پوری قوم بانجھ ہوگئی ہے
اچھے انسان کے سلسلے میں پوری قوم بانجھ ہوگئی ہے
BEIJING/WASHINGTON:
ہمارے سماج کا یہ وحشیانہ سچ ہے کہ ڈھونڈنے سے اچھے ڈاکٹر ، انجینئر ، استاد ، بڑھئی ، بیوروکریٹس ، سرمایہ دار ، تاجر مل جائیں گے ، لیکن ڈھونڈنے کے باوجود اچھے انسان ملنا انتہائی دشوار ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف ایک سے بڑھ سے ایک عیار و مکار ، شاطر، لٹیرا ، چور ، کمیشن خور، کرپٹ، منافق، خوشامدی، دھوکے باز، جھوٹا ، سفاک مجرم ، ذخیرہ اندوز ڈھونڈے بغیر آپ کو با آسانی دستیاب ہوجاتا ہے۔
اچھے انسان کے سلسلے میں پوری قوم بانجھ ہوگئی ہے۔ بڑے سے بڑا ڈاکٹر ، ماہر یونانی ادویات اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی یہ بانجھ پن ختم کرنے سے قاصر ہیں۔ ملک میں ہر جگہ ہر طرف برے انسان دندناتے پھر رہے ہیں۔ ایسا سماج دنیا میں کبھی اور نہیں ہے جہاں اچھے انسانوں کا قحط آیا ہوا ہو۔ ہمارا پورا سماج کوڑھی بن گیا ہے جہاں آپ کو ہر قسم کو ڑ ہی مل جائے گا۔
ایسے کوڑھی جو اپنا کوڑھ چھپائے چھپائے پھر رہے ہیں ، عالیشان لباس پہنے بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ، خوشنما خوشبوؤں میں نہائے ہوئے نظر آرہے ہوں گے لیکن اگر آپ کسی طرح سے ان کے سہولت کار بن جائیں اور پھر جب وہ اکیلے میں آپ سے ملاقات کریں گے تو آپ کو ان کا کوڑھ با آسانی نظر آجائے گا جب آپ سے وہ کرپشن و لوٹ مار کا حساب طلب کر رہے ہوں گے جب وہ قبضوں ، کمیشنوں کا لین دین میں مصروف ہونگے جب وہ ہر قسم کے جرائم کے معاملات طے کررہے ہوں گے جب وہ اپنے حصے کے لیے آپ سے بری طرح لڑ رہے ہوں گے تو ان کا یہ خفیہ روپ دیکھ کر آپ ڈر جائیں گے تو پھر آپ کو یہ یقین ہوجائے گا کہ یہ ہمارے سماج کے وہ کوڑھی ہیں جنھیں سب کچھ کرنے کی بھرپور اجازت حاصل ہے جنھیں کوئی روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے جنہوں نے اپنے جرائم سے پورے سماج کو زہر آلود کر دیا ہے۔ سماج اس میں بسنے والے لوگوں کا عکس ہوتا ہے جیسے لوگ ہونگے ویسا ہی سماج ہوگا اور اس سے مختلف ہو ہی نہیں سکتا ہے۔
'' ایک صحت مند اور بہتر سماج کیسا ہونا چاہیے'' اس پر قدیم بابل کے حکمران حمو رابی ، سقراط ، افلاطون ، ارسطو سمیت تقریباً 350 شخصیات اب تک اپنے اپنے تصورات پیش کرچکے ہیں۔ ان 350 تصورات میں چند باتیں یکساں پائی گئی ہیں کہ ایک صحت مند اور بہتر سماج میں دولت کی تقسیم مساویانہ ہونی چاہیے، ریاست کے وسائل پر چند اشخاص کی نہیں بلکہ عوام کی اجارہ داری ہونی چاہیے ، اس میں ہر شخص کو اپنی اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کے مطابق ترقی ، کامیابی کا حق ہونا چاہیے۔
اس میں رہنے والے ہر شخص کو خوش ہونے کے یکساں مواقع حاصل ہونے چاہیئیں۔ اس سماج کی بنیاد اخلاقیات پر کھڑی ہونی چاہیے۔ اس میں عدل اور انصاف کی حکمرانی ہونی چاہیے اس سماج میں حکمران عقل مند ، باشعور، باحیا ، ایماندار ہونے چاہیں۔
برداشت ، رواداری ، اختلاف پر سب کو اتفاق ہونا چاہیے ، تعلیم ، صحت اور روزگار ہر ایک کے لیے مفت ہونا چاہیے ، اسے مکمل فلاحی سماج ہونا چاہیے۔ اس میں مکمل مذہبی آزادی ہونی چاہیے ، ولیم گوڈون کہتا ہے '' گلے سڑے سماج میں اصلاح کی کوشش کرنا لاحاصل ہے لیکن اگر درست سماج حاصل کیا جاسکے تو فرد کی اصلاح خود بخود ہوجائے گی'' جب چھٹی صدی قبل مسیح میں یونانی فلسفے کا آغاز ہوا تو پہلے پہل تقریباً ڈیڑھ سو برس یونانی فلسفیوں جیسے تھالیس ، انامینڈر ، ہیرا قلیطس ، پارمی پندس ، ایمپی ڈوکلس ، انکسا گورس اور دیما قریطس نے اپنی ذہنی توانیاں کائنات کی حتمی حقیقت معلوم کرنے میں صرف کیں۔
دوسرے دور میں Sophists کہلانے والے یونانی دانشوروں اور فلسفیوں پروٹا گورس ، تھراسی میکس ،کیلی کلس، گارجیاس اور پولس نے موضوع بحث و فکر کو انسان کی طرف موڑ دیا ، پھر تیسرے دور کا آغاز سقراط سے ہوا جس نے موضوع فکر و بحث کو باقاعدہ طور پر نیکی ، بھلائی ، انصاف اور عدل کے حتمی معنی کی طرف اور '' اچھے'' انسان اور اچھے ترین نظام حیات یعنی خالص اخلاقی اوصاف کی طرف موڑ دیا اور ان سوالات سے بڑھ کر کہ اچھا ڈاکٹر کون ہے؟ اچھا ملاح کون ہے ؟ اچھا بڑھئی کون ہے ؟ اچھا منتظم کون ہے ؟ اچھا سیاست دان کون ہے؟ اچھا حاکم کون ہے ؟ اس سوال پر زور دینے لگا کہ اچھا انسان کون ہے۔
سقراط کی طرح روسو بھی اخلاقی مفکر کہلاتا ہے وہ کہتا ہے کہ '' ہمارے پاس اچھے سائنس دان ، اچھے ڈاکٹر ، اچھے ہنر مند ، اچھے منتظمین اور اچھے فنکار تو ہیں مگر اچھے شہری اور اچھے انسان نہیں ہیں اسی لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اگر ہم اچھے شہری اور اچھے انسان پیدا کرسکیں تو پھر ہمارے پاس سب کچھ ہوگا '' وہ برے شہری اور برے انسان کو فضول اور مضر قرار دیتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ دنیا کے ہر سماج میں سماجی برائیاں سائنس ، علم ، تجربے ، ہنر اور فن کی کمی کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ اخلاقی اوصاف کی کمی کی وجہ سے ہیں ، جب کہ لورینزو ویلہ اپنی کتاب De volupatate میں لکھتا ہے کہ انسان کے لیے سب سے اچھی چیز خوشی ہے خوشی انسانی جدوجہد کا واحد مطمع نظر ہے۔
اب آپ ہی بتائیں ایسے سماج میں جہاں برے انسانوں نے اسے یرغمال بنا رکھا ہو۔ وہاں کوئی کیسے خوش رہ سکتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے سماج میں پھیلے دکھ اور درد سب برے انسانوں کی وجہ سے ہیں توکیا یہ کہنا غلط ہوگا ، جب تک ہم اپنے سماج میں اچھے انسان پیدا نہیں کریں گے کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔ سماج کے سارے دکھ و درد و غم صرف اچھے انسان ہی ختم کرسکتے ہیں۔ سماج کی ساری برائیاں ، خرابیاں بھی وہ ہی دور کرسکتے ہیں۔ یہ موٹی سی بات ہم سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ تجربے پہ تجربہ کیے جارہے ہیں اور لوگوں کے دکھ درد اور غم بڑھاتے جارہے ہیں ، اگر ہم اور تجربے کریں گے تو دکھ ، درد اور غم اور بڑھ جائیں گے۔ اب اس صورت حال میں عقل اور شعور رکھنے والے کریں توکیا کریں۔