کچھ نہیں معلوم
کچھ نہیں معلوم یہ جنگ اور ہلاکت خیزی کا یہ سلسلہ 21 ویں صدی میں بھی ختم ہوگا یا نہیں
آج کل یوکرین پر روس حملہ آور ہے۔ افسوس کہ 21 صدی بھی ماضی کی صدیوں کی طرح جنگ کی صدی ثابت ہورہی ہے۔ اس موقع پر مجھے جنگ کے موضوع پر اپنی ایک تحریر یاد آتی ہے جسے آج پیش کرنا چاہوں گی۔
جب انسانوں نے پیڑوں سے اُتر کر بستیاں بسائیں اور جب ان کے سر میں دوسری بستیوں کو فتح کرنے اور دوسرے قبیلوں کو غلام بنانے کا سودا سمایا، تو اس وقت سے آج تک کیسے کیسے فاتح اور کتنی ہی مغرور قومیں نمودار ہوئیں اور خون کے دریا بہا کر کچھ عرصہ بعد یوں نیست و نابود ہوئیں کہ آج ان میں سے کچھ کا تذکرہ محض تاریخ کی کتابوں میں رہ گیا ہے۔
ان تمام قبیلوں اور قوموں نے دنیا میں کیسی غارت گری نہیں مچائی ، شاید ہی چند ایسی ہوں جن کے ہاتھ دوسروں کے خون سے رنگین نہیں ۔ انیسویں صدی کے آخر میں لوگوں کا خیال تھا کہ شاید اب دنیا میں امن و امان قائم ہوجائے، شاید انسانی خون اب دنیا میں ارزاں نہ رہے لیکن بیسویں صدی نے ثابت کردیا کہ وہ انسان کی سب سے خونیں صدی تھی، اسی میں دو خوفناک ترین جنگیں لڑی گئیں جنھوں نے تقریباً ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، چھوٹی اور کمزور قومیں، روندی گئیں، جرمنی اور جاپان جیسی طاقتور قوتوں کو ان سے زیادہ طاقت رکھنے والے ملکوں نے تہس نہس کر دیا۔
ڈکٹیٹروں نے اپنے اپنے ملکوں میں لاکھوں نہیں کروڑوں انسانوں کا قتل عام کیا اور اسے انقلاب کی فتح کا نام دیا۔ اسی طرح اٹھارویں صدی میں جب امریکا نے برطانوی راج سے آزادی حاصل کی تو بہت سے امریکیوں کا خیال تھا کہ ان کے ملک کی آزادی دنیا کے لیے ایک عظیم واقعہ ثابت ہوگی، لیکن امریکی حکومت نے جب تک اپنی سرحدوں سے باہر فتوحات کے لیے نہیں دیکھا تھا، اس وقت تک امریکا ایک امن پسند ملک تھا، دوسری جنگ عظیم میں امریکا کی شرکت اور عظیم ترین قوم بننے کے جنون نے اسے ہیروشیما اور ناگاساگی کے قتال پر اُکسایا۔
اس کے بعد سے اب تک امریکی حکومتوں نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ کوریا، ویتنام، افغانستان اور عراق کی تباہی و بربادی کے درمیان اور بہت سے ملکوں کے نام آتے ہیں جو امریکا کی ہوس ملک گیری کا نشانہ بنے۔
امریکاکی یونیورسٹی آف ہوائی سے وابستہ پروفسیر گلین ڈی پیج کی امن پسندی کی عالمی تحریک سے بڑی گہری وابستگی ہے۔ ان کی کتاب ''ہلاکت گریز عالمی علم سیاسیات'' عدم تشدد کے بارے میں اکیسویں صدی کی پہلی اہم کتاب ہے جو منظر عام پر آئی ،وہ ایک امریکی شہری ہیںجس کے تناظر میں اس کی اہمیت کچھ اور بڑھ جاتی ہے ۔ پروفیسر پیج نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک نوجوان فوجی کے طور پر کیا۔ وہ کوریا کی جنگ لڑنے گئے اور وہاں سے لوٹے تو بہت دنوں تک اپنے آپ کو ''جنگی ہیرو'' سمجھتے رہے۔ آہستہ آہستہ ان کی قلب ماہیت ہوئی اور اب وہ دنیا میں عدم تشدد کے ممتاز اور معروف پرچارکوں میں سمجھے جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا کتاب پروفیسر پیج کی پچاس برس کے مطالعے اور مشاہدے کا نچوڑ ہے۔ یہ جہاں ہمیں بتاتی ہے کہ امریکا سمیت دوسرے بہت سے ملکوں نے کس طرح تشدد کو ایک طرز زندگی کے طور پر اپنایا ہے، وہیں انھوں نے یہ بات بھی ثبوت و شواہد کے ساتھ بیان کی ہے کہ عدم تشدد اور ہلاکت گریزی امریکا میں اس وقت بھی موجود تھی جب امریکا ایک نئے ملک اور امریکی ایک نئی قوم کے طور پر ابھررہے تھے۔
پروفیسر پیج کا کہنا ہے کہ امریکا میں عدم تشدد اور ہلاکت گریزی کا آغاز مقامی لوگوں یعنی ریڈ انڈین باشندوں اور یورپ سے آکر امریکا میں آباد ہونے والے سفید فاموں کے باہمی خوشگوار اور پر امن تعلقات سے ہوا تھا۔1682سے 1756 تک پنسلوانیا میںسفید فام صلح پسند Quakers اور ڈیلاویر کے انڈین ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر اور امن سے رہتے رہے۔ برادریوں کے دروازے ایک دوسرے سے دوستانہ ملاقاتوں کے لیے کھلے رہے اور کسی نوعیت کی شرانگیز افواہ کے بارے میں باہمی صلاح مشورہ کرنے کے لیے وہ عہد نامے کی شرائط پر عمل کرتے رہے۔
امریکی انقلاب سے پہلے کی 13 کالونیوں میں سے 12 کالونیوں کے قوانین میں فوجی ملازمت میں ہلاکت پر اصولی مذہبی اعتراض کے لیے قانونی استثنا موجود تھا۔انتہائی روشن خیال، رہوڈ آئی لینڈ (1673) نے ان لوگوں کو جن کے عقائد انھیں ''فوجی تربیت حاصل کرنے، مسلح ہونے، لڑے کے لیے جمع ہونے، ہلاک کرنے'' سے روکتے تھے ان ذمے داریوں سے سبکدوش کرتے ہوئے یہ حکم بھی دیا کہ معترضین کو ''کسی سزا، جرمانہ، جائیداد کی ضبطی ، تعزیر یا قید کا سامنا '' نہیں ہونا چاہیے۔
امریکی قوم کی تشکیل کے دنوں میں دستور ساز مباحثوں میںہلاکت گریزی موجود تھی۔ 1775میں کانٹی نینٹل کانگریس کے منظور کردہ پہلے قوانین میں سے ایک عہد ، ہلاکت گریزی کو مذہبی اصول ماننے والوں کے لیے ''عدم تشدد'' کا تسلیم کیا جانا تھا۔ 1789 میں امریکی دستور میں حقوق کا بل شامل کرنے والی دستور ساز بحثوں میں، نمایندے جیمس میڈیسن نے آرٹیکل 2میںایک شق تجویز کی جس کے تحت قتل سے انکار کرنے کا ہر شہری کا حق تسلیم کیا جاتا تھا ۔
امریکی انقلاب میں (1775-83) ، مختلف نسلوں اور مذہبی عقائد رکھنے والے دونوں طرف کے آباد کاروں نے قتل کرنے سے انکار کردیا۔ خوش الحانی سے بائبل پڑھنے والے ایک برطانوی سپاہی ، تھومس واٹسن نے قتل کرنے سے انکار کردیا اور بعدازاں وہ میسا چوسٹس کاایک کوئکرپادری بن گیا۔ برطانوی ناکہ بندی اور بعد میں بوسٹن کے امریکی محاصرے کے دوران (1774-76) ، صلح جوکوئکروں نے مد مقابل جرنیلوں واشنگٹن اور ہوو دونوں کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ انھیں وہاں کے شہریوں اورپناہ گزینوں میںامداد تقسیم کرنے کی اجازت دی جائے۔ بعد ازاں خرابی بسیار ، اس ہلاکت گریز اصول کو تعاون اور احترام نصیب ہوا۔
امریکی سماج میں ہلاکت گریز امکان جوہری عہد کی ''سردجنگ'' (1945-91) کے دوران ایک بار پھر ظاہر ہوا جب دوسری عالمی جنگ ، خانہ جنگی اور پہلی عالمی جنگ اور ۔ ویتنام (1964-75) اور کوریا (1950-53) کی انتہائی خونیں چوتھی اور پانچویں جنگوں کے بعد ہلاک شدگان اور زخم خوردہ افراد کو واپس لایا گیا۔ ریاست ہائے متحدہ، سوویت یونین اور ان کے اتحادیوں کے درمیان ہونے والی سرد جنگ کے دوران تقریباً دو کروڑ افراد عالمی طور پر قربان کیے گئے۔ جنگ کوریا میں تقریباً 22,500 جبری طور پر بھرتی کیے جانے والے امریکیوں نے قتل کرنے سے انکار کیا۔ جنگ ویت نام کے خلاف متاثر کن مزاحمت ہوئی اور جنگ سے انکار کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔
سرد جنگ کے دھندلکے میں عراق کے خلاف خلیجی جنگ (1991) کے دوران ہلاکت گریز مسلک ایک بار پھر نمایاں ہو کر ابھرا۔ اس دفعہ شہریوں کی جانب سے جنگ میں شرکت کی مزاحمت کا معاملہ نہیں تھا کیونکہ جبری بھرتی لاگو نہیں ہوئی تھی، بلکہ یہ معاملہ فوجی خدمات سرانجام دینے والے اور ریزرو فوجیوں کا تھا جنھوں نے قتل کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اصولی اعتراض کرنے والے پچاس بحری فوجیوں کا کورٹ مارشل کیا گیا اور وہ جیل میں ڈال دیے گئے ۔
افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد افغان جہاد، 9/11 کا واقعہ اور اس جنگ میں امریکا اور نیٹو کی فوجی مداخلت اور اب یوکرین میں روسی مداخلت۔کچھ نہیں معلوم یہ جنگ اور ہلاکت خیزی کا یہ سلسلہ 21 ویں صدی میں بھی ختم ہوگا یا نہیں۔