غیرملکی سیاح اور مافیا کا شہر

کراچی پر مافیاز کا قبضہ ہے لیکن حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے


آسٹریلوی سیاح کو ہراساں کرنے کا معاملہ ملکی بدنامی کا باعث ہے۔ (فوٹو: فائل)

HYDERABAD: گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک آسٹریلین یوٹیوبر سے کراچی کے ساحل سمندر پر ایک گھڑ سوار نے دو سو روپے چارجز طے کرنے کے بعد تین ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ اور پھر بات بدتمیزی تک جا پہنچی۔ جس پر سیاح نے مقامی لوگوں سے مدد لے کر اپنی جان چھڑائی۔



بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے۔ کراچی والوں کے ساتھ بھی اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے۔ جس طرح صدر ایمپریس مارکیٹ میں جوس کا گلاس دس روپے، دس روپے کی آواز لگانے والا بعد میں کہتا ہے کہ دس روپے والا گلاس یہ ہے، آپ نے جو پیا وہ تو پچاس روپے والا گلاس تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا، پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ کیوں کہ وہاں آپ کی مدد کےلیے کوئی نہیں آتا۔ پولیس فی ٹھیلہ دو سو روپے سے پانچ سو روپے پہلے ہی وصول کرچکی ہوتی ہے۔ ایسے میں انہیں شکایت کرنا، آبیل مجھے مار والی بات ہے۔

ہم بات کررہے ہیں اس سیاح کی جو آسٹریلیا سے پاکستان محض اس لیے آیا ہے کہ وہ وطن عزیز کا مثبت چہرہ دنیا کو دکھا سکے۔ لیکن اس سیاح کو معلوم ہی نہیں کہ یہاں قدم قدم پر مافیاز کا قبضہ کا ہے۔ یہاں فٹ پاتھ پر مافیا بیٹھی ہے، یہاں سڑکوں پر مافیاز کے ڈیرے ہیں۔ یہاں پارکوں میں مافیاز کی بدمعاشی ہے۔ یہاں پارکنگ پر بھی مافیاز نے قبضہ کر رکھا ہے۔ یہاں کی حکومت اور یہاں کا اندھا قانون بھی مافیا کی مرہون منت ہے۔ یہاں ٹریفک بھی مافیا کے اشارے پر چلتا ہے۔ ان کا بس چلے تو وہ پورا شہر ایک منٹ میں جام کردیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ مافیاز چاہیں تو شہر کا پانی بند کردیں اور انہیں کوئی کچھ کہنے والا نہیں۔ یہ مافیاز چاہیں تو سیوریج سسٹم تباہ کرکے رکھ دیں اور کوئی ان سے سوال تک نہ کرسکے۔ یہ لوگ جو چاہے کرسکتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔

ہم ٹی وی پر دنیا کو پیغام دیتے ہیں کہ ہم آپ کے غلام نہیں، لیکن ہم دنیا کو یہ نہیں بتاتے کہ یہاں کے عوام طاقتور کے غلام ہیں۔ یہاں کے عوام مافیاز کے رحم وکرم پر ہیں اور ہم حکومت میں ہونے کے باوجود ان مافیاز کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہم دنیا کو یہ کہتے ہیں کہ جیسا کرو گے ویسا کریں گے، لیکن ہم دنیا کو یہ نہیں بتاتے کہ یہ ملک ہماری مرضی سے نہیں بلکہ مافیاز کی مرضی سے چلتا ہے۔ اس شہر ناتواں میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی مثال عام ہے۔

غیر ملکی سیاح پاکستان آنے سے اس لیے بھی کتراتے ہیں کہ یہاں قدم قدم پر لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ یہاں قانون کے رکھوالے ہی ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں پھر کس کا دماغ خراب ہوگا کہ وہ دیار غیر سے یہاں آکر خود کو لٹوائے۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی کچھ لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں، تاہم وہ بھی کوئی اچھے تاثرات لے کر واپس نہیں جاتے۔ یوٹیوب پر ایسی سیکڑوں ویڈیوز موجود ہیں جن میں پاکستان کے بارے میں یہ سب کچھ مشہور ہے کہ یہاں ہر پاکستانی سے ہوشیار رہنا۔ کب کہاں آپ کو لوٹ لیا جائے کچھ معلوم نہیں۔

آسٹریلوی سیاح کے ساتھ نوسر بازی کرنے والے اس گھڑ سوار کی ویڈیو جیسے ہی وائرل ہوئی پولیس نے فوری ایکشن لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ معاملہ غیر ملکی کا تھا، اور اگر اس نے ایمبیسی میں اس کی شکایت کی تو پھر لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس نے فوری طور پر اس گھڑ سوار کو محض چند منٹوں کےلیے گرفتار کیا، تھانے لائے، معافی کی خبر بنوائی اور سوشل میڈیا پر چلوا کر اپنے افسران کو سب 'اوکے' کی رپورٹ کردی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پولیس اس شخص کو چھوڑنے کا اختیار رکھتی تھی؟ تو اس کا جواب ہوگا نہیں۔ کیوں کہ لوٹ مار اور نوسر بازی ایک جرم ہے۔ اور جس طرح ہر جرم کی سزا ہوتی ہے اسی طرح اس کی بھی سزا بنتی ہے۔ لیکن پولیس جب ان مافیاز سے اپنا حصہ وصول کرچکی ہو تو پھر کس طرح وہ ان کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے؟ یہاں وہ محص معافی نامے پر ہی گزارا کرے گی۔

ساحل تھانہ بھی دیگر تھانوں کی طرح کماؤ پوت تھانہ ہے، جہاں کلفٹن کی غیرقانونی چارجڈ پارکنگ، پارک کی داخلہ فیس، ساحل پر کھڑے ٹھیلے، پتھارے، کارڈ کار، گھڑ سواری، اونٹ سواری، پیادہ پان سگریٹ فروش تک سے اپنا حصہ وصول کرتی آرہی ہے۔ یہاں کی مافیا اتنی مضبوط ہے کہ وہ کنٹونمنٹ ایریا میں یہ کام کھلم کھلا کررہی ہے اور اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ ساحل پر آج تک کوئی پولیس نظر نہیں آئی۔ جب بھی پولیس کو دیکھا گیا وہ سڑکوں پر موٹر سائیکل سواروں کو روکنے میں مصروف نظر آئے۔

کراچی میں جتنی مافیاز کام کررہی ہیں اگر ان سب کے بارے میں لکھنا شروع کیا جائے تو اس کےلیے دس جلدوں پر کتاب بھی کم پڑجائے۔ یہاں ہر قسم کی مافیاز پائی جاتی ہیں۔ دودھ، دہی سمیت سبزی گوشت تک کے نرخ مافیاز طے کرتی ہے۔ سبزی منڈی میں نرخوں کے ساتھ جس طرح کھیل کھیلا جاتا ہے یہ سب اوپر والوں کو معلوم ہے۔ ہمارے کمشنر، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز تک کو معلوم ہے کہ کون سا دکاندار کس طرح عوام پر الٹی چھری چلا رہا ہے، لیکن وہ سب کچھ جان کر بھی انجان ہیں۔ یہاں پانی تک لوگ مافیاز سے خریدتے ہیں، لیکن حکومت محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔

ایسے میں اگر ایک غیر ملکی سیاح کو لوٹ بھی لیا تو ان سب کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔ یہ سب کےلیے نارمل بات ہے، کیوں کہ اس شہر میں جہاں ہر سیکنڈ میں لاکھوں شہری کسی نہ کسی مافیا کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں وہاں ایک سیاح کا لٹ جانا کوئی بڑی بات نہیں۔

اس سے قبل بھی فرحان نامی بچے کو کارٹ گاڑی نے کچل دیا تھا، جس پر پولیس نے فوری طور پر ایکشن لیا۔ دو چار دن تک کارٹ مافیا غائب رہی اور اس کے بعد پھر سے اپنی روش پر آگئی۔ کیوں کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ یہاں کا قانون کس طرح کام کرتا ہے۔ انہیں لوگوں کے جان ومال کی پروا نہیں، انہیں محض پیسوں سے سروکار ہوتا ہے، جو وہ عوام سے لوٹ مار کرکے حاصل کررہے ہیں اور نجانے کب تک کرتے رہیں گے۔

کراچی غریب پرور شہر رہا ہے، اس نے یہاں سب کو پناہ دی، رہنے کی جگہ دی، کھانے کو غذا فراہم کی، لیکن اس شہر کے ساتھ آج تک کسی نے انصاف نہیں کیا۔ ہر کسی نے کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھ کر استعمال کیا۔ یہاں جتنی بھی مافیاز سرگرم ہیں اس میں کوئی بھی کراچی کا حقیقی شہری ملوث نہیں ملے گا۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں کراچی نے پناہ دی۔ اور آج یہی لوگ کراچی کو گدھ کی طرح نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، لیکن اس ظلم کو روکنے والا کوئی نہیں۔ کیوں کہ اب کراچی پر کراچی کے رہنے والوں کا نہیں بلکہ مافیاز کا راج ہے۔ اس مافیا کا جیسے دل چاہے وہ ویسا کررہی ہے۔ اور یہ سب کچھ محض اس لیے سہن کیا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک کہیں ختم نہ ہوجائے۔

اب بھی کراچی کے درد کو نہ سمجھا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب یہاں کے لوگ اپنے حقوق کےلیے اپنی الگ عدالتیں لگانا شروع کردیں گے۔ اور خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر پاکستان کا معاشی ہب ایک مرتبہ پھر سے امن کی فاختہ کو کھو بیٹھے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں