روس یوکرین مصالحت کون کرا سکتا ہے
24فروری کو شروع ہونے والے روسی فوجی آپریشن کو دو ہفتے ہو گئے ہیں
24فروری کو شروع ہونے والے روسی فوجی آپریشن کو دو ہفتے ہو گئے ہیں اور تنازعے کے حل کے لیے کوششوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نظر نہیں آ رہا۔ پچھلے چند دنوں میں تین ملکوں کے سربراہانِ حکومت نے صدر پیوٹن اور صدر زیلنسکی سے تنازعے کے حل کے لیے بات کی ہے۔
روس پر نت نئی پابندیاں لگ رہی ہیں لیکن صدر پیوٹن کسی بھی پابندی کو خاطر میں لاتے دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ یہ پابندیاں روس کی فوجی قوت کو کمزور نہیں کر سکتیں۔ایسے لگتا ہے کہ روسی صدر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انھوں نے امریکا اور یورپی یونین کو جتنا سمجھانا تھا،سمجھا چکے،جتنا انتظار کرنا تھا کر چکے لیکن چونکہ ان کی کسی بھی بات پر کان نہیں دھرے گئے اس لیے وہ بھی اب کسی کی نہیں سنیںگے۔
وہ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ مشرق کی جانب روسی سرحدوں سے دور رہیں لیکن روسی صدر کے بیانات اور انتظار کو روس کی کمزوری گردانا گیا۔امریکا اور مغربی یورپ نے یوکرین اور جارجیا کو اپنے دامن میں لینے کا فیصلہ کر کے انھیں ممبر شپ کی دعوت دے دی۔یوکرین کی پچھلی حکومت کو چلتا کر کے موجودہ صدر زیلنسکی کی حکومت لائی گئی۔
زیلنسکی نے یوکرین کو یورپین یونین اور نیٹو بلاک کا ممبر بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے شروع کر دیے۔یہ بات صدر پیوٹن کو ایک آنکھ نہیں بھائی۔ امریکا اور یورپ نے زیلنسکی حکومت کی بھرپور حمایت کرنی شروع کر دی کہ وہ جمہوری حکومت ہے۔
یہ ممالک اس بات سے بڑی آسانی سے چشم پوشی کر گئے کہ زیلنسکی نے برسرِ اقتدار آتے ہی ساری یوکرینی اپوزیشن کو پابندِ سلاسل کر کے اور مخالف میڈیا ہاؤسز کو بند کر کے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا۔ادھر صدر پیوٹن نے ٹھان لی کہ یوکرین کے یورپی یونین اور نیٹو میں شمولیت سے پہلے وہ زیلنسکی حکومت کو اس قابل ہی نہیں چھوڑیں گے کہ وہ مغرب کی طرف دیکھے۔یوکرینی صدر زیلنسکی کا سیاسی تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے۔وہ شوبز سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھیں شاید بین الاقوامی امور کی پیچیدگیوں کا ادراک بھی نہیں ہے۔
صدر زیلنسکی آپریشن شروع ہونے سے پہلے آخری لمحے تک یہی سمجھتے رہے کہ روس صرف ڈرا رہا ہے تاکہ یوکرینی صدر کو مذاکرات پر مجبور کرے۔ روس کبھی حملہ نہیں کرے گا۔ ادھر صدر پیوٹن اتنے over confidentتھے کہ انھوں نے حملے کے لیے بہت تھوڑی اور چھوٹی سی فوج روانہ کی۔ یوکرین والوں نے مدافعت کر تے ہوئے Stalemate پیدا کر کے صدر پیوٹن کے لیے مشکل پیدا کر دی۔ صدر زیلنسکی مغرب کی آنکھوں کا تارا بن گئے ہیں۔
اسرائیل کے یوکرین کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔یوکرین میں لاکھوں یہودی بستے ہیں جو اسرائیل کی شہریت بھی رکھتے ہیں۔صدر زیلنسکی خود بھی یہودی ہیں اور اسرائیل کی شہریت کے حامل بھی، زیلنسکی حکومت کو کوئی بھی خطرہ اسرائیل کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔اس لیے اسرائیلی وزیرِ خارجہ نے روسی حملے کی شدید مذمت کی۔اسرائیل کے روس کے ساتھ بھی بہت گہرے تعلقات ہیں،اسرائیل اور روس،شام میں مل کر چل رہے ہیں۔
روس نے اسرائیل کو یہ اجازت دے رکھی ہے کہ وہ شام کے اندر اپنی مرضی سے ہوائی حملے کرے، میزائل داغے اور ڈرون حملے کرے۔ اسرائیل کے لیے یہ بہت بڑی رعایت ہے۔اسرائیل حملے کر کے شام کو بیک فُٹ پر اور ایران کی آؤٹ پوسٹ کو ناکام بنائے رکھتا ہے۔اسرائیل کے وزیرِ خارجہ کے روس کے خلاف سخت بیان کے بعد روس نے دو اقدام کیے۔ایک تو تل ابیب حکومت کہہ کر بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہ کرنے کا اشارہ دیا۔ اسرائیل کے نقطہ نظر سے یہ بہت اہم منفی ڈویلپمنٹ ہے۔
روس نے اسرائیل کو یہ کہہ کر ایک اور سفارتی دھچکہ پہنچایا کہ گولان ہائیٹس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے،روس اس علاقے کو اسرائیل کا جائز علاقہ نہیں مانتا۔اگر اسرائیل اور روس کے تعلقات میں دراڑ پڑتی ہے تو اسرائیل کی بین الاقوامی سفارتی سپورٹ میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے اور یہ بھی امکان ہے کہ روس اسرائیل کو شام کے اندر من مانی کارروائی نہ کرنے دے۔ روس اقوامِ متحدہ کا مستقل رکن ہے،ان منفی ڈویلپمنٹس کو دیکھتے ہوئے اسرائیلی وزیرِ اعظم نے روس یوکرین مسئلے کو حل کروانے کے لیے ماسکو یاترا کی۔اطلاعات کے مطابق کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔اسرائیل کی جگہ کسی غریب ملک کا رہنما ماسکو جاتا تو ایک بھونچال آ جاتا۔فرانس کے صدر میکرون نے صدر پیوٹن کے ساتھ اپنے کیمونیکیشن چینل بحال رکھے ہیں۔
فرانس یورپی یونین کے روس کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کا ساتھ دے رہا ہے لیکن میکرون فرانس کے صدر ہیں اور فرانس کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اب تک چار بار پیوٹن سے بات کر چکے ہیں۔بظاہر ایسے لگتا ہے کہ میکرون فرانس اور روس کے درمیان عداوت کے خدشات کو دور کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں،وہ یورپی یونین اور امریکی ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھا رہے۔ ترکی بھی ایک بڑا اور اہم ملک ہے۔ترکی اور روس کے بھی تعلقات بہت گہرے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم تیس ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ترکی نیٹو کا ایک رکن بھی ہے۔صدر اردوان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ترکی کا اثر و رسوخ بڑھا ہے۔ترک افواج بہت مضبوط ہیں۔ترکی ایک بڑی اکانومی ہے۔ترکی کے یوکرین کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات ہیں۔ اسی بنا پر صدر اردوان نے زیلنسکی سے مل کر اور صدر پیوٹن سے رابطہ کر کے معاملہ حل کروانے کی اپنی سی کوشش کی۔ترکی کی کوششیں کچھ کامیاب ہوئی ہیں، روس اور یوکرین کے وزرائے خارجہ ترکی میں مل رہے ہیں۔
روسی فوجی آپریشن یوکرینی عوام کے لیے بے پناہ مسائل کا موجب ہے۔صدر زیلنسکی کی بار بار اپیل کے باوجود نیٹو جھگڑے میں فریق بننے اور نو فلائی زون قائم کرنے کو تیار نہیں۔مغربی یورپ سہما ہوا ہے۔ڈر ہے کسی ایک چھوٹی سی غلطی سے یہ جھگڑا یوکرین کی سرحدوں سے باہرنکل کر ایک عالمی جنگ جب کہ یورپ میدانِ جنگ نہ بن جائے۔صدر پیوٹن نے یہ فوجی آپریشن شروع تو کر لیا ہے لیکن اس کو اپنی مرضی کے مطابق ختم کرنا ان کا بہت بڑا امتحان ہے۔حالات بتا رہے ہیں کہ آپریشن منصوبے کے مطابق نہیں جا رہا ۔
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہے جو اس مسئلے کو ایک اچھے حل کی جانب لے کر جا سکتا ہے۔ چار افراد ایسے ہیں جو کسی بھی وقت مسئلے کا حل کر سکتے ہیں۔صدر پیوٹن وہ پہلے لیڈر ہیں جن کے ایک ابرو کے اشارے سے یہ فوجی آپریشن ختم ہو سکتا ہے لیکن یہ حکم ان کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے وہ 2036تک روس کے صدر رہ سکتے ہیں۔جنگ میں ہار یا کمزوری ان کی پوزیشن کو بہت نقصان پہنچا سکتی ہے۔اس لیے وہ سوچ سمجھ کر ہی اس آپریشن کو نبٹائیں گے۔مغربی ممالک کو اس کا ادراک ہونا چاہیے کہ صدر پیوٹن کو دیوار سے لگانا بہت خطر ناک ہو گا۔اگر صدر پیوٹن کے اقتدار یا ذات کو کوئی خطرہ ہوا تو وہ ہر آپشن بشمول نیوکلیئر آپشن استعمال کرتے ہوئے سیمسنSamsonبن سکتے ہیں۔
صدر زیلنسکی وہ دوسرے لیڈر ہیں جو اگر اعلان کر دیں کہ یوکرین نیٹو میں شامل نہیں ہو گا تو تب بھی صدر پیوٹن کی فیس سیونگ ہو سکتی ہے اور فوجی آپریشن ختم ہو سکتا ہے۔چین کے صدر اس مسئلے میں بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔وہ واحد لیڈر ہیں جو صدر پیوٹن سے آپریشن ختم کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں اور صد ر پیوٹن،صدر شی کے کہے کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کریں گے۔آخر میں صدر بائیڈن وہ عالمی لیڈر ہیںجو صدر پیوٹن سے مل کر اور ان کو چند ضمانتیں دے کر حالات سنبھال سکتے ہیں۔دیکھیے اِن میں سے کب کوئی moveکرتا ہے۔
اس تنازعے میں یوکرین کے عوام نے غیر سفید فام لوگوں کے ساتھ بہت امتیازی سلوک روا رکھا ہے جسے دیکھ کو بہت دکھ ہوتا ہے۔یہ ایک غلط مائنڈ سیٹ ہے جو مہذب اقدار کی نفی کرتا ہے۔