اقتدار اور زوال
جب بھٹو صاحب کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی تو میرا ہی ایک دوست جو فوج میں تھا انھیں تدفین کے لیے لاڑکانہ لے گیا
MADRID:
باہر سے گھر آ کر میں جب بھی اپنے ٹی وی روم کا دروازہ کھولتا ہوں تو سامنے دیوار پر فریم میں لگی پینتالیس سال پُرانی تصویر نظر آ جاتی ہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو، ایک جنرل کے ساتھ صوفے پر بیٹھے ہیں اور صوفے کے پیچھے تین لوگ کھڑے ہیں جن میں ایک میں ہوں۔
یہ تصویر ایک ہوٹل کی ہے جہاں بھٹو صاحب کے اے ڈی سی کے ولیمہ کی تقریب تھی اور میں دولہا عابد راٹھور کا مہمان تھا۔ یہ تصویر عابد راٹھور کے ولیمے کے دن لی گئی تھی ، بہت سے لوگوں کے ساتھ میں بھی مہمان تھا۔ ہر وزیر ِ اعظم کے ساتھ تینوں فورسز نیوی، ایئرفورس اور فوج کے اے ڈی سی ہوتے ہیں۔
عابد راٹھور نیوی کا افسر تھا اور اُسی کا ولیمہ تھا۔ مرزا سعید علی جو کراچی میں نیوی کا افسر اور میرا عزیز تھا، اُس نے مجھے فون پر بتایا کہ عابد راٹھور کی پوسٹنگ بھٹو صاحب کے اے ڈی سی کے طور پر ہوئی ہے اور وہ کراچی سے راولپنڈی آ کر اپنی پوسٹ جائن کرے گا۔
مرزا سعید علی نے بتایا کہ عابد راٹھور کبھی راولپنڈی نہیں گیا اور وُہ راولپنڈی پہنچ کر مجھ سے ملے گا اور میں کچھ روز اُسے اپنے ساتھ رکھوں گا۔ اس طرح میرے تعلقات عابد راٹھور سے ہو گئے اور جب کچھ ماہ کے بعد اُس کی شادی ہوئی تو میں اپنی بیگم کے ہمراہ ولیمہ کی تقریب میں شامل تھا ۔ یہ تصویر جس میں مَیں بھٹو صاحب کے صوفے کے پیچھے کھڑا ہوں، میری بھٹو کے ساتھ دوسری ملاقات کی ہے ۔ اس دعوت ِ ولیمہ سے کافی عرصہ پہلے جب ایران کے شہنشاہ ''محمد رضا پہلوی ''نے اپنی بادشاہت کا ہزار سالہ جشن ساری دنیا میں منایا تو پاکستان میں بھی راولپنڈی کے بڑے ہوٹل میں فنکشن ہوا ۔ ہوٹل کا ہال بھرا ہوا تھا ۔
اسی دوران کسی نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو پشاور کی سائیڈ سے ہوٹل میں آئے ہیں اور فلاں کمرے میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یہ اُن کے وزیر ِ اعظم بننے سے کافی پہلے کا واقعہ ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم بھٹو صاحب کو بھی اِس فنکشن میں لے کر آتے ہیں۔ یہ لوگ گئے اور بھٹو صاحب کو اُن کے کمرے سے نکال لائے اور ان سے درخواست کی کہ وہ بھی جشن میں شامل ہوں۔یہ پہلا موقعہ تھاکہ میں نے بھٹو صاحب کو اتنے قریب سے دیکھا اور اُن سے مصافحہ بھی کیا۔ کچھ دیر بعد بھٹو صاحب نے اجازت لی کہ وہ تھکے ہوئے ہیں اپنے کمرے میں واپس جائیں گے۔
عابد راٹھور جب نیوی کی طرف سے بھٹو صاحب کا اے ڈی سی تعینات ہو گیا تو میری ملاقات بھی ہوتی رہی لیکن پھرعابد کی مصروفیات کی وجہ سے اُن میں کمی آتی گئی۔اس کے بعد جیسا کہ ہر عروج کو زوال آتا ہے بھٹو صاحب کے مخالفین نے اُن پر قتل کا ایک کیس بنوا دیا۔ اگر اُس کیس کی تفتیش فوراً ہو جاتی تو معاملہ ختم ہو جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا،جب بھٹو صاحب وزیر ِ اعظم نہ رہے تو ضیاء الحق نے اپنا کا م دکھایا اور قتل کا یہ مقدمہ جس میں بھٹو صاحب نامزد تھے، تفتیشی مراحل میں داخل ہوا ، اُس وقت ضیا ء الحق اقتدار میں تھا لہٰذا تفتیش بھی بھٹو کے خلاف گئی اور قتل کا مقدمہ بھی جسٹس مولوی مشتاق کی عدالت میں چل پڑا۔ جسٹس مشتاق شروع ہی سے بھٹو صاحب کا مخالف تھا لہٰذا اُن کے خلا ف ضیاء الحق کی معاونت سے شہادتیں قلمبند ہونے لگیں۔
بھٹو صاحب کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے پولیس جیل سے لے کر ہائی کورٹ آتی تھی جہاں عدالت کے اندرونی حصے میں اُن کی کار لائی جاتی ۔ جس کار میں پولیس پیشی کے لیے انھیں لے کر آتی تھی وہ انتہائی گھٹیا ہوتی تھی۔ میری ڈیوٹی دو دفعہ لگی کہ میں بھٹو کی کار آنے پر انھیں کار میں سے لے کر مولوی مشتاق کی عدالت میں لے جائوں۔ بھٹو صاحب کار میں سے نکل کر ہائی کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار عقیل صاحب کے کمرے میں بیٹھتے ، وہاں پر وہ ایک کپ کافی کا پیتے اور پھر انھیں عدالت میں پیش کیا جاتا۔
دو دن تک میں انھیں اس گھٹیا کار میں سے لے کر عدالت میں لے جاتا اور پھر سماعت ختم ہونے پر انھیں واپس کار میں چھوڑتا۔ ہائی کورٹ نے دوسرے ملزموں کے ساتھ انھیں بھی سزا سُنا دی۔ پھر وُہ سپریم کورٹ میں اپیل میں گئے لیکن وہاں بھی عدلیہ نے اُن کے ساتھ وہی کچھ کیا جو جنرل ضیاء الحق چاہتا تھا ۔ جب بھٹو صاحب کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی تو میرا ہی ایک دوست جو فوج میں تھا انھیں تدفین کے لیے لاڑکانہ لے گیا۔
بھٹوصاحب کی صاحبزادی بینظیر اقتدار میں آئی اور پھر اُس کا انجام بھی بھٹو صاحب سے مختلف نہ رہا کیونکہ جب وہ لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کر کے واپسی کے لیے روانہ ہوئی تو دشمن کی گولی کا نشانہ بن گئی۔ بھٹو صاحب کے دو بیٹے بھی قتل ہوئے۔ بینظیر کے بعدآصف علی زرداری جو اُن کا شوہر ہے، اقتدار میں آیا۔آج زرداری اور بے نظیر کا بیٹا بلاول اپنی پارٹی کا سربراہ ہے۔ اگر آپ تاریخ کے صفحات پلٹیں تو نظر آئے گا ہر اقتدار کو زوال آتا ہے ۔