ویلکم بیک
ٹی وی اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، لمحہ بہ لمحہ کی صورت حال اور اپنی اپنی پسند کے مطابق خلق خدا بھی اس کھیل میں شامل ہے
ہاتھوں کی زنجیر کھل گئی، میں تو خود اللہ سے عدم اعتماد کی دعائیں مانگ رہا تھا، اب اپوزیشن جال میں پھنس گئی ہے؛ جی، آپ نے صحیح جانا، یہ خطاب وزیر اعظم عمران خان کا ہے۔ کہنے کو تو انھوں نے اور بھی بہت کچھ کہا مگر اس تھوڑے کو ہی بہت جانئے۔
سیاسی مشاعرہ میں غزل ہو اور جواب آں غزل نہ ہو، کیسے ہوسکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی جوابی للکار کچھ یوں تھی؛ دھمکی ناقابلِ قبول۔آپ ہمیں دھمکی دیں گے تو پھر آپ کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عدم اعتماد کی تحریک کے لیے درخواست جمع ہو چکی۔ اب اسپیکر دو ہفتے کے اندر اندر اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔ یہ تحریک اپوزیشن کی طرف سے ہوگی، کامیابی کے لیے 172ارکان کی حمایت کے لیے اپوزیشن کو ان ارکان کی اسمبلی میں موجودگی کو یقینی بنانا ہے۔ حکومت کی جوابی اسٹرٹیجی کا بظاہر اسپیکر کے ذریعے کچھ قانونی موشگافیوں پر تکیہ ہے اور باقی ماندہ انحصار کچھ یوں ہے کہ ؛
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
ناحق خون پروانے کا ہو گا
اسی سیاسی حمام میں تمام عمر صرف کرنے والی اپوزیشن کو بھی اچھی طرح یہ سبق یاد ہیں، بلکہ وہ حکومت کو مزید نئے سبق سکھانے کے لیے تیاری کی بھی دعویدار ہے۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والا واقعہ آنے والے دنوں کی سیاست کے تیور بتا رہا ہے، باڈی پالیٹکس اور سیاسی عدم برداشت کا خراب موسم سامنے ہے، برتری کی محاذ آرائی میں سیاست دانوں نے اپنے اپنے حفاظتی بند کھول دیے ہیں، پرواز ناہموار ہوتی ہے تو ہوا کرے۔
ٹی وی اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، لمحہ بہ لمحہ کی صورت حال اور اپنی اپنی پسند کے مطابق خلق خدا بھی اس کھیل میں شامل ہے، کچھ جوش و جذبے کے جنون میں تر بہ تر اور زیادہ تر پریشان کہ اب کیا ہوگا؟ وہ احباب جو 80's کے اواخر اور 90'sکے عشرے کی سیاست سے واقف ہیں، ان کے لیے یہ سب سیاسی محاذ آرائی بہت دیکھی بھالی ہے۔ انھیں یہ کھیل اُس زمانے میں بار بار دیکھنے کو ملا جب کبھی ایک سیکیورٹی رسک کہلایا تو کبھی دوسرا، کبھی یہ ملک دشمن تو کبھی وہ ملک دشمن۔
یادش بخیر آئین میں 58 ٹو بی کی تلوار نیام میں موجود تھی، ہر دو اڑھائی سال کے بعد یہ نیام سے برآمد ہوتی اور پارلیمنٹ کو ٹھکانے لگا کر نئے الیکشن کا سلسلہ برپا کر دیتی۔ عجیب اتفاق تھا کہ اسمبلیاں توڑنے کی چارج شیٹ پر مبنی تقریر، تاریخ ، مقام اور کچھ ناموں کی تبدیلی کے ساتھ تقریباً ایک سی ہوتی تھی۔
حلیف سے حریف اور حریف سے حلیف بنتے دیر نہیں لگتی تھی۔ ظاہر ہے سب کچھ ملکی مفاد میں ہی ہوتا تھا۔ وقت گزرا تو 80's کے اواخر اور 90's کی دِہائی پاکستان کی سیاست اور معیشت میں ایک رائیگاں دِہائی کے طور پر لکھی گئی۔ یہاں تک کہ پرویز مشرف کے دور سے دائرے کا سفر پھر سے شروع ہوگیا۔
اس دِہائی کے دوران جاری سیاسی محاذ آرائی سے گرمیٔ بازارِ سیاست تو خوب رہی مگر معیشت کا حال پتلا ہو گیا۔ اکنامکس کے ایک تعلیمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ دِہائی معاشی اعتبار سے رائیگاں ثابت ہوئی۔ اس عرصے کے دوران فی کس آمدن میں سالانہ اضافہ سکڑ کر ایک فی صد کے لگ بھگ رہ گیا۔
غربت میں اضافہ ہوا ، ایک تہائی سے زائد آبادی ایک ڈالر روزانہ سے بھی کم پر گزر بسر کرنے پر مجبور ہوئی۔ دیگر سوشل انڈیکیٹرز بھی دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں مایوس کن رہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس عرصے میں بھارت اور بنگلہ دیش سمیت ایشیاء کے دیگر ممالک بھرپور ترقی کر رہے تھے۔ ایشیائی ٹائیگر ممالک کی اصطلاح اس حیران کن معاشی نمو کا ایک اظہار تھا مگر پاکستان اس پورے عرصے میں سیاسی دلدل میں دھنسا رہا۔
2018کے انتخابات کے بعد سے کچھ بڑی سیاسی پارٹیوں نے انتخابی عمل کو ماننے سے انکار کیا۔ اس کے بعد سے اب تک جو ہوا سب کے سامنے ہے۔ 90's کی دِہائی کے دوران مخالفین کے لیے جو نفرت اور عدم برداشت تھی، گزشتہ کچھ عرصے سے سیاست کا پھر سے وہی خاصہ بن چکا ہے۔ اس دوران تشدد کا عنصر بھی دھڑلے سے سیاست میں دَر آیا ہے ۔ سیاسی جلسے جلوس اور دھرنے سیاسی عمل کا حصہ رہے ہیں مگر جلائو گھیرائو ، دھرنے اور سڑکوں پر پُر تشدد دھماچوکڑی اب معمول بن رہے ہیں۔
بات کرنی مشکل ہے کہ اختلاف رائے کو بالعموم میڈیا سے لے کر عام آدمی بھی اب گوارا کرنے کو تیار نہیں۔اس سارے عمل میں جمہوریت کس قدر پھل پھول رہی ہے اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس دوران معیشت کس حال میں ہے۔
اس کا اندازہ سب کو پچھلے دنوں میں ہو چکا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور سوا ارب ڈالر کی قرض قسط جاری کرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔ بجلی گیس کی قیمتیں پیشگی شرائط کے طور پر بڑھانی پڑیں، اسٹیٹ بینک کی مزید خود مختاری کے لیے تمام تر تنقید کے باوجود ہاتھ اٹھانے پڑے۔ تجارتی خسارہ ناقابلِ برداشت ہو رہا ہے، روپے کی قدر مسلسل دبائو میں ہے۔ مگر سیاسی محاذ پر سب کچھ اس قدر شناسا ہو رہا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ہم 90's کی دِہائی میں دوبارہ پہنچ چکے ہیں۔
رہا جمہوریت کا احوال تو ایک بہت پرانا واقعہ وضاحت کے لیے کافی ہوگا۔ سردار پریم سنگھ اپنی بلی کے مرنے پر افسوس زدہ تھا۔دوست کے پوچھنے پر بتایا کہ بس نہلایا تھا، فقرہ مکمل ہونے سے قبل ہی دوست بولا؛ اوہو۔ اس ٹھنڈے موسم میں کیوں نہلایا ، اتنی ٹھنڈ میں اس نے مرنا ہی تھا۔ سردار جی نے اس کی تصحیح کرتے ہوئے بتایا؛ ناں بھئی ناں، بلی نہلانے سے نہیں مری، نہلانے کے بعد نچوڑنے سے مری۔ جمہوریت کی جان بخشی ہو سکتی ہے اگر اسے نچوڑنے پر اصرار نہ ہو تو، مگر کیا کیجیے کہ بیشتر کا اصرار ہی نچوڑنے پر ہے !