے پر انھیں اولڈ ہاؤس میں نہ بھیجنا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میں خاندان جڑے ہوئے ہیں، جہاں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کو بڑی قدرومنزلت اور عزت کا مرتبہ حاصل ہے۔
مسلمانوں کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے کہ عورت مارچ جیسی سرگرمیاں دراصل مغربی اور اسلامی تہذیب کے مابین جاری جنگ کا حصہ ہیں۔ مغربی تہذیب کے علمبردار اور اْن کے دیسی ٹاؤٹ میدانِ جنگ سے لے کر تہذیبی وثقافتی سطح تک ہر محاذ پر سرگرم ہیں۔ اس صورت حال میں اسلامی تہذیب کی بقا وسلامتی کا واحد راستہ یہی ہے کہ مسلمان آقائے کریمﷺ کی تعلیمات اور خاص طور پر سنتِ رسولﷺ کو حرزِ جاں بنالے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مسلم معاشرہ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے،(آمین)