زباں فہمی خداحافظ کو خداحافظ

صدیوں سے رائج فقرہ ’’خدا حافظ‘‘ ترک کرکے ’’اللہ حافظ‘‘ کہنے لگے اور کہنے کی سختی سے تاکید کرنے لگے


صدیوں سے رائج فقرہ ’’خدا حافظ‘‘ ترک کرکے ’’اللہ حافظ‘‘ کہنے لگے اور کہنے کی سختی سے تاکید کرنے لگے۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 136

پچھلے کوئی چالیس سالوں میں اردو کی لسانی تشکیل یا تعمیر وتخریب کے باب میں کچھ اور ہوا ہو نہ ہوا ہو، یہ ضرور ہوا کہ بہت سے شدت پسند، غلوپسند لوگ اپنی ناقص فہم دین اور کچی پکی لسانی معلومات کے سبب، صدیوں سے رائج فقرہ ''خدا حافظ'' ترک کرکے ''اللہ حافظ'' کہنے لگے اور کہنے کی سختی سے تاکید کرنے لگے۔

اس ضمن میں طبقہ علماء میں تو شاید ایک فیصد بھی بمشکل اُن کے حامی ہوں (بلا امتیاز ِ مسلک و مکتب )، البتہ عوام الناس کی ایک اچھی خاصی تعداد یہی کہنے اور تلقین کرنے لگی کہ بھئی خدا حافظ کہنا ٹھیک نہیں، ہمارا تو اللہ ہے، اس لیے اللہ حافظ کہا کرو۔ خدا تو قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا، اس لیے غیراسلامی ہے۔ اس بظاہر نازک اور متنازعہ فیہ مسئلے پربات آگے بڑھانے سے قبل چند نکات معترضین ومخالفین کی معلومات کے لیے بطور پیش بندی عرض کردوں:

۱)۔ یہ خالص شرعی مسئلہ ہرگز نہیں اور اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو یہ بھی جان لے کہ بفضلہ تعالیٰ، خامہ فرسائی کرنے والا یہ کالم نگار، وطن عزیز کے بزرگ ترین مفتی کا چہیتا شاگرد اور علمائے کرام کا فیض یافتہ ہے;خدانخواستہ کوئی نام نہاد آزاد خیال یا روشن خیال یا فُلاں فُلاں اِزم کا پیروکار نہیں اور یہ تحدیثِ نعمت ہے، کوئی اظہارِتفاخر نہیں!

۲)۔ اس تحریر کا مقصد لسانی اِبہام دور کرنا ہے۔ میں ''اللہ حافظ'' کہنے کو غلط ثابت نہیں کر رہا۔ زمانہ قدیم میں بھی بطور دعا ''اللہ حافظ'' موجود رہا، مگر اِس کا رواج عام تھا نہ کوئی اسے عربی کلمہ (یا دینی کلمہ) سمجھ کر بولنے اور اس بابت مبالغہ کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

محفوظ ذخیرہ کتب و قلمی مخطوطات کی مدد سے، بَرّعظیم پاک وہند (المعروف برصغیر) کے علمائے کرام کی، بلاامتیاز مسلک، مشرب ومکتب وفرقہ، کوئی فہرست مرتب کرلیں، فارسی، قدیم وجدید اردو اور ہم رشتہ زبانوں اور بولیوں (بشمول براہوئی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، ہندکو) میں 'خُدا ' اور 'خداحافظ' مستعمل رہا (اورآج تک ہے) اور کسی نے اس کے بارے میں کوئی ایسا فتویٰ شاذ ہی دیا ہوگا۔ (پشتو میں خدائے ہے، بحوالہ نوزَبانی لغت اَز پروفیسر عبدالعزیز مینگل، مطبوعہ اردو سائنس بورڈ، اشاعت ثانی: 2020ء)۔ اسی طرح کم معروف مثالیں دیگر دعائیہ کلمات بشمول فی امانِ اللہ (اللہ کی امان میں)، اللہ نگہبان، اللہ بیلی (اب محض پنجاب کی زبانوں میں رائج) اور فی عین اللہ (اللہ کی نظر میں) کی بھی ہے۔

۳)۔ ماضی میں یہ بھی ہوا کہ ایک مقامی روزنامے میں مستقل فقہی نوعیت کے استفسارات کا جواب دینے والے ایک ممتاز عالم نے لفظ 'خدا' کے استعمال کے مسئلے پر کوئی دلیل دینے سے معذوری ظاہر کی تو اِسی خاکسار نے انھیں مختصر مراسلے کے ذریعے سند سے آگاہ کیا تھا، جو موصوف نے بلاتبصرہ، جُوں کا تُوں شامل اشاعت کیا تھا۔ یہ کوئی تیس بتیس سال پرانی بات ہے۔ یہ سند اِسی تحریر میں آگے پیش کروں گا {البتہ اُن کی وفات کے بعد اُن کے معتقدین نے جب مسائل کے جوابات پر مشتمل اُن کی کتاب کئی جلدوں میں مرتب کی تو وہ باب سِرے سے حذف کردیا کہ بظاہر حضرت کی کسرِشان ہے کہ اُنھیں یہ مسئلہ ہی معلوم نہ تھا۔ خیر یہ علمی معاملات ہیں اور غیرعالم ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔

اردو میں غیرعربی الفاظ و فقرہ جات کے استعمال کی مخالفت میں کچھ حضرات تو ایک قدم اور آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ نماز نہیں صَلوٰۃ کہا کرو، روزہ نہیں صوم اور فرشتہ نہیں مَلَک یا جمع ملائکہ کہا کرو۔ ماضی میں جامعہ کراچی سے اتفاقیہ طور پر منسلک ہونے والی ایک عسکری شخصیت (مرحوم) نے ایک نجی محفل میں خاکسار کو ڈپٹ کر یہی وعظ کرنے کی تلقین کی تو بحمداللہ! اُس نے انھیں مدلل جواب سے پسپائی پر مجبور کردیا تھا}۔

آئیے بات کرتے ہیں اردو زبان کے اس اہم مسئلے کے متعلق۔ اردوئے قدیم میں لفظ خدا کا استعمال فارسی سے براہ راست آیا ہے، جبکہ فارسی کی ماں، پہلوی زبان، سنسکِرِت کی ہم رشتہ یا آسان الفاظ میں بہن تھی جس کے نمونے اب کتابی شکل میں محفوظ ہیں(اسے ہمارے بعض اہل قلم سمیت بہت سے ناواقف حضرات، سن سِک رَت بولتے ہیں جو ہرگز درست نہیں)، بول چال میں اس کا رواج متروک ہے اور یوں یہ زبان بھی، سنسکِرِت، پالی، لاطینی اور اسی نوع کی دیگر زبانوں کی طرح، مُردہ زبان [Dead language]کہلاتی ہے۔ {جہا ں تک مردہ زبانوں کی تعلیم وتدریس کی بات ہے تو یہ سلسلہ بہرحال ابھی محدود ہے۔

3ہندوستان میں خالص مذہبی نقطہ نگاہ سے سنسکرت زندہ کرنے کی سعی کی گئی، بعض مسلمان بھی یہ زبان سیکھ کر اس سے جُڑے ہوئے موضوعات پر طبع آزمائی کرچکے ہیں، مگر بہرکیف اس زبان کا معاملہ عبرانی (قدیم نام عبری) کی طرح نہیں جسے منظم طریقے سے بحال کرکے ایک ملک قائم کرکے اُس کی قومی وسرکاری زبان بنایا گیا۔ پالی کے متعلق بھی کوئی ایسی خوش آئند خبر خاکسار کے علم میں نہیں، جبکہ لاطینی یا رومن کی وسعت بھی ابھی کسی محقق کی منتظر ہے}۔ ناواقفین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ 'خدا' کا لغوی مطلب ہے: خود آنے والا، اپنا وجود اَزخود اور بغیر کسی کی مدد کے قائم رکھنے والا۔ جو کسی وجہ سے فارسی کی جدیدوقدیم لغات نہیں دیکھ سکتا، وہ فرہنگ آصفیہ ہی دیکھ لے جس کا بیان ہے:

خُدا: (فارسی) اسم مذکر، خود ہی آنے اور موجود ہونے والا، واجب الوجود، اِلہٰ، اللہ، خداوند، مالک، صاحب، آقا، بھگوان، پرمیشر، ناراین، جگدیس۔ {یہاں راقم کی بات یاد رکھیں کہ مولوی سید احمد دہلوی نے خالص ہندوانہ الفاظ یا اصطلاحات محض اپنے غیرمسلم قارئین کی تفہیم کے لیے لکھے ہیں، ورنہ اُن کے اصل معانی، تصور، استعمال اور مسلمانوں کے لیے استعمال کا جواز بالکل الگ موضوع ہے۔ جب کوئی مذہبی اصطلاح کسی کی پہچان اور شناخت بن جائے تو دیگر کے لیے اس کا استعمال، بلاضرورت، ہرگز موزوں نہیں}۔ لفظ خُدا کی مزید تشریح کریں تو معلوم ہوگا کہ خدا کے مفہوم میں وہی باتیں شامل ہیں جو ہم بنیادی اسلامی تصور ِ توحید کے بیان میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں یعنی یہ کہ اللہ ہی واحد معبودِحقیقی و ازلی واَبَدی ہے۔

سورہ اخلاص کا مفہوم پیش نظر رہے کہ وہ نہ تو کسی سے پیدا ہوا نہ کسی کو اُس نے (مخلوق کی طرح) جنم دیا۔ یہ نام اسمِ علم ہے۔ جب یہ مطلقاً استعمال ہوگا تو فقط، ذات ِباری تعالیٰ کے لیے، مگر جب مضاف کے طور پر یعنی مالک، صاحب یا حامل کے معنوں میں استعمال ہوگا تو پھر غیراللہ کے لیے رَوا ہوگا جیسے ناکتخدا (ناکت خُدا/ناکد خدا) یعنی گھر کی مالکن کہتے تھے، کنواری لڑکی کوکہتے تھے۔ اس لیے کہ آج کل ایسے الفاظ جاننے والے خال خال ہی ہیں۔

اس کا مذکر ہے : کدخُدا۔ اسی طرح قدیم زبان میں شادی شدہ عورت کو ''کدبانو'' کہتے تھے۔ یہاں ایک وضاحت کرتا چلوں۔ پہلوی الفاظ میں شامل حرف دال، فارسی میں جاکر حرف تے سے بدل گیا تھا۔ کد یا کت کہتے ہیں گھر کو ۔ یوں کہیے کہ عام ، سادہ اردو میں گھر والی ہی کد یا کت بانو کا ترجمہ ہے۔ یہاں ایک اور دل چسپ انکشاف بھی لائق توجہ ہے۔ لغات کشوری از مولوی تصدق حسین رضوی کا بیان اور بھی واضح ہے: ''خدا: فارسی، مالک، صاحب، خود آنے والا، اس صورت میں یہ لفظ مرکب ہے، کلمہ خود اور کلمہ آ سے، اس لیے کہ حق تعالیٰ اپنے ظہور میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ جب یہ لفظ مطلق ہوتا ہے تو سِوائے ذات باری تعالیٰ کے، دوسرے پر اِطلاق نہیں کرتے، مگر جس صورت میں کہ مضاف ہو کسی چیز کی طرف جیسے کہ کدخدا، دِہ خدا''۔ شوہر کو مجازی خدا کہنا ہندوستانی روایت ہے اور بقول پروفیسر مرتضیٰ ملک (مرحوم) اس کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ شوہر کے لیے لفظ خاوِند بہت عام استعمال ہوتا ہے۔

یہ لفظ درحقیقت مرکب ہے، خا (خانہ کا مخفف) اور وِند (بطور لاحقہ) بمعنی مالک یا صاحب یا والا۔ گویا خاوند کا مطلب ہوا ، گھر کا مالک یا گھروالا۔ اب یارلوگوں نے اس کو بھی اپنی عقل کے مطابق تُکّہ لگاکر خداوند کا مخفف قرار دینے کی کوشش کی۔ کسی صاحب کے منھ سے سنا تھا کہ یہ لفظ ''خداوَند'' چونکہ عیسائی استعمال کرتے ہیں اور بائبل سے آیا ہے، اس لیے استعمال کرنا جائز نہیں۔ حد ہوگئی۔ کل کو کہہ دیں گے کہ فُلاں پیغمبر کا نام بائبل میں یوں درج ہے تو (معاذاللہ) یہ بھی نقل نہ کرو۔ ایسے موقع پر انگریزی کا سہارالینا پڑتا ہے:

A little knowledge is a dangerous thing۔ ویسے ابھی ابھی wiktionary.org سے معلوم ہوا کہ یہ قول بھی اصل میں یوں تھا: A little learning is a dangerous thing۔ یہ 1774ء میں شایع ہونے والے کسی رسالے میں مشہور شاعرAlexander Pope سے منسوب نقل کیا گیا تھا۔ {میرا خیال ہے کہ ان دونوں الفاظ کے مفاہیم پر غور کریں تو knowledge یعنی معلومات ہی عملاً بہتر محسوس ہوتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں سیکھنے سے زیادہ سکھانے اور پڑھنے سے زیادہ پڑھانے کا رواج ہے۔

خاکسار کا یہ قول تو بہت پرانا ہے کہ ہمارے اہل قلم (بشمول ادیب، شاعروصحافی) پڑھتے کم، لکھتے زیادہ اور بولتے، اس سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ بھی اس راقم نے بارہا اپنی تحریروتقریر میں کہا کہ تعلیم عام ہوگئی، علم اُٹھ گیا۔ اور یہ نکتہ بھی اظہرمِن الشمس ہے کہ یہ سب کچھ دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ ہم نے ایک شخص کو اپنا مصلح اور رہنما سمجھ کر قدیم وموزوں نصاب ترک کیا اور مغربی نصاب رائج کرکے، کلرک بابو پیدا کرنے لگے جو اپنے ہی مضمون یا شعبے کے ماہر نہیں ہوتے، چہ جائیکہ دیگر علوم وفنون کی طرف راغب ہوں۔

یہ ساری گفتگو بظاہر غیرمتعلق ہوتے ہوئے بھی براہ راست متعلق ہے ، اس لیے کہ آج مدارس سے زیادہ مفتیان ، سوشل میڈیا پر پائے جاتے ہیں۔ دین کی تعلیمات سے عملاً رُوگردانی ہر طبقے کے لوگ کھُل کر کرتے ہیں اور جہاں جی چاہا، کسی بھی فعل کو خلافِ شریعت، شرک اور بدعت قرار دیتے ہیں}۔ لفظ ''خداوَند'' بھی 'خود' اور 'آوند' کا مرکب ہے یعنی وہی جو خدا کا مطلب ہے، خود سے قائم، آپ اپنی مثال، بے مِثل، یکتا۔ مولوی نورالحسن نیّرؔ نے نوراللغات میں لفظ خُدا کی تفہیم وتشریح واضح کرنے کے لیے بہت سی مثالیں بشمول اشعار پیش کی ہیں۔ ان میں ایک بطور خاص لائق توجہ ہے۔

ہمارے یہاں محاورے میں کسی چیز کو خدا حافظ کہنا (بمعنی تَرک کرنا، چھوڑنا) بھی رائج ہے جیسے آبِ حیات (ازمحمد حسین آزادؔ) کی عبارت منقولہ ہے:''بادشاہ اور اُس کے اعلیٰ درجے کے اہلِ دربار نے جُبّہ و دَستار کے ساتھ، ڈاڑھیوں کو خُدا حافظ کہا''۔ ایک دل چسپ انکشاف : نوراللغات میں ایک جگہ ''اللہ'' کے بیان میں یہ شعر بہت منفرد محسوس ہوا جس میں دونوں زیرِبحث الفاظ بحسن وخوبی برتے گئے:

وہ بُت بخدا نُور کا پُتلا نظر آیا

اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آیا

(بخدا= بہ خُدا یعنی اللہ کی قسم)۔ فرہنگ ِ انگلیسی فارسی (انگریزی فارسی لغت) مرتبہ عباس آریان پور کاشانی ومنوچہر آریان پور کاشانی، مطبوعہ تہران (ایران) میں لفظ Godکے معانی میں درج ہے: خدا، ایزد، یَزدان، پروردگار، اللہ۔

یہاں میں یہ نکتہ دُہرانا چاہتا ہوں کہ لفظ خدا کی تاریخ، فارس یعنی قدیم ایران کی مشہور کتاب، زِند اَوستا سے جڑی ہوئی ہے جو مظاہرپرستی کے خلاف تحریک اصلاح چلانے والے پیغام بَر، مصلح اور توحید پرست مبلغ، جناب ابراہیم زردشت عرف زرتشت (Zoroaster) کی کتاب ہے۔

(اس نام کے مختلف تلفظ رائج ہیں: زَرتُشت اور زَرتَشت)۔ لغات کشوری کے مؤلف نے اُن کے بارے میں یوں لکھا:''زَرتُشت: فارسی، نام ایک مرد کا جو منوچہر بادشاہ کی نسل سے تھا اور شاگرد فیثا غورث حکیم کا، اُس نے گشتاسپ (گش تا سپ) بادشاہ کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا اور آتش پرستی کا دین ایجاد کیا۔ مجوس لوگ اس کو پیغمبر جانتے ہیں اور جو اُس نے ایک کتاب 'زِند' بناکر اپنی امت کو دی تھی، اُس کو کتاب آسمانی کہتے ہیں''۔ قارئین کرام! مولوی رضوی صاحب کا یہ بیان قیاس اور بلاتحقیق نقل پر مشتمل ہے۔

ماقبل خاکسار کے سلسلہ وار کالم سخن شناسی اور زباں فہمی میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ جدید یورپی، جدید وقدیم ایرانی اور بعض دیگر محققین نے اس شخصیت کو توحید پرست اور توحید کا پرچارک قرار دیا۔ ہمارے یہاں غالباً سب سے پہلے ان کی تصدیق ''قصص القرآن'' کے فاضل مؤلف مولوی حفظ الرحمن صدیقی سیوہاروی نے کی جو اس تحقیق کے بھی قائل تھے کہ زَرتُشت، درحقیقت سچے نبی تھے، مگر بہرحال محتاط فقہی رائے یہی ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کو اپنے طور پر خدا کا نبی ثابت نہیں کرسکتے۔ زَرتُشت کو مختلف زبانوں میں بہ اختلاف ِ تلفظ Zarathustra بھی کہا گیا جو پہلوی زبان بولنے والے اس مبلغ کا قدیم اور اصل نام تھا اور پہلوی کی ہم رشتہ زبان سنسکرت کے اصول کے مطابق، درحقیقت ''زَرتُشتر'' (آخری حرف ساکن) ہے۔

یہی فارسی میں جاکر زَرتُشت بن گیا۔ مولوی سیوہاروی صاحب نے یہ بات بھی بالتحقیق لکھی ہے کہ موصوف سے مدتوں پہلے آگ کی پوجا قدیم فارس (موجودہ ایران) میں رائج تھی اور اُن کی اصلاحی کوشش کے نتیجے میں آتش پرستی، مظاہر پرستی اور ثنویت (خدا کے ساتھ دوسرے کو ملانا) جیسی لعنتوں میں واضح کمی آئی، مگر اُن کے وصال کے بعد، قدیم وجدید مذاہب کی ایسی کھچڑی بنی کہ زَرتُشت کو آتش پرستی کا بانی کہا جانے لگا۔

(خاکسار نے کوئی چوبیس برس پہلے ایک انگریزی مضمون اسی موضوع پر لکھا تھا جو ہنوز غیرمطبوعہ اور نجی کتب خانے میں کہیں دفن ہے۔ بشرط فرصت وصحت کبھی ازسرنو تحقیق کرکے لکھوں گا)۔ زَرتُشت نے تین بنیادی اسلامی تصورات وعقائد، توحید، رسالت وآخرت کی تعلیم دی، دو وقت کی نماز کا حکم دیا جو ظہوراسلام کے بعد، ہمارے یہاں بھی ابتداء میں رائج رہا، تاآنکہ معراج شریف میں پانچ وقت کی نماز فرض ہوئی۔ (نماز، روزہ، فرشتہ جیسے الفاظ اُسی پہلوی زبان کی دین ہیں)۔ اب یہاں وہ سند پیش کرتا ہوں جس کا ذکر اوپر کیا۔

سیدنا سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) نے جنگ قادسیہ کے موقع پر، اہل ایران کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے سورہ فاتحہ کا فارسی میں ترجمہ کیا جس کی ابتداء میں بسم اللہ کی جگہ تحریر فرمایا ، ''بنام خداوند ِبخشائندہ ومہربان''۔ وہ ناصرف مقرب صحابہ کرامؓ میں شامل تھے، بلکہ انھیں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ قدیم ایرانی مذہب، یہودیت اور نصرانیت کے متعلق بھی بھرپور علم حاصل تھا۔ سنتِ صحابہ، درحقیقت سنتِ رسول (ﷺ) کا تسلل ہی ہے۔

بعض جگہ یہ بھی لکھا گیا کہ دنیا بھر میں ہونے والا یہ اولین ترجمہ، عہدرسالت مآب میں ہوا، مگر اس کی کوئی سند مجھے نہیں ملی۔ علامہ غلام رسول سعیدی مرحوم کی شرح صحیح مسلم میں اس موضوع پر بہت عمدہ تحقیق شامل کی گئی ہے جو اہلِ علم کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ ماضی میں عزیز دوست صبیح رحمانی کے مؤقر ادبی جریدے ''نعت رنگ'' میں بھی خاکسار کی 'شرارت' کے طفیل یہ سلسلہ خوب چلا تھا۔ اب نجی کتب خانے کی ترتیب کا ابتدائی مرحلہ مکمل کرنے کے باوجود، تنگی وقت مجھے روک رہی ہے ، ورنہ وہ حوالہ بھی نقل کردیتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں