صرف ایک ووٹ

حقیقت میں عدم اعتماد تحریک ارب پتی کلب کا کھیل ہے جس میں ہر جانب سے ممبران کی خرید و فروخت کا سلسلہ عروج پر ہے


راؤ منظر حیات March 12, 2022
[email protected]

چار مارچ اٹھارہ سو ایک (1801) کا دن عام سا تھا۔ کسی قسم کی کوئی اہم بات نہیں تھی۔برصغیر میں مغل دور ختم ہو رہا تھا اور برطانیہ بڑی مضبوطی سے سونے کی چڑیا پر قابض ہو رہا تھا۔ مگر' اسی برس ' بلکہ اسی دن یعنی مارچ کی چار تاریخ کو امریکا میں ایک منفرد کام ہو رہا تھا۔

گھوڑے پر سوار عام سے کپڑوں میں ملبوس تھامس جیفرسن' امریکی صدر بننے کا حلف اٹھا رہا تھا۔ کسی قسم کے لاؤ لشکر کے بغیر اکیلا آیا تھا۔ اپنے گھوڑے کو پہلے اصطبل میںخود باندھ کر چیف جسٹس جان مارشل کے سامنے حلف اٹھا کر اسی دن تھامس امریکا کا صدر بن چکا تھا۔ جیفرسن نے ٹھیک دو صدیاں پہلے امریکا کو کیسے تبدیل کیا' انسانی حقوق کی برابری پر کس بہترین طرز پر عمل کیا' جمہوریت کو عام آدمی کے لیے کس بے مثال طریقے سے استعمال کیا۔

یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے۔ مگر سب سے نایاب بات یہ ہے کہ تھامس جیفرسن صرف اور صرف ایک ووٹ کی برتری سے صدر بن پایا تھا۔ اس کے سیاسی مخالف جان ایڈمز نے کبھی بھی پارلیمنٹ میں یہ نہیں کہا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ اور نہ ہی کبھی ایک ووٹ کو خرید کر تھامس جیفرسن کی صدارت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

جیفرسن پورے نو برس امریکا کا صدر رہا اور اپنے ملک کو سپر پاور بننے کا راستہ دکھا گیا۔ اس سے بھی بڑی بات' امریکا میں جمہوری روایت کو اتنا مضبو ط کیاکہ اس کی بدولت آج امریکا پوری دنیا میںسر اٹھا کر چل رہاہے۔ آپ مانے یا تسلیم نہ کریں۔ موجودہ دور میں امریکا کی برابری پر کوئی بھی ملک نہیں ہے۔ اپنے شہریوں یعنی امریکیوں کے لیے آج بھی ایک حدد درجہ منظم نظام موجود ہے۔یہ سب کچھ بنیادی طور پر جمہوریت کی اعلیٰ اور انسان دوست روایات کی تقلید کی بدولت سرانجام ہو پایا۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت کا درخت درست طریقے سے پروان نہیں چڑھ پایا۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک تو سب کے سامنے ہے کہ ملک کے ریاستی اداروں نے اقتدار پر طویل عرصے تک غیر قانونی حکومت کی۔ جمہوری عمل کو بہر طور ناقابل تلافی نقصان پہنچتا رہا۔ دراصل پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ نیم جمہوریت یا کنٹرولڈ ڈیمو کریسی ہے۔ یہ نمونہ دنیا کے اکثر ترقی پذیر ممالک میں موجود ہے۔ اور پسماندگی کی واحد قدرِ مشترک یہی حد درجہ ادنیٰ جمہوری عمل ہے۔

ایک بڑی وجہ عام لوگوں اور مقتدر طبقہ کا حد درجہ ذاتی حقیر جمہوری رویہ ہے۔ ہم بنیادی طور پر غلام اور آقا کی تقسیم پر مطمئن اور متفق ہیں۔ کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ اپنی پوری زندگی دوسروں کو زیر کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ ہم سے دنیاوی لحاظ سے کمتر انسان ' کسی طور پر بھی ہماری برابری کرنے کا تصور تک کر سکے۔ آج بھی کمی اور چوہدری کی بناوٹی تعریف میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ جوہری نکتہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ہم مساوات یا جمہوری رویہ کو اندر سے اپنے معاشرے میں غیر مستند سمجھتے ہیں۔

معاشرے میں معتبر صرف وہ ہے جو دوسرے کو نقصان پہنچانے کی استطاعت رکھتا ہے۔ دراصل ہمارے سیاسی نظام میں چند لوگوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے یا کروا لیا ہے۔ کہ حکمرانی کا حق صرف اور صرف انھیں کے لیے مختص ہے۔ اگر کوئی دیگر فرد یا سیاسی جماعت الیکشن کے ذریعے انھیں اقتدارسے نکال باہر کرے تو یہ مخصوص لوگ قیامت برپا کر دیتے ہیں۔ پورے نظام کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ غیر ممالک سے اقتدار میں آنے کے لیے مدد مانگنی شروع کر دیتے ہیں۔

جس چناؤ میں ہار جائیں ' وہ مکمل طور پر دھاندلی زدہ قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک الیکشن وہی درست ہے جس کے ذریعے وہ اقتدار کو اپنے قبضہ میں رکھ سکیں۔ بنیادی طور پر یہ جمہوریت کا نام استعمال کر کے ذاتی فوائد کے حصول کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ عوام کی اکثریت ان کے جال میں صرف اس لیے آ جاتی ہے کہ عام لوگ ہمارے نیم جمہوری نظام سے کبھی مستفید ہو ہی نہیں پائے۔ انھیں اتنی عدم مساوات یا ظلم کا سامنا رہتا ہے کہ یہ ہر بے معنی نعرے پر سردھننا شروع کر دیتے ہیں۔

اور کئی ادنیٰ وجوہات کی بنیاد پر متاثر ہو کر اپنا رائے حق دہی استعمال کرتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے ناقص نظام الیکشن میں لوگ معمولی سے فائدے کے لیے اپنا ووٹ ایک خاص شخص کو دے ڈالتے ہیں۔ مضبوط اور دولت مند طبقہ اس کمزوری کو خوب سمجھتا ہے اور بڑے بھونڈے طریقے سے دولت کے ذریعے الیکشن پر اثر انداز ہوتا ہے۔

اسی تناظر میں 2018ء کے چناؤ کو پرکھیے۔ اس الیکشن میں عمران خان نے پرانے سیاسی اکابرین کو شکست دے ڈالی۔ پنجاب جو کہ اس وقت سیاسی طور پر فیصلہ کن کردار رکھتا ہے۔ اس صوبہ میں تحریک انصاف نے برتری حاصل کی۔ اس کے فوراً بعد شور مچایا گیا کہ یہ چناؤ تو بالکل غلط ہوا ہے۔

عمران خان کو سلیکٹ کیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست ہو۔ مگر کوئی ایک سیاسی رہنما بتایئے جو طاقتور اداروں کی معاونت کے بغیر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ یا صدر بنا ہو۔ ملک کی کمزور جمہوری روایات کے مطابق ہر قومی سطح کا رہنما' ریاستی اداروں کی اپنے حق میں مدد کا خواہاں نظر آتا ہے۔ یعنی پھر اصولی سیاست کیا ہے؟ صرف یہی کہ اگر آپ پر ''دست شفقت'' رکھا جائے تو درست اور اگر کوئی دوسرا اسی فارمولے سے ''مسند شاہی'' پر آن بیٹھے تو وہ سلیکٹڈ ۔ آپ کی توجہ الیکشن کے فوراً بعد ایک مذہبی رہنما کے بیان کی طرف دلواتا ہوں۔

فرماتے ہیں کہ الیکشن میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے اراکین اسمبلی کو فی الفور استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ یہ غیر مناسب مطالبہ چناؤ کے صرف بیس پچیس دن بعد سامنے آیا تھا۔ بالکل اسی طرح پنجاب سے تعلق رکھنے والے مقتدر خاندان کے سرخیل نے فرمایا کہ صوبائی کابینہ تو میرے ساتھ طے ہوئی تھی۔

یہ تحریک انصاف کس طرح جیت گئی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اگر وہ اقتدار میں لائے جائیں تو ہر چیز ٹھیک' ورنہ ہر کام ہی غلط۔ سندھ میں ایک مخصوص سیاسی گروہ کو لوٹ مار کی اجازت دی گئی تو وہ بالکل پرامن تھے' ذرا پوچھ پڑتال شروع ہوئی تو قیامت برپا کر دی گئی۔ لانگ مارچ شروع ہو گئی۔ وفاقی حکومت کو دھمکیاں ملنی شروع ہو گئیں کہ فوراً مستعفی ہو جائیں۔جناب' یہاں کی سیاست ہی یہی ہے۔

اپوزیشن رہنما بضد ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کیا جائے۔ اس کی بنیاد یہ بتائی جاتی ہے کہ پی ٹی آئی نے ملک کو تباہ کر ڈالا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو پینتس برس سے مسلسل تخت پر براجمان ہیں' سوال اٹھا رہے ہیں کہ ساڑھے تین سال حکومت کرنے والے نے ملک کو فنا کر ڈالا۔ عدم اعتماد کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اس سے کوئی سروکار نہیں۔ عوام کی بھلائی تو نہ آج ہے اور نہ ہی آنے والے دور میں ممکن ہو گی۔

خان صاحب نے وزیراعظم بننے سے پہلے حد درجہ انقلابی بیان دیے تھے۔ لگتا تھا وہ ماوزے تنگ' لی کون یو اور چی گویرا سطح کے لیڈر ہیں۔ سماجی شعبے میں ان کی بے مثال کامیابی کی بدولت ہر ایک نے باور کر لیا تھا کہ وہ ملک کے لیے ایک مسیحا بن کر سامنے آئیں گے۔ مگر وہ اپنا کوئی بھی انقلابی وعدہ پورا نہیں کر سکے۔ ان کی سیاسی اور غیر سیاسی ٹیم نے وہ ادھم مچایا کہ خدا کی پناہ۔ ہاں ایک کام خان صاحب نے کمال سرانجام دیا' دوستوں کو دشمنوں میں تبدیل کر دیا ۔

حقیقت میں عدم اعتماد تحریک ارب پتی کلب کا کھیل ہے۔ جس میں ہر جانب سے ممبران کی خرید و فروخت کا سلسلہ عروج پر ہے۔ خان صاحب کے دس بارہ ووٹوں کو کامیابی سے ادھر ادھر کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ شاید ہو بھی جائے۔ مگر دنیا کے طاقتور ترین ملک میں دو سو بائیس برس پہلے تھامس جیفرسن صرف ایک ووٹ کی برتری سے اپنے ملک میںانقلاب برپا کر گیا۔ سوچیے۔ امریکا میں خرید و فروخت کیوںنہیں ہو پاتی اور ہمارے جیسے پوتر اور نیک سماج میں یہ سانحہ ہر دم ممکن کیوں ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں