عدم اعتماد کی تحریک
پیپلز پارٹی کا کارواں 10دن کا سفر طے کر کے گزشتہ منگل کو اسلام آباد پہنچ گیا
بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین لانگ مارچ کیا۔ پیپلز پارٹی کا کارواں 10دن کا سفر طے کر کے گزشتہ منگل کو اسلام آباد پہنچ گیا۔
بلاول بھٹو نے ان دس دنوں میں مختلف شہروں میں لوگوں سے خطاب کیا۔ بلاول بھٹو کی پنجاب میں ایک سال کے دوران پیپلز پارٹی کی تنظیم سازی کے لیے جو کوشش کی اس کے مثبت نتائج نکلے۔ پنجاب میں بھی اس لانگ مارچ کی پذیرائی ہوئی اور بلاول بھٹو کا قافلہ اسلام آباد پہنچا تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور جمعیت علماء اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کے 88اراکین اسمبلی نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرا دی۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے پہلے فرمایا کہ وہ اسمبلی کے قوانین کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے مگر پھر فوراً پیشگوئی کردی کہ حکومت کے اتحادی ان کے ساتھ ہیں، سب ٹھیک رہے گا۔ عدم اعتماد کی تحریک جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش ہوگی تو قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق کے اس بیان سے ظاہر ہوگیا ہے کہ ان کا اس دن کیا رویہ ہوگا۔حکمران قیادت تحریک عدم اعتماد پر پریشان ہے۔ وزیر اعظم نے میلسی کے جلسہ میں اپنے مخالف سیاست دانوں کے بارے میں سخت لب و لہجہ استعمال کیا ۔
مخالفین کو عبرت کا نشان بنانے کی دھمکیوں سے نوازا گیا۔ معزز وزیر اعظم کا اپنے مخالف سیاست دانوں کے بارے میں یہ رویہ کچھ لوگوں کے لیے مایوس کن تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں یورپی یونین کے سفیروں کے یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے بارے میں پاکستان کے موقف پر تنقید پر مذمت کی تھی۔
وزارت خارجہ پہلے ہی ان سفیروں کے خط پر اپنے اعتراض متعلقہ ممالک کی وزارتوں کو بھجواچکا ہے۔ اتنے حساس معاملہ کو استعمال کرنے سے پاکستان کی مشکلات مزید بڑھنے کے امکانات ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا یوکرین کے بارے میں وہی موقف ہے جو بھارت اور متحدہ عرب امارات کا ہے مگر دوسری جانب ترکی یوکرین کو ہتھیار فراہم کررہے ہیں۔
پاکستان اس وقت بین الاقوامی منظر میں تنہائی کا شکار ہے۔ پاکستان کی برآمدات کا بڑا حصہ یورپی یونین کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس سے منسلک ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں سے ملک کی معیشت پل رہی ہے۔ حکمران بجٹ کی ترجیحات تبدیل نہیں کرسکتے۔ ماہرین معاشیات کا یہ موقف ہے کہ جب تک پاکستان کی معاشی ترجیحات تبدیل نہیں ہونگی معیشت بہتر نہیں ہوگی۔
ایک سیکیورٹی ریاست کبھی معیشت میں خودکفیل نہیں ہوسکی۔ایک وفاقی وزیر کو جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کے اس معاملہ کو سینیٹ میں زیر بحث لانے کی تحریک پر اعتراض ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اتنی اہم تبدیلی پر پارلیمنٹ میں تبدیلی نہ ہونا ایک عجیب بات ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے وزراء تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازشوں سے تعبیر کررہے ہیں جیسے بھٹو صاحب کی حکومت کے آخری دور میں ہوا تھا۔ بھٹو صاحب نے راجہ بازار میں اچانک دورہ کر کے امریکی وزیر خارجہ کا ایک خط لہراتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ امریکا انھیں اقتدار سے ہٹانے کی سازش کررہا ہے۔
اس وقت کے حالات میں اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بھٹو صاحب تیسری دنیا کے ممالک کو متحد کرنے کا مشن شروع کیے ہوئے تھے جب کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں حزب اختلاف متحد ہوئی ہے۔ عمران خان طالبان سے ہمیشہ سے متاثر رہے ہیں مگر افغان طالبان پاکستانی فدائین کو تخریبی کارروائیاں روکنے پر آمادہ نہیں کر پائے ہیں۔ طالبان کی حکومت کی حمایت کرنے پر بین الاقوامی برادری سے کٹ گئے ہیں۔ ان کی پالیسیاں ہی ان کے خلاف عدم اعتماد کے لیے کافی ہیں۔
موجودہ حکومت ''ڈیپ اسٹیٹ'' کی حکمت عملی کے تحت برسر اقتدار آئی تھی۔ حکومت نے ڈیپ اسٹیٹ کی پالیسیوں پر کچھ عمل کیا، کچھ اپنا ذاتی ایجنڈا چلایا۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے بقول پنجاب میں ایک ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا جن کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے تحریک انصاف کے اتحادیوں کو بھی اہمیت نہیں دی۔ وزیر اعظم کے بارے میں بھی یہ باتیں سننے میں آئیں کہ وہ اپنے حامیوں کے جنازوں تک میں نہیں گئے نہ کسی کے گھر جا کر تعزیت کی اور وہ اپنے اتحادیوں کو نظرانداز کرتے رہے۔
تحریک انصاف کی قیادت نے اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم سے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی پورا نہیں کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے اراکین تو حکمران قیادت سے ملاقات کے لیے تیار ہوگئے مگر جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگارا ان سے ملنے سے احتراز کرتے رہے۔ یہی معاملہ سردار رند کے ساتھ ہوا۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے مہنگائی کو آسمان تک پہنچایا۔ حکومتی پالیسیوں سے نہ تو صنعتکار اور نہ تاجر مطمئن ہوئے نہ ہی چھوٹے دکاندار قابو میں آئے۔
موجودہ تحریک انصاف کی قیادت شفاف انتخابات کے وعدے کو بھول گئی۔ خودمختار الیکشن کمیشن پر بار بار حملے ہوئے، RTS کے نظام کی گزشتہ انتخابات میں ناکامی کی تحقیقات کے لیے تیار نہیں ہوئے اور ووٹنگ مشین کو استعمال کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ شفاف انتخابات کے لیے 18ویں ترمیم کے تحت کی گئی قانون سازی کو ختم کرنے کے لیے آرڈیننس کا سہارا لیا گیا۔
موجودہ حکومت نے میڈیا کے بیانیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے ویسے ہی حربے استعمال کیے جو جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے آزمائے ہوئے تھے۔ تحریک عدم اعتماد پر حکومت کے مشیروں کی رائے ہے کہ قانون کے تحت 21 دن میں بحث ہونا ضروری ہے۔ حزب اختلاف والے کہتے ہیں کہ یہ مدت کم سے کم 7دن اور زیادہ سے زیادہ 14 دن ہے۔ ایک وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ اسپیکر کو قومی اسمبلی کا اجلاس فوری بلانا چاہیے مگر دوسرے وزیر کا خیال اس سے مختلف ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اجلاس 21ویں دن ہی ہونا چاہیے۔ اتنے اہم معاملہ پر بھی وفاقی کابینہ میں اتفاق نہ ہونا اپنی مثال آپ ہے۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ حکومت عدم اعتماد کی قرارداد کے موقع پر اپنے اراکین اسمبلی کو آنے کی اجازت نہیں دے گی اور مبینہ منحرفین کو بھی روکنے کی کوشش کی جائے گی، اگر حکومت نے یہ فیصلہ کیا تو پھر عدم اعتماد کی قرارداد پر بحث نہیں ہوسکے گی، مگر اب امتحان حزب اختلاف کی جماعتوں کا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ حکومت ''ڈیپ اسٹیٹ'' کی حکمت عملی کے تحت برسر اقتدار آئی تھی۔ اب اگر حزب اختلاف کی جماعتیں وہی کردار اپنائیں گی جو تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے لیے ادا کیا تھا تو پھر ان کے ساتھ نتائج بھی ایسے ہی نکلیں گے۔