اسحاق ڈار فارمولے پر واپسی کی بازگشت
عمران خان کے حامیوں کے پاس اب کوئی خاص دلائل نہیں ہیں
ایک سوال سب پوچھتے ہیں کہ اپوزیشن کے پاس کونسا الہ دین کا چراغ ہے کہ وہ مہنگائی پر قابو پا لے گی۔ چیزوں کی قیمتیں جس طرح بڑھ چکی ہیں اور مسلسل جس طرح بڑھ رہی ہیں، کیا اس کا اپوزیشن کے پاس کوئی حل ہے۔
عمران خان کے حامیوں کے پاس اب کوئی خاص دلائل نہیں ہیں بس وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کا اگر عمران خان کے پاس کوئی حل نہیں ہے تو کسی کے پاس بھی کوئی حل نہیں ہے۔ عمران خان کے حامی ایک منظر نامہ پیش کرتے ہیں کہ مہنگائی کا پوری دنیا میں اگر کسی کے پاس کوئی حل نہیں تو یہ آزمائی ہوئی اپوزیشن اس کا کیا حل نکال لے گی۔
اپوزیشن پارلیمنٹ کی مدت پوری کرنے کے خلاف ہیں اور ان کا موقف ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جو حکومت قائم ہو اسے لمبا نہیں چلنا چاہیے بلکہ ملک کو فوری نئے انتخابات کی طرف لے کر جانا چاہیے۔ ان کے پاس بھی ایک دلیل یہ ہے کہ عدم اعتماد کے نتیجے میں اپوزیشن کی جو مشترکہ حکومت قائم ہو گی اس کی کارکردگی بھی اچھی ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ اگر نئی حکومت کی کارکردگی بھی عمران خان جیسی ہی ہوئی تو عمران خان کو اپنا ووٹ بینک دوبارہ متحرک کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
اس لیے ملک کو فوری انتخابات کی طرف لیجانا چاہیے تا کہ عمران خان کی گرتی مقبولیت کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اگر عدم اعتمادکی کامیابی کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت ایک سال سے زیادہ قائم رہے گی تو لوگ پھر اس حکومت کی کارکردگی کو بھی ووٹ دیتے وقت سامنے رکھیں گے۔ کہیں نہ کہیں اپوزیشن کے کچھ رہنماؤں کے ذہن میں خوف ہے کہ اگر چیزیں درست ہینڈل نہ ہوئیں تو عمران خان کو فائدہ نہ ہو جائے۔
اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہی ہوگا۔ عمران خان کی گرتی مقبولیت کی آج ایک ہی وجہ ہے کہ وہ ملک میں مہنگائی کو کنٹرول نہیں کر سکے۔ عام آدمی جب عمران خان کے دور اقتدار کا ماضی کی حکومتوں سے موازنہ کرتا ہے تو مہنگائی پر کنٹرول ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کے دور میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اس طرح اضافہ نہیں ہوا جیسے عمران خان کے دور میں ہوا ہے۔
آج عمران خان کے جو ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ کر جا رہے ہیں اس کی بہت سے وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن عمران خان کو ایک بات سمجھنا ہوگی کہ اگر وہ غیر مقبول ہونگے ضمنی انتخابات ہاریں گے تو لوگ ان کا ساتھ چھوڑیں گے۔ ہارنے والے گھوڑے کے ساتھ سیاست میں کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔ لوگ ان کے ساتھ آئے تھے کہ انھیں ان کی جیت کا یقین تھا۔ اب جب ان کی ہار کا یقین بڑھتا جا رہا ہے تو لوگوں کا ان کا ساتھ چھوڑنا فطری عمل ہے۔
اگر آج عمران خان کا ووٹ بینک قائم ہو، وہ انتخابات جیت سکتے ہوں، ان کی ٹکٹ جیت کا نشان بن جائے تو کوئی ان کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن جب یہ رائے بن جائے کہ عمران خان کا ٹکٹ جیت کی بجائے ہار کا نشان ہے تو انتخابات لڑنے والے ساتھ چھوڑ ہی جاتے ہیں۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔
اس سے پہلے پنجاب میں جب پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک ختم ہوا ہے تو بڑے بڑے نام پیپلز پارٹی کو چھوڑ گئے اگر ان سے نجی محفلوں میں پوچھا جائے تو وہ کہیں گے کہ وہ پیپلزپارٹی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن مجبوری تھی کہ اب پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر جیتنا ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح سندھ میں اگر جیتنے والے لوگ پیپلزپارٹی کے ساتھ آج بھی کھڑے ہیں تو اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک آج بھی قائم ہے۔
آج اگر لوگ کے پی میں جے یو آئی (ف) کی طرف رجوع کر رہے ہیں تو اس کی وجہ بھی ووٹ بینک ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اگر ووٹ بینک قائم ہے تو کوئی ساتھ چھوڑ کر نہیں جاتا اور اگر ووٹ قائم ہی نہ رہے تو سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ یہی سیاست ہے۔
اس لیے کیا اپوزیشن مہنگائی کا جن قابو کر لے گی۔ یہی ایک سوال سب کے ذہن میں ہے۔ اس حوالہ سے احسن اقبال کی بات میں وزن ہے کہ پاکستان میں موجودہ مہنگائی کی لہر کی ایک بڑی وجہ روپے کی قدر میں روزانہ کمی ہے۔ جب روپے کی قدر میں روزانہ کمی ہوگی تو چیزوں کی قیمتوں میں روز اضافہ ہوگا۔ جب تک آپ روپے کی قدر کو کسی ایک جگہ مستحکم نہیں کریں گے اشیائے صرف کی قیمتیں مستحکم نہیں ہو سکتیں اگر روپے کی قیمت روزانہ تبدیل ہوگی تو قیمتیں بھی روزانہ تبدیل ہونگی۔
یہی بات جب اسحاق ڈ ار کہتے تھے تو کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔عمران خان اور ان کی ٹیم نے پراپیگنڈہ کیا کہ انھوں نے روپے کی قدر کو جعلی طور پر کنٹرول کیا ہوا تھا۔ جس کا پاکستان کی معیشت کو بہت نقصان ہوا۔ ایک بیانیہ بنایا گیا کہ اسحاق ڈار صرف ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے ماہانہ دو ارب ڈالر اسٹیٹ بینک سے اوپن مارکیٹ میں پھینک دیتے تھے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ جب کہ پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ اس لیے اسحاق ڈار کا معاشی فارمولہ تباہی کے فارمولے کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن آج وقت نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کا بیانیہ غلط تھا اور اسحاق ڈار کا معاشی فارمولہ درست تھا۔
اگر عمران خان اور ان کی ٹیم کی بات درست مان لی جائے کہ اسحاق ڈار ڈالر کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ماہانہ اسٹیٹ بینک سے دو ارب ڈالر اوپن مارکیٹ میں پھینکتے تھے تو آج جب یہ حکومت چالیس ماہ سے وہ ڈالر اوپن مارکیٹ میں نہیں پھینک رہی ہے تو اسٹیٹ بینک میں اسی ارب ڈالر جمع ہو جانے چاہیے تھے۔
اگر عمران خان نے وہ ڈالر اوپن مارکیٹ میں نہیں پھینکے تو وہ کہاں ہیں۔ وہ آج اسٹیٹ بینک میں نظر آنے چاہیے تھے۔ اسحاق ڈار کہتے ہیں ساڑھے تین سال میں انھوں نے ساڑھے پانچ ارب ڈالر اس کام پر خرچ کیے لیکن ڈالر کو قابو میں رکھا۔ عمران خان اس کام پر سات ارب ڈالر خرچ کر چکے ہیں لیکن نتائج منفی ہیں۔ کیونکہ حکومت کے پاس نہ تو کوئی حکمت عملی تھی اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی معاشی روڈ میپ۔ اس لیے ڈالر اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔
اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے اور نئی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو نئی حکومت کا پہلا کام ڈالر کی اڑان کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ روپے کی قدر کو مستحکم کرنا ہوگا۔ اسحاق ڈار فارمولے پر واپس آنا ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کے حوالہ سے جو قانون سازی کی گئی ہے اس کو ختم کرنا ہوگا۔ جیسے ہی ڈالر کنٹرول میں آئے گا روپے کی قدر مستحکم ہوگی مہنگائی خود بخود کنٹرول ہو جائے گی۔ اگر ڈالر کی قدرکو مزید بڑھنے ہی نہیں دیا جائے گا تو مہنگائی مزید نہیں بڑھے گی۔ اپوزیشن کو اس بات کی سمجھ ہے۔
اس لیے اپوزیشن اور بالخصوص ن لیگ کو اعتماد ہے کہ جیسے ہی وہ اقتدار میں آئیں گے وہ مہنگائی کنٹرول کر لیں گے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ صرف ہمیں اسحاق ڈار کے فارمولے پر واپس آنا ہوگا۔ جو جعلی ارسطو انھیں غلط کہتے تھے اب وہ غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ اس لیے ایسا لگ رہا ہے کہ اپوزیشن اسحاق ڈار فارمولے پر واپسی کی تیاری کی پلاننگ کر رہی ہے۔
اپوزیشن کے خیال میں اگر روپے کو تھوڑا سا مستحکم کر لیا گیا تو مہنگائی کا جن ایک جگہ رک جائے گا۔ جو موجودہ صورتحال میں ایک کامیابی ہی ہوگی اورلوگ اس کو بھی ریلیف ہی سمجھیں گے۔